یہ بھی اُس کے ساتھ تھا

Eastern View of Jerusalem

He was also with Him

By

Kaidar Nath

کیدار ناتھ

Published in Nur-i-Afshan Dec 7, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۷دسمبر ۱۸۹۴ ء

فقرہ مندرجہ عنوان لوقا کی انجیل کے بائیسویں  باب کی چھپنویں  (۲۲۔۵۶)آیت میں مذکور ہے۔ اس کے مطلب پر تھوڑی دیر کے لئے غور اور فکر  کریں۔ تاکہ ناظرین نورافشاں  خواہ ہندو ہوں ۔ خواہ مسلمان  اُس تاریکی  سے جو ابھی  تک برٹش  انڈیا  کے بعض  مخفی حصص (چُھپے حصّوں )میں چھائی ہوئی ہے۔ نکل کر آفتاب صداقت (سچائی کا سورج)کے پر تو اجلال (جلالی سايہ)سے منور ہو جائیں۔

مصر کے بادشاہ فرعون نے بنی اسرائیل کو کیوں ستایا ؟ اس لئے کہ یعقوب کے مصر میں خو ش باش  ہونے کے کچھ عرصہ پیشتر  ایک قوم سے جو ہکساس کہلاتی تھی۔ اور جو گلہ بانی کرتی تھی ۔ شاہانِ مصر کو سخت  تکلیف پہنچی تھی۔ مذکورہ فرعون اور اُس کی رعایا نے اپنے وہم میں یہ خیال کیا کہ یقیناً  یہ بھی وہی ہیں ۔ ایسا نہ ہو ۔ کہ ان کی ترقی پھر ہمارے  زوال(نا کامی۔پستی)  کا باعث  ٹھہرے ۔ پس انہوں نے بنی اسرائیل کو اذیت  پہنچانے پر کمر باندھی ۔ اُن  کی اولاد  نرنیہ (لڑکے)قتل  کی گئی اُن سے خشت  پزی(اينٹيں پکانا) کی بيگارلی(بغير مزدوری)۔ اور  اجرت کو ڑی نہ دی ۔ یہاں تک  ۔ کہ اُن کی ہلاکت کی خواہش  میں آپ ہی دریائے قلزم میں غرقِ آب(پانی ميں ڈوبے) ہوئے  ۔

آج تک ہمارے ہندو بھائی عالمگیر کو بدی کے ساتھ یاد کرتے ہیں

ہمارے ملک ہندوستان  میں سلطان اورنگ زیب محمد  عالمگیر نے ایک ہندو فرقہ  ست ناراین سے متوحش  (نفرت کرنےوالا)ہو کر کل ہندوؤں پر اس  خام خیالی سے۔ کہ یہ بھی وہی ہیں۔ اس قدر سختی  روا رکھی۔ کہ آج تک  ہمارے  ہندو بھائی عالمگیر کو بدی کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ ؎

والیہ بھوپال کے شوہر  متوفی(وفات پانے والا) امیر الملک والا جاہ نواب صدیق الحسن خان  صاحب بھی اسی مرض لاعلاج میں مبتلا ہو کر راہے ملک عدم(مرنے کے بعد کی جگہ) ہوئے۔

 ۱۸۵۷ء  میں بعہد کمپنی بہادر کا ر تو س منہ سے کاٹے جانے کے حکم پر امریکن  پادریوں اور ہندو ستانی مسیحیوں کا ستایا  جانا ۔ جانوں سے مارا جانا۔ ابھی تک ہماری آنکھوں کے سامنے ہولناک نظارہ موجود ہے۔

قیصر ملکہ معظمہ دام اقبالہا کے عہدِ معدلت(عدل و انصاف کا دور) مہدمیں بعد نفا ذایکٹ اسلحہ ہندو ستانیوں کے مسیح کو قبول کرنے پر یہ کہنا کہ  اب تو یہ صاحب لوگ ہوگئے ۔ کوٹ پتلون پہنيں گے ۔ چھری کانٹے سے کھائیں گے۔پھر اُس  پر یہ کہتا ۔ کہ مس کے اشتیاق (شوق)میں عیسائی ہو گئے روٹیوں کا سہارا ہو گیا ۔ بے دھرم ہو گئے۔ ابتوآبدست سے بھی چھوٹے۔پھر مسیحیوں  سے سخت نفرت اور عداوت(دُشمنی) ۔ ہر وقت لعن طعن(لعنت) ۔ کنوؤں سے پانی بھرنے کی ممانعت(منع کرنا)۔

اب میں کہتا ہوں۔ کہ اگر مسیحی  بھی وہی ہیں۔ اور اسی لئے اُن کی حقارت (ذلت۔نفرت)کرنا اور ان کو تکلیف  پہنچانا ہمارے ہندو محمدیوں کے وہم میں متمکن (قرار پکڑنے والا۔جاگزين)ہے۔ تو مہربانی کر کے ذیل کی مشکل کو حل کر دیں۔ جو نہایت خطرناک ہے۔ اس عقدہ (گِرہ،مشکل)کے کھولنے میں یقیناً ہمارے ہمعصر نو ر علی  نور تو ضرور ہے کچھ نہ کچھ روشنی عنایت (توجہ)فرمائیں گے۔ کیونکہ

     میدان اخبار تنگ نہیں۔ اور پائے قلم لنگ نہیں ۔

 دیکھئے  گذشتہ تواریخ ِہند پر نظر ڈالنے سے ثابت ہو چکا ہے۔ کہ برٹش گورنمنٹ  کی مساوی (برابر۔يکساں)کوئی سرکار اس ملکِ ہندکو نصیب نہیں ہوئی ریل ۔ تار ۔ جہاز ۔ شفاخانہ ۔ مدرسہ ۔ سٹرک ۔ پُل ۔ مختلف کلیں(مشينيں) ۔ اسباب ِتجارت۔ چھاپہ وغیرہ اس ملک کو کب ملا تھا؟ ۔

مذہبی آزادی ۔ ہندو سنکھ (بڑی کوڑی جو مندروں ميں بجائی جاتی ہے)بجائیں۔ ملاں بانگ لگائیں  برہمو سماج ۔ دیو سماج ۔ آریہ سماج ۔ سنگھ سبھا ۔ دہرم سبھا۔ انجمن حمایت اسلام ۔ اشاعت السنت ۔ تہذیب  الاخلاق ایک ایسی شکل جس کے اضلاع مختلف  ۔ اور گوشہ  غیر مساوی۔ پھر بھی چین چان  امن امان خوش گذران ۔ پس عيسائیوں  سے عنادو عداوت (لڑائی و دُشمنی) محض اس غرض سے کہ یہ بھی وہی ہیں یعنی اُسی خداوند  یسوع  مسیح کو مانتے  ہیں۔ جسے انگریز بھی اپنا نجات دہندہ جانتے ہیں۔ اولیٰ الام منکم کی صاف تفسیر (تشريح۔وضاحت)ہے یا نہیں اور۔ الناس علے دین ملوکھم کے خلاف تقریر ہے یا نہیں ؟

Leave a Comment