Anyone who stumbles over that stone will be broken to pieces?
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Feb 8,1895
نور افشاں مطبوعہ ۸ فروری ۱۸۹۵ ء بروز جمعہ
جو
اس پتھر پر گرے گا چُور ہو جائے گا۔ اور جس پر وہ گِرے گا اسے پیس ڈالے گا۔
(متی ۲۱: ۴۴ ؛ لوقا ۲۰: ۱۸)
مخالفین مسیح کےلیے یہ آیات نہایت غور طلب ہیں۔ کیونکہ اس قدوس کی مخالفت میں بہر صورت انہی کا نقصان ہے۔ یہاں پتھر سے مُراد خداوند یسوع مسیح ہے۔ جس کو معماروں (یہودیوں) نے رد کیا ۔ مگر وہی پتھر کونے کا سرا ہو گیا۔ اور یہ انسانی خواہش سے نہیں۔ بلکہ جیسا داؤد نبی نے کہا ہے ’’خداوند سے ہوا۔ جو ہماری نظروں میں عجیب ہے‘‘۔ یہی وہ پتھر ہے ۔ جس پر گر کے یہودی چور ہو گئے۔ اور یہی وہ پتھر ہے جس نے گر کر رومیوں کو پیس ڈالا۔ جن محقق (حق کی تلاش کرنے والا)اِشخاص نے کتاب اعمال الرسل اور تواریخ ِکلیسیاء کا بغور و فکر مطالعہ کیا ہوگا۔ اس حقیقت سے بخوبی تمام آگاہ ہوں گے کہ دین مسیحی کی ابتدا میں جب کہ بقول شیرازی شاعر ۔
درختے کہ اکنوں گرفت ست پائے
بہ نیروئے مردے برآید زجائے ۔
ا س کی بیخ کنی(جڑ سے اُکھاڑنا) کی، اگر وہ صرف کسی انسان کا اختراع(ایجاد) ہوتا ۔ نہایت آسان تھی کیوں کر غیر قوم بادشاہوں اور سرداروں نے اسرائیلیوں کے ساتھ ۔ داؤد نبی کی پیش گوئی کے مطابق۔ آپس میں متفق ہو کر خداوند اور اس کے مسیح کے مخالف منصوبے باندھے اور کہا۔ ’’ آؤ ہم ان کے بند کھول ڈالیں۔ اور ان کی رسی اپنے سے توڑ پھینکیں‘‘۔ لیکن وہ خود لوہے کے عصا سے توڑ ے گئے۔ اور کمہار کے برتن کی مانند چکنا چور ہوگئے۔ بیشک ’’ جو اس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا۔ اور جس پر وہ گِرے اس کو پیس ڈالے گا‘‘۔ پس مخالفین مسیح کے لیے ’’ پینے کی کیل برلات مارنا‘‘ بہرکیف نہایت مشکل ہے۔