What is Quran?
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Jan 25, 1895
نور افشاں مطبوعہ۲۵جنوری ۱۸۹۵ ء
پيارے اڈيٹر:کيا ہی انوکھا سوال ہے۔آپ اسکا جواب تو ديجئے۔ديکھيں کوئی کيا کہتا ہے۔قبلہ معاف کيجئے۔دلیّ کے محمد شاہ کو سليم گڈہ کے فورٹ ميں ہی ميں سلامت رہنے ديجئے۔سلطنت سے دست برداری ہی بہتر ہے۔سيد تخت پر پاؤں دھرتے ہی سر قلم کر ديں گے۔ايں حضرت يہ کيا فرماتے ہو۔ ميں تو مذہبی بات پوچھتا ہوں ۔آپ تواريخ ہند سناتے ہو۔جناب ميں نے تو آپ کو العاقل سمجھ کر تکفيۃالاشارۃپر ايما کيا تھا۔مگر اب معلوم ہوا۔کہ آپ نرے نرے اگنور ينٹ ہی ہيں۔معاف فرمائے۔اور ذرا ظہور قطرہ معمور براہ عنايت بيغايت (بے انتہا)اپنے اجمال کی تفصيل سنائے۔آپ نے سنا نہيں ۔کہ مولوی پادری عمادالدين صاحب لاہزڈی ڈی نے تھوڑے ہی دن گزرے ۔کہ اس سوال کا جواب نہ زبان سے بلکہ ہاتھوں سے ايسا ديا ۔کہ يار لوگ اب تک اُنگلياں چاٹ رہے ہيں۔بلکہ مخالفين طيش ميں آکر پشت دست (ہاتھ کا پچھلا حصّہ)کاٹ رہے ہيں۔سو کيوں؟اس لئے کہ اُس علامتہ الدہر منشیٔ عطاردرقم نے اپنے دہان قلم(قلم کے منہ سے) سے اُردو ترجمہ القرآن ميں وہ وہ موتی برسائے۔گويا جواہرات کے ڈھير لگائے۔جس کی چمک دھمک سے دشمنوں کی آنکھوں ميں پانی اتر آيا۔اور ہزارہا آنکھيں اندھے حافظوں کے مثيل نام نين سکھ کو موتيا بند کا عارضہ(مرض) نظر آيا۔اس ساری عرق ريزی (تحقيق)۔اور خونِ جگر سيزی کا خوں بہا سوائے تخويِف ہلاکت(مارنے کی دھمکی) کے عشاقِ قرآن(قرآن کے عاشق) نے اور کيا ديا؟پر تو بھی اُس مردِ ميدان ِ دليری نے عثمان جامع القرآن کی صورت فسيکفيھم اللّہ پر بھروسہ کيا۔اب اور کچھ سننا چاہتے ہو؟واہ صاحب اور کچھ سننا چاہتے ہيں۔لے سنيئے قرآن عربی زبان ميں ايک کتاب ہے۔جو بقول محمديان رب الکعبہ کی تصنيف ناياب ہے۔کہتے ہيں کہ يہ تصنيف بہت کھری ہے۔فصاحت(خوش بيانی) کُوٹ کوُٹ کر بھری ہے۔پوچھو رب الکعبہ کون ہے؟کوئی ہو گا جسے وہ اپنا معبود سمجھتے ہيں۔اور اوروں کے خدا يا معبود کا نام سُن کر بہت اُلجھتے ہيں۔ليکن يہ تو بتلائے کہ قاديانی استقرأقرآنی (تلاش کرنا،پيروی)کے خلاف قرآن خدا کی تصنيف چہ معنی دارد؟ہم نے تو آج تک بھی سنا تھا۔کہ کتب الہاميہ سابقہ مُنزل من اللہ مختلف اشخاص کے زبان اور قلم سے حيطہ تحرير ميں آئی ہيں ۔پس اگر قرآنی دليل کے مطابق رسول اللہ ہونے کو ہميشہ محض اور مجرد ِانسانيت شرط ہے۔اور خداوند مسيح جوبہ محاورہ قرآنی کلمتہ اللہ۔اور رسول اللہ ۔اور روح مِنہُ ہے۔خدا کامل ہو کر رسول نہيں ہو سکتا۔کيونکہ دليل استقرائی کے خلاف ہے۔
تو يہ پانسا اُلٹا پڑا۔بقول نسيم لکھنوی:
پاسے کی بدی ہو آشکارا
راجہ نل سلطنت ہے ہار
کہيے جناب کيسی دليل سُنائی۔لائے مصافحہ (ہاتھ ملانا)کيجئے۔اللّٰہم صَلِّ پانی پی کے لوٹارکھ دو۔کھٹيا (چارپائی)کے تلے۔منطق(دليل) نے ناطقہ (بولنے کی طاقت)بند کيا۔عطائے توبہ لقائے تو والا جواب ديا۔کيا سبب کہ توريت موسیٰ سے رقم ہوئی۔زبور داؤد سے زيرِقلم ہوئی۔صحايف کے مصنف انبيائے مقبول ہيں۔اور اناجيل و خطوط وغيرہ کے مُحرّر (تحرير کرنے والے)خداوند يسوع کے رسول ہيں۔مہربانی کيجئے۔جواب ديجئے کُل کتب ِ الہاميہ کی تصنيف کا ملُہموں(الہام رکھنے والے) پردار و مدار ہو۔مگر تعجب ہے۔کہ محمديوں کے سرور انبيا کا قرآن کے ايک حرف پر بھی نہ اعتبار ہو؟يہ سُن کر تو ميرا سر چکر کھاتا ہے۔کليجہ بانسوں مُنہ کو آتا ہے۔مجھے رخصت فرمائے۔جائے بک بک کر سر نہ کھائے بہت خوب۔