WE HAVE A LAW
By
One Disciple
Published in Nur-i-Afshan June 1,1894
نور افشاں مطبوعہ۱جون ۱۸۹۴ ء
یہودیوں نے اسے ( پلاطوس کو ) جواب دیا کہ ہم اہلِ شریعت ہیں اور ہماری شریعت کے موافق وہ قتل کے لائق ہے کیونکہ اُس نے اپنےآپ کو خُدا کا بیٹا بنايا۔ یوحنا ۱۹۔ ۷۔
یہودیوں نے جو نہایت ہوشیار اور سمجھ دار لوگ تھے۔ مگر مذہبی جو ش میں مغلوبِ تعصب (مذہب کی بے جا حمايت سے مجبور ہو کر) ہو کر مسیح کے سخت دشمن اور درپے آزار(نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا) ہو رہے تھے۔ اس کو ملکی و مذہبی ہر دو طریق پر مجرم ٹھہرانے کے لئے دو طرح کے الزام اس پر قائم کئے ۔پولیٹکل (سیاسی) الزام اس پر یہ عائد کیا کہ اسے ہم نے قوم کو بہکاتے اور قیصر کو محصول دینے سے منع کرتے۔ اور اپنے تئیں مسیح بادشاہ کہتے پایا ۔ لوقا ۲۳۔ ۲ ۔ اور پلاطوس سے کہا کہ اگر تو اس مرد کو چھوڑ دیتا ہے۔ تو تو قیصر کا خیر خواہ نہیں۔ جو کوئی اپنے تئیں بادشاہ ٹھہراتا ہے۔ وہ قیصر کا مخالف ہو کر بولتا ہے۔ یوحنا ۱۹۔ ۱۲۔
پلاطوس نے اس بے بنیاد الزام کی تحقیقات کی۔ اور یسوع کو ُبلا کے پوچھا ۔ کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ تو اس نے صاف جواب دیا کہ میری بادشاہت اس جہان کی نہیں۔ اگر میری بادشاہت اس جہان کی ہوتی ۔ تو میرےشاگرد لڑائی کرتے ۔ تا کہ میں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا۔ پر میری بادشاہت یہاں کی نہیں ہے۔ یوحنا ۱۸۔ ۳۶۔
پس پلاطوس سمجھ گیا ۔ کہ مسیح کیسا بادشاہ ہے۔ اور باہر جا کے یہودیوں سے کہا ۔ کہ’’ میں اس کا کچھ قصور نہیں پاتا ‘‘۔ پلاطوس کو اُس کی زیادہ تحقیقا ت کرنے۔ اور اس پولیٹکل جرم کا ساتھ دینے میں تساہل(غفلت) وپس وپیش کرتا ہو ا خیال کر کے اُس کے الزام پر یہودیوں نے اس کو متوجہ کیا ۔ جو اگرچہ بوجہ مذہبی امر ہونے کے قوم یہود سے متعلق تھا۔ مگر علی العموم(عام طور پر) مذہبی جوش اور اشتعالک(چنگاری) پیدا کرنے کے باعث امنِ عامہ ميں مخل (خلل ڈالنے والا)اور مادہ فساد پیدا کرنے والا تھا۔ یہودیوں کو اپنی شریعت کے مطابق کسی مجرم کفر گوئی کو سزائے موت دینے کا اس وقت اختیار نہ تھا۔ ورنہ مسیح کو احبار ۲۴ باب ۱۶۔ آیت کے حکم کے مطابق سز ا دیتے ۔ جیسا لکھا ہے۔ جو خُدا وند کے نام پر کفر بکتا ہے جان سے مارا جائے گا۔ ساری جماعت اسے سنگسار کرے گی ۔ خواہ وہ مسافر ہو ۔ یادیسی ہو ۔ جب اس نے اس نام پر کفر (خُدا کو نہ ماننا)کہا ۔ تو وہ ضرور جان سے مارا جائے گا ۔اور کفر يہ بکتا تھا کہ اس نے آپ کو خُدا کا بیٹا ٹھہرایا ۔ وہ جانتے تھے کہ مسیح اپنے کو اس معنی سے خُدا کا بيٹا نہیں کہتا ۔ جس سے بائبل میں اسرائیل اور ایماندار لوگوں کو خُدا کا بیٹا کہا جاتا ہے۔ اور ان کو بنی اللہ خطاب دیا جاتا ہے بلکہ وہ ان اعلیٰ ترین لوگوں کی بجائےاپنے آپ کو ابن ِاللہ کہتا ہے۔ جن سے وہ خُدا۔ اور خُدا کے برابر ٹھہرتا ہے۔ اور بے شک مسیح خُداوند کا بھی اپنےآپکو ابن ِاللہ کہنے میں یہی مطلب تھا۔ کیونکہ اگر وہ اپنی نسبت ان عام معنوں میں اس لفظ کو استعمال کرتا ۔ اور یہودی غلط فہمی سے اس کو ایسا کرنے سے مجرم کفر سمجھتے کہ وہ موسوی شریعت کی رو سے واجب القتل(قتل کے لائق) ٹھہرے۔ تو وہ یقیناً انہیں اس مہلک (ہلاک کرنے والی)غلطی سے بچانے کے لئے صاف کہتا کہ میں اس معنی سے جو بدرجہ کفر پہنچتے ۔ اور مجھ کو خُدا ۔ یا خُد اکے برابر کر سکتے ہیں۔ ہرگز خُدا کا بیٹا نہیں ہو ں ۔ تب شریعت قتل کا فتوی اس پر کبھی نہ دیتی ۔ لیکن وہ اپنے دعویٰ انا الحق پر قائم رہا۔ اور موسوی شریعت کے مطابق سنگسار نہیں ۔ مگر مصلوب ہوا ۔ یہ کیسی عجیب بات ہے۔ کیا یہودی ۔ جو شریعت والے تھے۔اپنی شریعت کے مطابق مسیح کو واجب القتل ٹھہرانے میں حق بجا نب تھے ۔ اور مسیح جس نےاپنےآپ کو ابن ِاللہ کہنے کےجرم میں سزائے موت اُٹھائی حق بجانب نہ تھا؟ ہم اس فیصلہ کو جس کو پلاطوس نہ کرسکا۔ اور نہ جانا کہ حق کیا ہے۔ ہرایک طالب حق کی رائے پر چھوڑتے ہیں۔
’’ مسیح خُدا کا بیٹا ہے‘‘ ۔ یہی بات یہودیوں کے ٹھوکر کھا کر گرنے کا باعث ہوئی۔ اور یہی اب بھی بہتوں کے لئے ٹھوکر کھلانے والا پتھر اور ٹھیس دلانے والی چٹان رہی۔ یہ کیسے تعجب (حيرانگی)کی بات ہے۔ کہ باوجود انجیلی صاف و صریح بیانات (واضح بيانات)کے لوگ یہ کہنے کی جرات کرتے کہ مسیح نے ہرگز ابن ِاللہ اپنےآپ کو نہیں کہا۔ جیسا کہ عيسائی سمجھتے ہیں۔ اور ہم بجز اس کے اور کیا کہہ سکتے۔ کہ وہ انجیلی مسیح سے واقف نہیں۔ مگر کسی اور مصنوعی مسیح کو ۔ یا اس کی خیالی تصویر کو مسیح سمجھتے ہیں۔
کیا یہ حیر ت کا مقام نہیں ہے۔ کہ پلاطو س جو ایک بُت پرست شخص تھا۔ یہ سن کر ڈر گیا کہ مسیح خُدا کا بیٹا ہے۔ مگر سردار کاہنوں اور بزرگوں کو کچھ خوف محسوس نہ ہوا۔ اور زیادہ زور سے چلائے۔ اسے صلیب دو ۔ اسے صلیب دو ؟ ہم یہاں اِنسان کی مختلف طبیعتوں پر ’’مسیح ابنِ اللہ ‘‘ الفاظ کا کیسا مختلف اثر نمایا ں دیکھتے ہیں۔ یہ الفاظ کسی کو پلاطوس کی مانند ڈراتے ۔ کسی کو مثل قوم یہود گراتے ۔ اور کسی کو مسیحیوں کی طرح نجات بخش قدرت رکھنے والے معلوم ہوتے ہیں۔