When we slept
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Nov 16,1894
نور افشاں مطبوعہ۱۶نومبر ۱۸۹۴ ء
اورانہوں نے بزرگوں کے ساتھ جمع ہو کر مشورہ کیا اور سپاہیوں کو بہت سا روپیہ دیکر کہا۔ یہ کہہ دینا کہ رات کو جب ہم سو رہے تھے اس کے شاگرد آکر اسے چرا لے گئے(متی۱۲:۲۸۔۱۳)ْ
گزشتہ ایشو میں ہم نے یہ بیان کیا کہ چونکہ مسیح کے مخالف یہودی بھی اس کے جی اٹھنے کی پیشن گوئی سے بخوبی واقف تھے ۔ اور اس لیے انہوں نے بخیال پیش بندی ۔ اور یہ گمان کر کے کہ غالباً مسیح اور اس کے شاگردوں میں ایسی کچھ سازس پیشتر سے ہو گئی ہو گی۔ پلاطوس حاکم سے رومی گارڈ کے متعین کرنے ۔ اور تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کرنے کے لیے درخواست کی۔ جس کو اس نے ان کے حسب استدعا منظور کیا۔ اور اپنی اطمینان و دلجمعی کے لے انہوں نے قبر پر اپنی مہر لگا دی۔ یہ ایک الہی حکمت ہے۔ کہ جو لوگ حق کی مخالفت اور مقابلہ میں منصوبے باندھتے اکثر ان کی عقلیں اوندھی ہو جاتی ہیں۔ اور جو تدبیریں وہ اس کی تردید و تدفیع کے بارہ میں کرتے ہیں۔ وہ اکثر ایسی ہوا کرتے ہیں۔ کہ جن کی حماقت و جہالت ایک عام عقل والے آدمی پر بھی با آسانی ظاہر و منکشف ہو سکتی ہے۔ مگر وہ اپنی بے وقوفی کو دانائی سمجھتے ہیں۔ اس احمقانہ صلاح پر جو قوم یہود کے بزرگوں۔ اور سردار کاہنوں نے رومی سپاہیوں کو دی۔ غور کرنے سے ان کی عقل کا اس وقت منقلب ہو جانا کیسا صاف ظاہر ہے۔ ’’تم کہو کہ رات کو جب ہم سوتے تھے۔ اس کے شاگرد آکر اسے چرا لے گئے‘‘۔ اس صریح بےوقوفی کی صلاح کو۔ رومی سپاہیوں نے بطمع زر (پیسے کا لالچ )قبول کر لیا۔ سچ ہے کہ ’’رشوت دانشمند کی آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ اور صادق کی باتوں کو پھیرتی ہے‘‘(استثنا۱۹:۱۶)۔کیونکہ نہ صرف زر کثیر ہاتھ آنے سے بلکہ اس لیے بھی کہ انہیں یہ اطمینان دیا گیا۔ کہ یہ بات حاکم کے کان تک پہنچے گی۔ اور ان سے کچھ بازپرس ہوگی۔تو انہیں خطرہ سے بچالیا جائے گا۔ وہ اپنے کو بے وقوفوں کے ساتھ بے وقوف بنالینے پر رضامند ہو گئے۔ اور مجلس سنہیڈرن سے باہر نکل کر سکھانے کے موافق لوگوں میں مشہور کیا کہ’’رات کو جب ہم سوتے تھے اس کےشاگرد رات کو آکر اسے چرا لے گئے‘‘۔ یہ سوئے ہوئے گواہوں کی شہادت ہے ۔ جس کو اگر کوئی منظور کر سکتا ہے تو کرے۔ شاید ایسے لوگ جو مسیح اور مسیحت کے بدل مخالف ہیں۔ اور بوجھ میلان طبعی ہر ایک ایسی بات کو جو مسیحی صداقتو ں کو جھٹلا سکے ۔ خواہ وہ کسی ذریعہ سے بہم پہنچ سکے ۔ ان سوئے ہوئے گواہوں کی گواہی کو۔ جو بقول شخص’’سوئے موئے برابر‘‘ تھے۔ د ل میں شرماتے ہوئے بخوشی قبول کر سکیں۔ رومی سپاہی فی الحقیقت تو صادق تھے۔ مگر رشوت نے ان کی باتوں کو پھیر دیا ۔ کیونکہ انہوں نے یہودیوں کے بزرگوں اور سردار کاہنوں کے پاس حاضر ہو کر جو کچھ گذرا تھا سچ اور صاف بیان کردیا۔ کہ ابتداً کیونکر زلزلہ واقع ہوا اور ایک فرشتے نے جس کا چہرہ بجلی کا سا۔ اورجس کی پوشاک مثل برف سفید تھی۔ کیونکہ آسمان سے اتر کر قبر کے پتھر کر ہٹا دیا۔ او ر ا س پر بیٹھ گیا۔ اور اس کے ڈرسے وہ بہادر سپاہی کیونکر کانپ اٹھے۔ اور مردے سے ہو گئے۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے مسیح کو قبر سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کیونکہ وہ سو نہیں گئے۔ بلکہ فرشتے کی عجیب رویت سے بےہوش ہو کر مردے کی مانند ہو گئے تھے اور جو کچھ ان کے اس عالم بے ہوشی میں گذرا انہیں بالکل معلوم نہ ہوا۔ مگر جب پھر انہیں ہوش ہوا۔ تو قبرکو خالی پایا۔ اور شہر میں جا کر بزرگوں اور سردار کاہنوں سے من و عن جو کیفیت گذری تھی۔ اور انہوں نے بچشم خود (اپنی آنکھوں سے) دیکھی تھی ۔ بیان کر دی۔
رومی فوجی قانون کے مطابق پہرے پر سو جانے ولا سپاہی واجب القتل تھا۔ مگر چونکہ مسیح کی قبر والے گارڈ کے سپاہیوں کو یہودی بزرگوں اور سردار کاہنوں نے مطمن کر دیا۔ اور پختہ وعدہ انہیں خطرہ موت سے بچانے کا کر لیا تھا۔ وہ بلا خوف سیاست خود مقر تھے۔ کہ ہم پہرہ پر سو گئے۔نہ صرف ایک یا دو سپاہی۔ بلکہ تمام گارڈ اور گمان غالب ہے کہ یہودی بزرگوں اور سردارکاہنوں نے حسب وعدہ پلاطوس سے سفارش کر کے انہیں سزا یابی سے بچا لیا۔
کیونکہ پلاطوس ایک بزدل حاکم تھا۔ جو دوسروں کے دباؤ میں آکر اپنے کانشنس(قوت انصاف) کے خلاف اکثر قانون و انصاف کو بالائے طاق رکھ دیا کرتاتھا۔
اب ان سوئے ہوئے خفتہ بخت (بدنصیب)سپاہیوں کی شہادت سے گذر کر ہم آئندہ ایشو میں ان کے اس بیان پر ۔ کہ ’’ اس کےشاگردراتکو آکر اسے چرا لے گئے‘‘ تو جہ کریں گے۔