مذہب کا اصل کام کیا ہے؟

Eastern View of Jerusalem

What is the Purpose of Religion?

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan March 20, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۲۰مارچ ۱۸۸۴ ء

جیسا  ہم لوگ مذہب  کے نام سےکچھ کام کرتے یا کرنا چاہتے ہیں۔ ویسا  ہی مذہب خود ہمارے  لئے کچھ کام  کرتا ہے۔ اور جہاں جانبین(دونوں جانب سے۔فريقين) کے کام  برابر ہو جائیں وہاں کہا جائے گا کہ مذہب کی تکمیل ہوئی۔

عام لوگوں کے خیالات  مذہب کی نسبت صرف  انہیں  کاموں پر منحصر  پائے  جاتے ہیں۔ جو وہ  مذہب  کے نام سے کرتے ہیں اور بس  ۔ وہ مذہب کی بیرونی علامات  کی پابندی ضروری  سمجھتے ہیں ۔یعنی ایک  مذہب  کا جامہ پہن  لینا مثلاً چوٹی  اور جنیئو(وہ بٹا ہوا دھاگہ جسے ہندو لوگ بدّھی کی طرح گلے ميں ڈالتے رہتے ہيں)  کا قائم  رکھنا۔ ختنہ  اور شرعی  موچھوں  کا لحاظ  رکھنا اصطباع (بپتسمہ)لینا وغیرہ وغیرہ  ۔وہ سمجھتے ہیں  کہ پوجا پاٹ اور زہد  و ریاض (پاکيزگی کی مشق )کرنا   ۔دا ن پُن قربانی  اور زکوۃ کا دينا۔وعظ  و تعلیم  اور عبادت  میں اپنے  آپ کو مصروف  رکھنا۔ حج اور تیرتھ  (مقدس مقام جہاں لوگ نہانے اور ياترا کے لئے جاتے ہيں)کے لئے دور  دراز سفر کرنا  مذہب ہے۔

 لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ مذہب  کے کام نہیں ہیں ۔ بہت لوگ تارک  الدُنیا (دُنيا کو چھوڑ کر)ہو کر گوشہ نشین (تنہائی ميں رہنے والا)یا

بن مانس  بن جاتے ہیں۔ اور زبان سے اللہ اللہ یا رام رام جپنا  اور جسم  کو طرح طرح کی تکلیفوں میں ڈالنا مذہب  کا کام  سمجھتے  ہیں لیکن یہ مذہب  نہیں ہے۔ بہت  سے مسلمان  صوفی ترک  تعین اور بہمہ  اوست کی قیل وقال (بات چيت۔گفتگو) اور ہندو  گیانی  (عالم۔فاضل)محض گیان(علم ۔عقل۔فہم)  کے چرچا کو مذہب  سمجھے ہوئے ہیں ۔لیکن یہ اُسی  قسم کی گفتگو ہے جو فلاسفی یا منطقی مباحثوں میں کام دیتی ہے۔ اور جس میں ہار جیت  کا درجہ  مد نظر  رہتا ہے پر وہ مذہب نہیں ہے  ۔ بہت لوگ دن یا سال کے مقررہ  وقتوں  کی عبادت کا نام  مذہب  رکھتے ہیں۔  گویا مذہب  کو ایک شغل سمجھتے ہیں جو خاص  وقتوں میں کام  دیتا ہے اور باقی  اوقات  میں تہہ کر کے دھر دیا  جاتا ہے۔ بہت لوگ نیچر(دُنيا۔قدرت۔فطرت) کی  آڑ  میں چھپ کر  علاوہ پابندیوں سے آزادی  حاصل کر لیتے ہیں۔ اور محض  انہیں باتوں  کو مانتے  ہیں جن کو اُن کی عقل نیچر سے  محدود  کر سکتی  ہے۔ اور اسی کانام مذہب رکھتے ہیں۔ لیکن یہ مذہب  نہیں ہے۔ بعض  واعظوں  کی پُر  تاثیر  کلام  اور بعض  مصنفوں کی اثر  انگیز  تحریر ہماری  آنکھو ں  سے آنسو بہا دیتی ہے ۔اور گناہوں کی خرابی  اور ذلت  اس درجہ تک دکھاتی ہے۔ کہ ہم ایک دم کے لئے  بالکل ڈر جاتے  اور دل میں کوشش  کرتے ہیں  کہ گناہ  سے توبہ کریں  اور پھر کبھی اُ س کے گرد نہ بھٹکیں۔

دُنیا ميں جیسے نیک لوگ ہیں ویسے بد(بُرے) بھی ہیں

  لیکن یہ  بس نہیں ہے  یہ سب  وہی کام ہیں جو ہم مذہب  کے لئے کرتے ہیں۔  اور ان میں وہ شامل  نہیں ہیں   جو مذہب  ہمارے لئے کرتا ہے اور گو ہمارے  وہ کام ایک طرح سے مذہبی کام  ہیں کیونکہ  مذہب  کی پابندی  میں سرزد ہوتے ہیں تاہم ہمارے کئے اور مذہب کے  کئے  ہوئے کاموں  میں بڑا  فرق ہے ۔ مذہب  کے لئے آپ کا م کرنا اور مذہب  کو اپنے اُوپر  کرتا ہوا پانا دو مختلف  خبریں  ہیں ہمارے  کام کرنے کے ساتھ ضرور ہے کہ  مذہب بھی ہم پر  اپنا کام کرے اور ہماری رُوحوں  میں تبدیلی  پیدا کر دے۔

المختصر   مذہب  ہماری عقل یا ہمارے جسم کا کام  نہیں ہے خُدا کی بابت خالی خولی سوچ  رکھنا مذہب  نہیں ہے اس کے حُضور  چڑھا وا چڑ ھانا  خواہ ہاتھ سے ہو خواہ منہ سے مذہب  نہیں ہے نفس  کشی  اور ترک علائق  (تعلقات۔ بکھيڑے)اور اپنے آ پ میں زہد  وریاضت (پاکيزگی کی مشق)کی عادت ڈالنا  بھی مذہب  نہیں ہے البتہ  یہ سب باتیں  مذہب  میں شریک ہو سکتی ہیں  ۔اور مذہب  کے کام کا نتیجہ  کہی جا سکتی ہیں الا مذہب  نہیں ہیں  پس جب یہ نہیں تو سوال  پیدا  ہوتا ہے  کہ پھر مذہب  کا کام کیا ہے؟

مذہب کا اصل  کام کیا ہے۔

ہم اپنے پچھلے  پر چہ نمبر ۱۲  میں دکھلا  چکے ہیں کہ مذہب اِنسان  کی اخلاقی  ضروریات کو پورا کرتا ۔اور اپنی تاثير(عمل۔نتيجہ ۔خاصيت)سے اُس ایسا بنا  دیتا ہے۔ کہ ویسا   اور طرح سے  بننا محال (مشکل) ہے اوريہ سچ ہے۔ کیونکہ  مذہب ایک  آسمانی  طاقت  ہے اور آسمانی  طاقت   کے بغیر  اِنسان خود   اپنی کوششوں سے خُدا کی نظر   میں جچنے   کے قابل نہیں   ٹھہرسکتا۔   لیکن اِنسانی  ضروریات   ایک اور قسم کی بھی ہیں جو اکثر   اُس کے دل میں کھٹکتی  ہیں۔ اور وہ  بھی مذہب  کی امداد  کے سوا اور کسی  چیز سے پوری نہیں ہو سکتیں   ۔

ہم اپنی  طبیعت  میں دو مختلف  خواہشیں  دیکھتے ہیں۔  جو اپنے ہونے   میں دو نوں زبردست   ہیں۔ ایک نیک کام کرنے کی   اور دوسری   بدی  کرنے کی۔  اور اکثر بدی  کی خواہش    کو نیکی  پر غالب(زور آور) پاتے ہیں ۔ اور یہی خیال   ہم  کو ايک خدشہ  میں ڈالتا  اور اعتراض پیدا  کرتا ہے۔   کہ کیا يہ  دونوں متضاد صفتيں قدرتی  ہیں اگر  قدرتی ہیں تو ایسا کیوں  ہوا ۔ یہ تو کسی  طرح  خیال نہیں کیا  جا سکتا   کہ معاذ اللہ خُدا ، ناپاک  یا بے منصف (انصاف کرنے والا) ہے ۔کیونکہ  ہم طبعی  طور پر اُس  کو  غايت و نیک غايت(انجام)   يا غا يت بیان کرنے والا  اور قادر مطلق  مانتے ہیں۔  اور ایسے  خوفناک  خیال  کو مشکل  سے جگہ دے سکتے ہیں کہ  وہ اپنی مخلوقات  کی کچھ پر وا  نہیں کرتا  ۔اور  عموماً اُ س کو  نفسانی جو شوں کے رحم  پر چھوڑتا ہی نہیں۔ ہم بذاتہ  یقین کرتے ہیں کہ خُدا جیسا  قادر  مطلق  ہے ویسا  ہی مطلق پاک اور مطلق  پیار ہے۔ وہ ہرگز  نہیں  چاہتا کہ اُس کی  مخلوقات  ہلاکت  کے راستہ میں چلے  یا سیدھے راہ   سے بھٹکے۔پس جب یہ یقین  ہے تو پھر ہماری موجودہ  اندرونی   حالت   کا تذبذب(شک و شبہ) کیوں ہے ۔ اب اس تذبذب کے ہٹانے  میں نہ ہماری  عقل  کچھ کام کر سکتی  ہے اور نہ ہمارا  کانشنس (انسانی ضمير) کچھ امداد دے سکتا  ہے ۔اور آخرش (آخر کار)ہم کو مذہب   کی طرف  رجو ع  ہونا  پڑتا ہے ۔کیونکہ  اس کا علاج  محض  مذہب کے ہاتھ میں ہے وہی اسکی ترديد کر سکتا ہےاور وہی اپنی تاثير سے اس  کھٹکتہ کو دل سے صاف نکال  سکتا ہے۔

پھر جب ہم چاروں  طرف اس وسیع   دُنیا  کو دیکھتے  ہیں تو  اُس  میں بے شمار بے ترتییاں   پا کر ایک اور نئے  مذہب میں پڑ جاتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا  ميں جیسے  نیک لوگ ہیں ویسے  بد(بُرے) بھی ہیں۔ لیکن نیک  ہمیشہ  اپنے ارادوں  میں کامیاب  نہیں دیکھے  جاتے حالانکہ  بد(بُرے)جن کو ہم خراب  جانتے ہیں اکثر با مراد   اور بااقبال  نظر آتے ہیں۔ نیک   آدمی  جن سے دُنیا کو نیک  فائدے  پہنچتے یا پہنچنے  والے ہیں ۔بہت  سے جوان عمر میں مرتے اور اپنی جُورو ، بچے وغیرہ کو اپنے  رشتہ داروں یا غیروں کے رحم پر  چھوڑ  کر چل بستے ہیں ۔حالانکہ ایک شریر  آدمی جو لوگوں کو نقصان  پہنچا کر خوش ہوتا ہے اپنی پوری  عمر تک جیتا  اور تمام  بیرونی  حالتوں میں محفوظ  نظر آتا  ہے۔ اور یہ صرف ایک جگہ یا ایک  خاص  وقت کا اتفاق  نہیں ہے بلکہ ہر جگہ   اور ہر وقت   برابر  دیکھا جاتا ہے  ۔ پس اگر کوئی  نیک اور قادر  مطلق  خُدا موجود  ہے۔ جو ہمیشہ  نیک آدمیوں  کو بیمار کرتا اور بدی  سے متنفر (نفرت کرنے والا) ہے۔ تو بہت سے نیک آدمی  تامرگ  کیوں نا خوش  اور خراب آدمی  عمر  بھر خوش  رہتے ہیں ۔ ہماری عقل  ایسے سوالوں  کے جواب  کی اشد  ضرورت  رکھتی ہے کیونکہ  بغیر  ملنے  شافی جواب  کے وہ دُنیا  کے مالکِ کُل پر کامل  بھروسہ نہیں رکھ سکتی ۔

نیک ہمیشہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں دیکھے جاتے

ہماری عقل  جب اس طرح کے اندرونی اور بیرونی  مخصوص میں پڑ جاتی ہے اور دیکھتی  ہے کہ نیک اور بد کا  انجام موت ہے ۔جس کے نام سے ہرایک  زندہ  مخلوق   کانپتی   ہے تو اس کی وجہ دریافت  کرنا  چاہتی  ہے۔ وہ سوال  کرتی  ہے کہ نیک  خُدا اپنی  مخلوقات  کو بدی  کے پھندے میں کیوں  پھنسنے  دیتا ہے اگر وہ اُس کا   نیک ہو نا  پسند کرتا ہے تو کیوں  اُس کو  بالکل  نیک نہیں   پید ا کرتا  ۔ گو بعض  لوگ رفتہ رفتہ  اسی دُنیا  میں نیک بن جاتے ہیں ۔مگر بہت  سی  مصیبت  اور تکلیف  کے بعد پھر  اگر وہ نیکوں کا دوست  ہے تو نیکوں کو تکلیف  میں کیونکر  دیکھ سکتا ہے ۔ یہ تو نہیں ہو سکتا  بعض  کا قول  ہے کہ دُنیا محض  ایک کھیل ہے جس کو اُس  بڑے کھلاڑی  نے محض اپنے دل  بہلانے کی واسطے  پھیلا رکھا ہے۔  نہیں بے شک اس میں کوئی اعلیٰ  مطلب  مد نظر ہے جو  ہمارے ادراک  (عقل)سے باہر ہے اور ضرور  اس میں کوئی نہ کوئی  بھاری  سر مستنر  ہے جس کا افشا (ظاہر ہونا)ہم پر از خود نہیں ہو سکتا  اور نہ ہم خالق  کی محبت اور اس  کی مطلق  قدرت پر آسانی  سے کیو نکر یقین  کر سکتے ۔

المختصر  کیا وجہ ہے  کہ جب وہ  نیک ہے اور ہم سے نیکی چاہتا  اور ہم کو نیک  بنا سکتا ہے اور  پھر نہیں بناتا  ۔ ہم کو تمام  برائیوں  سے محفوظ  رکھنا  چاہتا  اور رکھ سکتا  ہے اور پھر نہیں رکھتا  ۔ خود بدی سے نفرت کرتا ہے اور پھر روکنے کی  قدرت رکھتا ہے اور پھر نہیں  روکتا  ۔ ان سوالوں کا جواب مذہب  کے متعلق  ہے اور سچا  مذہب  ہے ان معموں (الجھے ہوئے مسلے)کو حل کرتا اور ہماری تسکین  کر سکتا ہے اور اگر نہ کرے  تو پھر اُس کے ہو نے کا  فائدہ  ہی کیا ہے۔

مذہب  کا اصل کام  کیا ہے۔

ہم اپنے پچھلے  پرچہ میں دکھلا  چکے ہیں کہ مذہب  کا اصل کام اِنسان  کی اخلاقی  اور عقلی   ضروریات  کا پورا کرنا  ہے۔ اور اب اس آرٹیکل  میں صرف  اس امر کے  بتلانے کی  کوشش  کریں گے  کہ سچے  مذہب  کی پہچان کیا ہے۔

اگر ہم  تہذیب  اخلاق  کی کل باتوں کا جود یکھنے  میں بھلی   اور عقل  کو خوش کرنے والی ہیں۔ لبِ لباب  (خلاصے کا خلاصہ)لیکر  اپنے لئے  ایک دستور العمل(قانون۔رواج) بنا دیں۔  اور اُس کو  مذہب  قرار دیں۔  تو یہ بس نہیں ہو گا یا اپنے  چار  و  ںطرف  نظر دوڑا دیں۔  اور جو باتیں   ہمارے مذاق  کے پسند  ہوں يا ہمارے  خیالات  کو تحریک(حرکت دينا)   دے سکتی  ہوں کچھ یہاں  اور کچھ  وہاں سے انتخاب  کر کے اُس  کا نام مذہب  رکھیں۔  تو یہ بھی کافی  نہیں ہے کہ ہمارے  لئے ایک اصلی  اور موثر  طاقت کی ضرورت  ہے۔ جو ہم پر اپنا  اثر   ڈالے  اور اپنی تاثیر  سے ہم میں ایسا  نتیجہ  پیدا کرے  جس کی عظمت  اور فضيلت    ہم اپنے پچھلے  پر چوں میں بیان کر چکے  ہیں۔  یہ سچ ہے کہ دُنیا  میں بعض  مذاہب  ایسے  موجود ہیں۔ جو آدم  زاد کی  ضروریات  کو کس قدر کم و بیش  پور ا کر سکتے  ہیں ۔لیکن  جب کہ کل ضروریات  پر حاوی (غالب)نہیں ہیں اس واسطے تسکین (تسلی) کے قابل نہیں ہیں ۔ ہم مذہب  کو الہٰی  طاقت مانتے  ہیں۔ جو محض  خُدا ہمارے خالق  کی جانب سے ہم کو  اُس کی  مرضی  کے مطابق  بنانے کے لئے تحریک  پاتی ہے اور جو مذہب  اُس  کی جانب سے آتا ہی ہے۔  حقیقت  میں اس صفت  (خوبی)سے موصوف(جس کی تعريف کی جائے)  پایا جائے گا۔ وہی بذاتہ قوی (زور آور۔طاقتور) اور مضبوط  ہو گا۔ اور وہی اصل  میں سچا مذہب  اور  ہماری طبیعت  کی کُل ضروریات  اور خواہشوں  کو پورا کر سکے گا  ۔ اور جب اُس کا منجانب  اللہ  ہونا صاف اور معقول (مناسب)شہادتوں (گواہيوں)  سے ثابت  ہو گا  تو وہی اعتقاد (يقين) اور  اعتماد  کے قابل  ہو گا  ۔ ورنہ اِنسان  اُس  مذہب  سے کبھی تسکین  نہیں پا سکتا  ۔ کیونکہ  اُس میں نہ ذاتی  وحدانيت  (توحيد)ہے اور نہ موثر طاقت ۔

ہم درخت میں مضبوطی  لچک  اور خوبصورتی  تینوں صفتیں مشترک پاتے ہیں  ۔اور یہ اس باعث  سے ہے کہ خُدا نے  خود اُس کو  اپنی قدرتِ کا مل سے  اُ گا  یا ہے اور وہ ایک ہی جڑ  سے بڑھ کر اپنے پورے  قدوقامت   اور طاقت   کو پہنچ گیا ہے۔  لیکن اگر ہم خاص اپنی صنعت  سے ایک درخت  بنا دیں جو  اصل میں  پیپل  کا درخت ہو اور اس پر  جامن کا چھلکا  چڑ ھا کر آم کی ٹہنیاں  اور اُن پر نیم  کی پتیاں  جما دیں ۔اور شگوفوں کی جگہ  گلاب کے پھول اور پھل کی جگہ سیب  لگا دیں تو وہ کسی  کام کا نہیں ہو گا  کیونکہ اُ س میں نہ طاقت  ہو گی نہ استعمال  کا فائدہ  اور نہ خوبصورتی  ۔

پس مذہب  بھی ایک زندہ  درخت خاص  خُدا کی پیدا ئش  کا ہو نا چاہیے  ۔جس میں اِنسانی ضروریات  کے لحاظ  سے سختی، لچک  اور خوبصورتی  برابر پائی  جائیں اور  جڑ  کی مضبوطی  بھی۔ تا کہ اُ س  درخت  کو آندھیوں کے طوفان  سے جو اکثر  اُ س کے گرد اُمنڈے رہتے ہیں محفوظ  رکھ سکے۔ اِنسان  کی نفسانی  شہوتوں کے جو ش  اُس کی مغروری اُس کی  خود ی اُ س کی خود غرضی اُ س کے شکوک سب کے سب  مذہب  کے لئے خوف ناک طوفان  ہیں اور محض وہی مذہب جس کی  جڑ مضبوط  ہو گی  اُ ن کے مقابلہ  میں قائم  رہ سکے گا  اور دُوسرا  نہیں۔

جب یہ حالت  ہے تو پھر ایک ایسے  مذہب  پر جو اپنی سچائی  کے ثبوت  کی کلی (پورا)اطمینان  نہیں دلا سکتا بھروسہ  کرنا گویا  سراب (دھوکا) سےآب تلاش  کرنا ہے ۔اور اس واسطے  اِنسان کا حق  بلکہ  اُس  کا فرض ہے کہ مذہب  کی جڑ  یعنی اصلیت  کی خوب  تحقیق  کر ے   اور دیکھے  ۔کہ وہ خطر ہ کے وقت مضبوط  رہ سکتا  ہے یا  نہیں اور نیز  یہ کہ وہ  میرے حق میں کیا  کر رہا ہے ۔ اگر ہماری  موجود  ہ حالت  بمقابلہ  گذشتہ   حالت  کے اس امر کا یقین  نہیں دلا  سکتی کہ ہم پچھلے  سال  کی نسبت  کس قدر  بہتر  ہو گئے ہیں۔ یاد دیکھتے  ہیں کہ اپنے نفس  امارہ کے مفسد(فساد کرنے والا)  جو شوں کو بہ نسبت  سابق کچھ  زیادہ  مطیع  (تابع)نہیں کر سکتے۔  یا اپنے کمزور  کنگال  اور مصیبت  زدہ  ہم جنسوں  کی ہمدردی  کا خیال  پہلے سے بڑھ  کر نہیں رکھ  سکتے یا خود  ی اور خود غرضی ہماری  طبیعت  سے آگے  کی نسبت کچھ کم  نہیں ہوئی۔  تو یہ امردو   شقوں  سے خالی نہ ہو گا  یا تو ہمار ا مذہب جھوٹا  ہے۔ جو اپنے کاموں  میں سچائی  کی تاثیر  مطلق  نہیں دکھلا  سکتا ۔اور  باہم دیدہ  و دانستہ(جان بوجھ کر)  اپنی ضعیف  الا عتقادی(کمزور اعتماد کا)  اور شورہ پشتی  (لڑائی۔جھگڑا)سے اُس کی تاثیر اپنے دل پر  جمنے نہیں دیتے ۔ پس دونوں  حالتوں میں ہمیں  خُدا سے  دُعا  مانگنی  چاہیے ۔ کہ وہ ہم کو  کامل  روشنی  اور کامل  طاقت  بخشے  تا کہ ہم اُس کا سچا  راستہ  دیکھنے اور اُس پر  تازیست  (تمام  عمر)ثابت قد م رہنے  پر قادر  ہو جائیں  اور اپنے  آپ  کو ایسا  بنا ئیں جیسا  وہ ہمارا بننا  پسند  کر تا ہے۔

ہم بڑے افسوس سے لکھتے  ہیں کہ جناب سید  مولوی  یوسف حامد  مسیحی نے ۱۳ اپریل ۱۸۸۴  ء کو  جنرل  ہاسٹل مدارس  میں بعارضہ  جگر انتقال  کیا۔ صاحب معصور بڑے سر گرم  دیسی مسیحیوں  میں سے ایک مسیحی تھے بلحاظ علمیت  و تجربہ  کاری ایک مشہور  عالم تھے ۔ جب سے یہ مسیحی  ہوئے تھے۔ اشاعت  مذہب  عیسوی  میں بڑی  کوشش  کرتے رہے خصوصاً گز شتہ  سہ ماہی  میں بڑی  سر گرمی  کے ساتھ شہر مدراس  میں اہل ِاسلام  کے ساتھ دینی  مباحثہ  جس کا  ذکر  سلسلہ  وار اخبار  نو ر افشاں میں شائع  ہو چکا ہے ۔ ہم کو اُمید  ہے کہ اُن  کے تمام  کام ضرور  پھل  دکھائیں گے  ۔ اگر  کوئی صاحب  ان کی مختصر  اور سچی  سوانح  عمر لکھ  کر ہمارے پاس  روانہ کریں  تو اس کو  ہم بخوشی تما م اپنے  اخبار  میں جگہ دیں گے ۔ آخر  میں ہم دُعا کرتے ہیں  کہ خُداوند  ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کو صبر  اور تسلی بخشے۔ آمين

Leave a Comment