Your Dead Shall Live
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Aug 17,1894
نور افشاں مطبوعہ ۱۷اگست ۱۸۹۴ ء
تیرے مُردے جی اُٹھیں گے۔ ميری لاشیں اُٹھ کھڑی ہوں گی۔ تم جو خاک میں جا بسے ہو جاگو اور گا ؤ کیونکہ تیری اوس اُس اوس کی مانند ہے جو نباتات پرپڑتی ۔ اور زمین مُردوں کو اُگل دے گی۔ یسعیاہ ۲۶: ۱۹۔
قیامت ( یعنی مُردوں کا پھر جی اُٹھنا) ایک ایسا مشکل مسئلہ ہے۔ کہ اگر اس کا ثبوت کلامِ اللہ سے نہ ہوتا ۔ تو عقلِ انسانی اس کو محال مطلق (قطعاً ناممکن) سمجھ کر کبھی تسلیم نہ کرتی ۔ اور ہزار ہا دلائل(ثبوت) اس کی تردید(رد کرنا) میں پیش کر سکتی ۔ اگرچہ رُوح انسانی کے غیرفانی ہونے کو تو اکثر ان لوگوں نےبھی جو قائل الہام نہیں ہیں۔ کسی نہ کسی وجہ سے مان لیا ہے۔ مگر مرنے کےبعد روح و جسم کا پھر متفق ہو کر انسان کا جی اُٹھنا بہتوں کےلئے ایک راز سربستہ(ايسا راز جو ابھی ظاہر نہ ہو اہو) اور امر غیر مفہوم معلوم ہوتا ہے۔ حکماء نے رُوح کی بقا کی بابت کامل(مکمل) یقین کے ساتھ کبھی اعتراف نہیں کیا۔ بلکہ دھیمی آواز اور دبی ہوئی زبان سے کبھی کوئی بات کہی۔ تو کہد ے ۔ چنانچہ ایک حکیم کا خیال ہے۔ کہ انسان کی روح جب پہلے فنا ہو جاتی ہے تو بعد ہ جسمانی موت واقع ہوتی ہے۔ مثلاً جس وقت تیل ختم ہو جاتا ہے۔ اس وقت بتی گل ہوتی ہے۔ ایسے ہی خیالات کے ذہن نشین ہو جانے سے اکثر لوگ دہریہ ہو گئے ہیں۔ کہ نہ کوئی خُدا ہے۔ نہ روح ہے۔ نہ قیامت ہے۔ اور نہ عدالت ہے۔ اور گویا زبان حال سےکہہ رہے ہیں۔
نہ جا زاہد کی باتوں پر اگر تو ذہن کا پکا ہے۔ بہشت اک باغ ہے۔ دوزخ بھی اک شرعی ڈلکا ہے۔
بعض لوگوں نے انسانی جسم کے پہر زندہ ہو جانے کو اس لئے محال(مشکل) وغیرممکن سمجھا ہے۔ کہ وہ آدمی جو دریا میں ڈوب جاتے ۔ اور مچھلیوں وغیرہ کی خوراک ہو جاتے ہیں۔ یا جنہیں درند ے جانور کھا جاتے ہیں۔ یا جن کی لاشوں کو ہوائی پرندے نوچ کھاتے ہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے عناصر جسمی پہر مجتمع (اکٹھا)ہو کر ایک انسانی جسم کی صورت میں پھر موجود ہو جائیں ۔ اور اس واسطے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ قیامت کی تعلیم مذہبی دیوانوں کی ایک من گھڑت بات ہے۔ اور بس ۔ اس میں شک نہیں۔ کہ جو لوگ نوشتوں اور خُدا کی قدرت کو نہیں جانتے وہی اس قسم کے خیالات کی بنا پر مُردوں کی قیامت کو محال وغیر ممکن سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے خُداوند کے سامنے صدوقیوں نے بھی جو منکر قیامت(قيامت کا انکار کرنے والے) ہیں ۔ بخیال خود اس مسئلہ کی مشکلات میں سے اس عورت کے معاملہ کو پیش کیا تھا۔ جس کو یکے بعد دیگرے سات بھائیوں نے بیاہا تھا۔ ہر چند کہ اہلِ دُنیا اپنے کسی نہ کسی خیال سے فریب خورد ہ ہو کر قیامت کے منکر ہوں ۔ تو بھی اس کا واقع ہو نا بہ سند کلام ِاللہ ایک ایسا یقینی امر ہے۔ کہ جس میں ذرا بھی شک و شبہ کو دخل نہیں ہو سکتا ۔ اور یہ ایک الہامی حقیقت ہے کہ آدمیوں کےلئے ایک بار مرنا ۔ اور بعد اس کے عدالت مقرر ہوئی ہے۔
بے شک عقل انسانی کے نزدیک مُردوں کا جی اُٹھنا بڑے تعجب کی بات تو ہے۔ لیکن خُداوند مسیح فرماتا ہے کہ اس سے تعجب نہ کر و کیونکہ وہ گھڑی آتی ہے۔ کہ جس میں وہ سب جو قبروں میں ہیں۔ اس کی آواز سنیں گے۔ اور نکلیں گے ۔ جنہوں نے نیکی کی ہے۔ زندگی کی قیامت کے واسطے۔ اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے لئے یوحنا ۵: ۲۸، ۲۹ ۔ یہ ایک یقینی امر ہے۔ کہ انسان جس حالت میں مرے گا۔ اسی حالت میں اُٹھے گا ۔ اگر وہ بے ایمانی کی حالت میں مرتا ہے۔ تو بے ایمانی ہی کی حالت میں اُٹھے گا کیونکہ موت کے بعد آدمی کی حالت میں سر مو (ذرا برابر)تغیر و تبدل(تبدیلی) نہیں ہو سکتا ۔ جو ناراست ہے۔ سو
نا راست رہے گا۔ جو نجس (ناپاک)ہے۔ سو نجس ہی رہے گا۔ جو راستباز ہے۔ سو راست باز ہی رہے گا۔ اور جو مقدس ہے۔ سو مقدس رہے گا کیونکہ مسیحی تعلیم کے مطابق مُردہ کے لئے اس کے پس ماندگان کی کوئی کارروائی ذرا بھی فائدہ رساں نہیں ہو سکتی ۔ پس جو چاہتا ہے کہ خُدا کے بیٹے کی آواز سن کر لبیک کہتا ہوا خوشی و خرمی کے ساتھ نورانی صورت میں ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے اپنی قبر سے نکلے وہ اسی زندگی میں اس پر ایمان لا ئے۔کیونکہ قیامت اور زندگی وہی ہے ۔ اور عالم ارواح کی کنجی صرف اُسی کے پاس ہے۔ اور بس ۔