YOUR FATHER LIKES THIS
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan July 6, 1894
نور افشاں مطبوعہ۶جولائی ۱۸۹۴ ء
’’اے چھوٹے جھنڈ مت ڈر ۔ کیونکہ تمہارے باپ کو پسند آیا ۔ کہ بادشاہت تمہیں دے‘‘( لوقا ۱۲: ۳۲)۔
اگرچہ آسمانی و زمینی ہر دو بادشاہتوں کا حقیقی بادشاہ خدا ئے تعالیٰ ہے۔ مگر جسمانی طور سے روئے زمین پر بادشاہت کرنے کے لیے اُس نے اپنا نائب السلطنت آدم کو جسے اُس نے اپنی صورت پر پیدا کیا تھا مقرر کیا ہے۔ تاکہ وہ اُس پر بسنے والوں کا سردار ہو کر عدل و رحم گُستری (پھیلانے والا)کے ساتھ سلطنت و حکمرانی کرے۔ اَور اس دنیا میں انتظام قائم رہے۔ اس میں شک نہیں کہ کسی قوم یا فرد قوم کا اُس کے ابنائے جنس پر حکمران ہونا خدائے تعالیٰ کی پسند پر منحصر و موقوف ہے۔ جو سلطان السلاطین(بادشاہوں کا باشادہ) اَور احکم الحا کمین (حاکموں کا حاکم)ہے جیسا لکھا ہے کہ ’’جتنی حکومتیں ہیں ۔ سو خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے۔ سو خدا کی مقرری بات کا سامنا کرتا ہے‘‘( رومیوں ۱۳: ۱۔ ۲)۔ اس لیے ضرور ہے کہ رعایا اپنے حاکم و بادشاہ کی ۔ خواہ وہ ہم مذہب ہو۔ یا خلاف مذہب فرمانبردار و مطیع رہے۔ کیونکہ خدا کا حکم ہے کہ ہر ایک حکومت کے جو انسان کی طرف سے ہے۔ خداوند کے لیے تابع ہو۔ بادشاہ کے اس لیے کہ وہ سب سے بزرگ ہے۔ یا حاکموں کے اس لیے کہ وہ اُس کے بھیجے ہوئے ہیں۔ تاکہ بدکاروں کو سزا دیں۔ اَور نیکوکاروں کی تعریف کریں‘‘(۱۔ پطرس ۲: ۱۳، ۱۴)۔ لیکن جب کبھی فریقین میں سے کوئی فریق الہٰی مقرر کردہ انتظام و قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یعنی حاکم عدل و انصاف میں طرف داری کرتا۔ یا رعایا نا فرمانی و بغاوت کرتی ہے۔ تو وہ جس کی حکومت پشت در پشت ہے۔ درستی انتظام کے لیے اپنی حکمتِ بالغہ سے غیر مرئی(جسے دیکھانہ جاسکے) طور پر مداخلت کرے بواعثِ نقائص(خرابی کی وجہ) کو دور دفع کرنے میں اپنی حکومت و اختیار مطلق کا اظہار کرتا ہے۔ اور انتظام کی نئی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
ماہرین علمِ تواریخ سے مخفی(پوشیدہ) نہیں ہے۔ کہ دنیا میں کیسی کیسی زبردست عالمگیر سلطنتیں قائم ہوئیں مثل کسدیوں ،مادیوں اَور رومیوں کے ۔ اَور کیونکر چشمِ زون (فوراً)میں برباد ہو گئیں۔ اَور بجز(مگر،بغیر) تواریخی صفحوں میں باقی رہنے کے اُن کا کچھ نام و نشان باقی نہ رہا۔ حقیقت میں انقلابِ سلطنت کا اصلی سبب تو صرف خداوند ہی کو بخوبی معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس میں شوکت نہیں کہ حکومت میں کسی نقص عظیم سے چشمِ پوشی اَور سہل انگاری(آرام طلبی،کاہلی) ۔ آخر کو اُ س کی تباہی و بربادی کا موجب ثابت ہوئی ہے۔ لیکن غالباً سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ الہٰی حکومت کے خیال کو فراموش کرکے حکومت اپنے کو مختار مطلق جانے۔ اَور صرف اپنی حکمت عملی پر۔ اپنے استحکام و اقبال مندی کو منحصر تصور کرے۔
یہ سچ ہے کہ کسی زمینی حکومت کے حاصل ہونے کے لیے دنیوی اسباب و وسائل ضروری ہوتے ہیں۔ اَور رفتہ رفتہ اُن کو بہم پہنچ جانے پر وہ حکومت سلطنت کی صورت پکڑ کر قائم و مستحکم ہو جاتی ہے۔ اَور پھر حسبِ وسائل ترقی یا تنزل (گراوٹ)پزیر ہوتی ہے۔
اب ہم ذرہ اس وعدہ پر جو عنوانی آئت میں مذکور ہے غور کریں گے۔ اَور دیکھیں گے کہ مسیح خداوند نے اُس ’’ چھوٹےجھنڈ‘‘ سے جو گلیلیوں میں سے لیا گیا تھا۔ اَور جو مسیحی کلیسیا کا ریپریزنٹیٹو(نمائندہ) تھا۔ جس وقت یہ وعدہ کیا اُس کی کیا حالت و کیفیت تھی۔ اَور کیونکر یہ وعدہ حرف بحرف پورا ہوا۔ اَور ہوتا جاتا ہے۔
اس بے علم ، بے زر، بے یارومددگار’’ چھوٹے جھنڈ‘‘ کی اُس وقت کی ظلم و ستم رسیدہ حالت کو دیکھ کر کون دنیوی پالٹیشن (سیاست دان)خیال کر سکتا ہےکہ اُ س کے حق میں یہ وعدہ۔ کہ ’’ بادشاہت تمہیں دی جائےگی‘‘ کبھی پورا ہو سکے گا۔ لیکن ابتدائی تین سو برس کے عرصہ میں ہی اُسی چھوٹے جُھنڈ نے تمام دنیا کو اُلٹ پلٹ کردیا۔ اَور کانسٹنٹائن کے مسیحی ہوتے ہی مسیحی ملت ایک سلطنتی ملت ہو گیا۔ نہ اُس وقت سے اس اُنیسویں(۱۹) صدی تک جو قریب الاختتام ہے ۔ مسیحی سلطنت نے جو کچھ اس دنیا میں کیا اَور کرتی جاتی ہے۔ محتاجِ بیان نہیں ہے۔اور اگرچہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ کہ ان یورپین موجودہ سلطنتوں میں کچھ نقص ہے۔ یا یہ کہ اُن کے جملہ ارکان و ایمان حقیقی مسیحی ہیں۔ تو بھی وہ بت پرست اَور غیر مسیحی طاقتوں سے بدرجہ بہتر اَور بدتر ہیں۔ اَور ضرور ہے۔ کہ وہ وقت آئے گا جب یہ وعدہ کامل (پورے) طور پر پورا ہوگا۔ اَور ساتواں فرشتہ صور پھونکے گا۔ اَور آسمان پر بڑی آواز یں یہ کہتی ہوئی آئیں گی۔ کہ دُنیا کی بادشاہتیں ھمارے خداوند اَور اُس کی ہو گئیں۔
غیر مسیحی سلطنتوں میں جو کچھ ظلم و جبر بنی نوع انسان پر آج کل ہوتا ہے۔ اَور ان کے بالمقابل مسیحی سلطنتوں کی قابلیتِ انتظام اَور شائستگی کے بیان میں ہمعصر طوطؔی ہند میرٹھ نے ایک منصفانہ جل آرٹیکل بعنوان ’’ عیسوی کی کیس سلطنتیں اَور دنیا کا قبضہ‘‘ لکھاہے۔ جس کو ہم اپنے ناظرین کے لیے نقل کرتے ہیں۔
’’ عیسوی سلطنتوں کو جو ترقی کرہ ِارض میں گزشتہ تین سو سال کے اندر ہوئی۔ وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ معدودے چند(بہت تھوڑی تعداد میں) سلطنتیں اب ایشیائی اقوام کے ہاتھوں میں رہ گئی ہیں۔ اَور وہ بھی انتزاع (اکھاڑنا)کی حالت میں ہیں۔ چاروں طرف سے مغربی تدابیرتسخیر کا جال پھیلا ہوا ہے۔ اَور خود اُ ن سلطنتوں کے رہنے والے یہ چاہتے ہیں کہ وہ عیسوی سلاطین کی رعایا ہو جائیں۔ دو ایک ایشیا ئے سلطنتیں مثل قسطنطنیہ وغیرہ[1] کے طرزِ یورپ کو اختیار کرتی ہیں۔ اَور ہر چند اِس میں اُن کو ید طولیٰ (بڑا لمبا ہاتھ ،کمال ہنرمندی)حاصل نہیں۔ تاہم کہا جا سکتا ہے۔ کہ اُن کی عمر حکومت دراز اَور اُن کی بقا صفحہ روزگار پر دیر پا(لمبے عرصے تک)ہے۔ باقی اَور سلطنتیں حرفِ غلط کی طرح مٹ چکی ہیں۔ اَور جس قدر اُن کے نقوش(نقش ونگار) بطور حباب سرآب(پانی کے بُلبُلہ) کے باقی ہیں۔ لازم اَور واجب ہے کہ اُن کا انتراع(اکھاڑنا) ہو جائےگا۔ اَور عیسوی حکومت پھر ترقی کرنے لگے۔ جب انسان کو انسان پر حکومت کرنے کی قابلیت نہیں رہتی۔ یا یہ کہ وہ آدمی کو آدمی نہیں سمجھتا۔ یا دوسری کوئی سلطنت اُس سے بہتر اَور شائستہ طور پر انتظام جان و مال کرسکتی ہے۔ تو نیچر(فطرت) کا منصف ہاتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں اُس کو نقل کر دیتا ہے۔ اُس کا منشا یہ ہے کہ انسانی مخلوق اُس آسائش سے بہرہ ور ہو جس کی وہ مستحق ہے۔ جن ایشیائی سلطنتوں میں ظلم و جبر کو باعث قیام حکومت سمجھا گیا ہے وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اَور عنقریب وہ وقت آنے والا ہے ۔ کہ اپنی غلطی پر وہ ماتم کریں اَور تمام مدت العمر(ساری عمر) اُس غلامی کی حالت میں بسر کریں جس کو وہ ابھی تک نہیں جانتے۔ تاتارو چین و تبت کے طرقِ جزا و سزا کو دیکھ کر ایک انسان کانپ اُٹھتا ہے۔ جو کچھ ہم نے سنا تھا کہ یہ کابل کو ایسی ایسی سخت سزائیں دیتے ہیں۔ اب معلوم ہو کہ تبت وغیرہ ایشیائی ممالک میں علی العموم(عام طور پر) اُسی قسم کی ۔ بلکہ اُس بھی زیادہ مکروہ طریقوں کی سزائیں جاری ہیں۔ اُن کم بخت احکام کو ابھی تک حقوقِ انسانی کی خبر نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ہم سے بہتر احکام کُرہ ارض پر موجود ہیں۔ جب وہ ایسے ظالم و جابر ہیں۔ کیا وجہ کہ قدرتی طور پر اُن کا شجر حکومت شامل نہ ہو جائے۔ اُن کی شقاوت(سنگدلی،بدمعاشی)، وحشت، جہالت، سخت گیری، سیاست بلا ضرورت، خبا ثت ایسی ہے کہ ہزار درجہ وہ خود مستحق اُن سزاؤں کے ہیں جو غریب رعایا (غریب عوام)کو بالفعل (عملی طورپر)وہ ہمیشہ دیتے ہیں۔ زمانہ کا قوی ہاتھ بہت جلد اُن کو اِن کرتوت کا مزہ چکھائے گا۔ اَور وہ زمانہ قریب معلوم ہوتا ہے۔ کہ عیسوی کیش(عالم) سلاطین کا قبضہ کل اقالیم و ممالک ارض پر ہو جائے۔ ہم نے ایک اخبار میں طریقہ سزا اَور قید ملک تبت کا حال پڑھا ۔بخدا لرز گئے۔ اَور وہاں کی رعایا کی مصیبت دیکھ کر دل بھر آیا۔ اَور یہی زبان سے نکلاکہ ظالم سے ظالم اور جابر سے جابر عیسوی حکومتوں میں روس ہے۔ وہ بھی ایسی سختی کبھی انسانی خلقت پر گوارہ نہ کرے گا۔ باشندگانِ ہند انصاف کریں کہ گناہگاروں کے حقوق پر بھی دورِ قیصری میں کیسا لحاظ کیا جاتا ہے۔ اَور مرتے دم تک اُن کے لیے چار ہ جولی کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ کوئی سلطنت اس طرح عاجز اَور مظلوم کی کفیل و وکیل(نگہداشت اور نمائندہ) نہیں۔ پس واجب ہے کہ اس سلطنت کو دنیا میں ایسی ترقی ہو کہ دوسری سلطنتیں بغلیں جھانکتی (پریشان ہونا)رہ جائیں۔ وہ حالات ذرا پڑھ لیجیے۔ اَور ایک دفعہ اَور ایک دفعہ تو کانپ جائیے۔ یہ مضمون تبت کے قیدیوں کی بابت ایشیا ٹک سوسائٹی کلکتہ میں بابو سُرت چند مکر جی نے پڑھا۔ جنہوں نے اُس ملک کی خود بھی سیر کی ہے۔ اَور ہر چند یہ قیدیوں کی بابت ہے تاہم نہائت ہی زبوں حا لت(خراب حالت) ہے۔ جس میں نسلِ بشر دیکھی جا سکتی ہے۔ تبت میں قیدی ایک کوٹھری مین بند کیا جاتا ہے۔ جس کی وسعت مربع دو گز سے زیادہ نہ ہو گی۔ اُس کو کوئی غذا نہیں دی جاتی ہے بجز(مگر،بغیر) اس کے جو اُس کے احباب(رشتہ دار) منگا دیں۔ یا وہ خیرات مانگ کر خود خرید کرے۔ جرم کا اقرار لینے کی غرض سے اُس کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ اوقعات قید کی صعوبت (مشکل،تکلیف)گھٹانے کے لیے اُس کو کسی شغل کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اورماخوذ(گرفتار،اخذکیاہوا) مجرم ہونے کے بعد ( اگر وہ بد ترین سزا سے بچ گیا) یا تو عام قید خانہ کو بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں عورتیں اَور مرد ایک ہی جگہ بند کیے جاتے ہیں۔ اَور قیدیوں کو یا تو اپنی فکر کرنی پڑتی ہے۔ یا فاقہ کشی کی صعوبت اُٹھانی پڑتی ہے۔ ورنہ ایک گڑھے کی اندر قید کر دیئے جاتے ہیں۔ جن کے گرد دیوار کھینچی ہوتی ہے۔ صرف ایک سوراخ دیوار میں ہوتا اُسی راہ سے وحشی جانوروں کی طرح دانہ پانی دیا جاتا ہے۔ اس عالم میں وہ وہاں چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ تا آنکہ کچھ زمانہ کے بعد مر جاتے۔ قیدیوں کو جس قدر اذیتیں جس جس طرح سے دی جاتی ہیں۔ اُن کا خیال کرنے پر بدن کے روئیں کھڑے ہوتے ہیں۔ لھاسہ کے مہتمان جیل خانہ نے خاص اپنے ملک کے بھدے اَورسیدھے طریقوں کے علاوہ بہت سے ظالمانہ طریقے چینیوں کے لیے بھی بڑھا دیئے ہیں۔ جو عجب عجب طرح کی کارستانیو ں میں شامل ہیں۔ چنانچہ جس وقت عرصہ تک کی جانچ اَور کوڑے مارنے کی ترکیبیں بھی اس امر میں قاصر رہ جاتی ہیں۔ کہ قیدی خواہش کے موافق جرم سے اقرار کرے۔ تو قیدی سے کہا جاتا ہے۔ کہ وہ گھٹنوں کے بل ایک ایسے فرش پر چلنا اختیار کرے۔ جس پر سنگِ چقماق (ایک پتھر جس سے آگ لگ سکتی ہے)یااسی طرح کے دوسرے پتھروں کے مہین خار کیلوں کے نکلے ہوتےہیں۔ اس کا نام اذیت فرش سنگ ریزہ ہے۔ جب اس سے کام نہیں نکلتا تو اُ س وقت دربار سے ’’سنگی کلاہ‘‘ کے استعمال کی ہدائت ہوتی ہے۔ یہ سنگی ٹوپی اصل میں دو تین سو پونڈ ( تین چار من) کا ایک بڑا بھاری پتھر ہوتا ہے۔ جس کے نیچے کھوپڑی کے برابر ایک گڑھا ہوتا ہے۔ اَور یہ پتھر اس گڑھے کے بل کھوپری پر اس طرح سے رکھا جاتا ہے۔ کہ تھوڑی دیر تک دباؤ پڑتا ہے۔ تو سر کا بھیجا پاش پاش ہو کر آنکھوں کی راہ نکل آئے ۔ یا اگر قیدی نے اس پر بھی مقصود کے مطابق اقرار نہیں کیا ۔ تو اُ س کو لٹکا کر انگوٹھوں کے بل کھڑا کرتے ہیں۔ یا انگوٹھوں میں پاوں کے پیچھے رسی باندھ کر اُس کے کاندھوں پر اینٹیں جمع دیتے ہیں۔ جس سے آخر کو اُ س کے ہاتھ اکڑ جاتے ہیں۔
ایذا دینے کا ایک اَور طریقہ تبت میں رائج ہے کہ آدمی دونوں ٹانگیں پشت کی جانب کمان کی شکل سے باندھ کر سر کے بالوں میں جکڑ دیتے ہیں۔ اَور اس کے سینہ کے بل اُس کو زمین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن سب سے سخت طریقہ نہائت سنگین مقدمات میں استعمال کیا جاتا ہے یہ ہے کہ قیدی ایک کل میں باندھ دیا جاتا ہے۔ جو یکے بعد دیگرے سے اُنگلیوں کے جوڑوں اَور کلائیوں کو زخمی کرتی ہے۔ اَور ہڈیوں سے گوشت اُدھیڑاُدھیڑ کر پھینکتی جاتی ہے۔ اب قیدی کا چاہے جو جرم ہو۔ اَور جرم کا ارتکاب اُس نےکیا یا نہ کیا ہو۔ لیکن اُس کی نجات اسی میں ہے کہ عدالت جو اقرار جو اُس سے کروانا چاہتی ہے اُس کو قبول کرے۔ اَور موت خواہ قطع اعضا خواہ قید کی جوسزا دی جاے اُس پر رضا مندی ظاہر کرے۔ اَور حسبِ ضابطہ تحقیقات مقدمہ میں اس پرجو تکلیفیں گزر جاتی ہیں۔ اُن میں منجملہ ہرسہ (تیسرا)طریق مذکورہ بالا یہ ایک طریقہ بدرجہ بہتر ہے۔ دریا میں غرق کرنے ، سر کاٹنے اَور پھانسی دینے کی سزائیں قتل عمد اَور ڈکیتی اَور سلطنت کے خلاف سنگین قسم کی دغابازی کے جرم میں دی جاتی ہیں۔ اَور جو جرم زیادہ سنگین نہیں ہوتے ۔اُن میں قیدی اندھا کر دیا جاتا ہے۔ یا اُ س کا کوئی اَور عضو کاٹ ڈالاجاتا ہے۔ جیل خانوں کی قید جس میں کوئی قیدی کا پُرسانِ حال(حال دریافت ) نہیں ہوتا۔ بتدریج (آہستہ آہستہ)ہلاک کرڈالنے کی غرض سے تنہائی قید کی مصیبتیں جھیلنے کی اجازت تو ظاہر اً صرف ہلکے مقدمات میں دی جاتی ہے۔