محمد عربی

Charity

Published in Nur-i-Afshan Feb 26, 1885

خیرات

مطبوعہ ۲۶۔فروری ۱۸۸۵ء

خیرات نیکی ہے جب تک با موقعہ ہے ۔بے موقعہ خیرات اکثر بدی کا باعث بن جاتی ہے ۔ دنیا میں اسے نیک نہاد آدمی بہت ہیں جو محتاجوں کو خیرات دینا اور ہر ایک سوالی کا سوال پورا کرنا ثواب عظیم جانتے ہیں وہ صرف سوالی کی خوشی پر جو سوال پورا ہوتے وقت اُس کو حاصل ہوتی ہے نظر رکھتے ہیں یا اپنی خاص خوشی کو جو خیرات دینے سے پیدا ہوتی ہے دیکھتے ہیں ۔لیکن خیرات کے مستحقوں یا غیر مستحقوں میں کچھ تمیز نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں سوالیوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور جماعت انسانی کی پیداوار بہت کچھ ایک اندھے کنویں میں گری جاتی ہے ۔

 بہت سا افلاس (غربت)اور گناہ جواب موجود ہے پچھلے زمانے کی غلط خیرات کا باعث ہے کیو نکہ اُس نے آبادی کے ایک بڑے حصہ کو غافل (بے خبر) کو تہ اندیش (تنگ نظر)اور بےکار بنادیا ہے اور بے شمار خاندانوں کو جو جماعت انسانی کے مفید ممبربن سکتے تھے ہاتھ پاؤں باندھ کر دوسروں کی پیدا کی ہوئی چیزوں پر بیٹھا رکھا ہے ۔پنجاب میں ڈوم ،میراسی، راول (جوگی)، راونت  وغیرہ گداگر فرقوں کی بناوٹ پر اگر غور کی جائے تو غالباً ان کی موجد بھی بے موقعہ خیرات نکلے گی ۔سید پیرزادوں اور برہمن سادھو سنتوں وغیرہ کی بیکاری اور کام سے بچنے کے لئے اس عذر کی وجہ کہ کا م سے ہماری فضیلت نہیں رہتی محض یہی بے جا خیرات ہے ۔ صبح سے شام تک جس قدر فقیر فقرے گھر گھر ستیوں کے دروازے کٹکھٹاتے اور اُن کے ناک میں دم کرتے ہیں اسی عام خیرات دلیر بنے ہوئے ہیں بازاروں او ر گلی کو چوں میں جتنے بھیک مانگتے اپنے پاکھنڈوں (دغا فریب)سے لو گوں کو دق کرتے ہیں۔ اسی خیرات کی وجہ سے اپنی تعداد میں ترقی پاتے ہیں غرض یہ سب کچھ اسی غلط خیرات کے نتائج ہیں جو اب تک ہمارے ملک میں جاری ہے۔

فیاضی انسانی جماعت کی اعلیٰ خوبیوں میں سے ایک ہے اور اپنے آپ میں ایک خاص حکمت رکھتی ہے جس کے سیکھنے کے واسطے بہت سے آدمیوں کو طفل مکتب(سکول کے بچے) بننے کی ضرورت ہے ،کیو نکہ ہر دلعز یز آدمی کسی کابھی عزیز نہیں رہتا وہ اپنی سادگی کی وجہ سے غیر و ں کی امداد کرنے میں اپنے خوشیو ں کو لوٹتا ہے اور پھر گدا گروں کا ساتھی بنتا ہے جو شخص حد سے زیادہ مہر بان ہے وہ اپنے خاندان کے حق میں ظالم بن سکتا ہے کیونکہ خاندان کے منہ سے روٹی چھین کر ان لوگوں کو دیتا ہے جو کھا پی کر محض حرام کرتے ہیں  اور کسی کو حتی کہ اپنے آپ کو بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔

 ہم یہ نہیں کہتے کہ خیرات نیکی نہیں ہے بلکہ ہم ترغیب دیتے ہیں کہ جہاں تک تم سے ہو سکے کماؤ اور جہاں تک ہو سکے بچاؤ اور پھر جہاں تک ہو سکے خیرات کرو کیونکہ خدا کے نام پر دیا جاتا ہے وہ کبھی کھویا نہیں جاتا، بلکہ ایک نہایت محفوظ بنک گھر میں جمع ہوتا ہے ہم کبھی نہیں چاہتے کہ دولت مند آدمی اپنی دولت کو کنجوس بخیل کی طرح زمین میں گاڑ چھوڑے اور اُس سے اپنے آپ  یا اپنی قوم کو فائدہ نہ پہنچائے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نہیں چاہتے کہ مال مفت دل بے رحم کی طرف اپنی جھوٹی تعریف کے واسطے اندھا دھند لٹوادے ۔ نہیں ۔بلکہ دانائی کے ساتھ اپنے خویشوں (قریب کا رشتہ دار)اور رفیقوں (دوستوں )کی امداد کرے قوم کا ہمدر دبنے عام مدارس بنائے، مفید عام کتب خانے قائم کرے ،عجائب خانے بنائے ،قومی حرفت اور صنعت کے لئے نمائش گا ہ کھولے ،خیراتی ہسپتال جاری کرے، غریبوں کی تعلیم میں زرسے زور سے قلم سے مدد دے۔ ایسے مصیبت زدوں کو جو اپنے اوپر سے کسی طرح مصیبت کا بوجھ اُٹھا نہیں سکتے تکلیف سے چھوڑ ادے ۔لنگڑو ں ،لولو ں، اپاہجوں، اندھوں اور تمام اُن لوگوں کو جو اپنی آپ مدد کرنے میں معذور ہیں مدد کرنا اپنا فرض سمجھے، کیونکہ یہی لوگ اصل میں دولت مند کی خیرات کے مستحق ہیں ۔ غرض خیرات کی اصل خیرات ہونی چاہئے تاکہ اپنے اصلی حقداروں کو فائدہ پہنچے اور نہ بناوٹی خیرات کی خیرات پانے والوں کے حق میں اُلٹا باعث ضرر بنے ۔ کیسا افسوس ناک یہ خیال ہے کہ اب تک اُن لوگوں نے جو صرف نیکی کرنا چاہتے تھے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس نیکی کے بجائے بدی کا بیج بویا ہے ۔