WE FACE DEATH ALL DAY LONG
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Aug 3, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۳اگست ۱۸۹۴ ء
اگر دنیا کے ظاہر حال پر نظر کرکے یہ سوال کیا جائے کہ کونسے مذہب کے لوگ دنیا کے موجودہ اہلِ مذاہب میں سب سے زیادہ بُرے ، سب سے زیادہ ناپاک ، سب سے زیادہ بے عقل سمجھے جاتے ہیں؟ تو ایک غیر مسیحی شخص بلا تامّل یہ جواب دے گا کہ وہ عیسائی لوگ ہیں۔ چنانچہ مسیحیوں کے ساتھ غیر مسیحیوں کا معاندانہ و مخالفانہ برتاؤ اس امر کا شاہد ہے۔ اَور یہ کچھ نئی بات نہیں بلکہ مسیحیت کی ابتدا سے یہی برتاؤ مسیحیوں کے ساتھ غیر مسیحیوں کا رہا ہے۔ جیسا کہ رومی یہودیوں نے پولُس رسول سے کہا کہ۔ ’’ ہم چاہتے ہیں کہ تجھ سے سُنیں۔ کہ تو کیا سمجھتا ہے۔ کیونکہ اس فرقہ کی بابت ہم کو معلوم ہے۔ کہ سب کہیں اُسے برا کہتے ہیں‘‘( اعمال ۲۸: ۲۲)۔ پولُس نے خود بھی مسیحیوں کی حالت کا بیان ان غمناک الفاظ میں کیا ہے۔ ’’ ہم اس گھڑے تک بھوکے ۔ پیاسے۔ ننگے ہیں۔ اَور اپنے ہاتھوں سے سے محنتیں کرتے ۔ وہ برا کہتے ۔ ہم بھلا مناتے ہیں۔ وہ ستاتے ہم سہتے ہیں۔ وہ گالیاں دیتے ہیں ۔ ہم گڑگڑاتے ہیں۔ ہم دنیا میں کوڑے اَور سب چیزوں کی جھاڑن کی مانند آج تک ہیں ‘‘(کرنتھیوں ۴: ۱۱۔۱۳)۔ سب سے زیادہ تر تعجب کی بات ہے۔ کہ مسیحیوں کی مخالفت میں وہ لوگ جو خدا پرستی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اَور وہ جو حقیقت میں بت پرست ہیں ایک ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ زمانہ گزشتہ میں یہودی اَور رومی تھے۔ اَور فی زمانہ محمدی اَور ہندووں ہیں۔ رومیوں اَور یہودیوں کی باہمی مذہبی و ملکی مخالفت اَور ہندووں اَور محمدیوں کی ٓاپس کی مذہبی عداوت (دشمنی)محتاج بیان نہیں ہے۔ تو بھی مسیحی دین کی بیخ کنی(جڑسے اکھاڑنا،تباہ کرنا) ۔ اَور مسیحیوں کی ایذا رسانی کی کاروائیوں میں وہ برابر حصہ لینا۔ اَور مذہبی سرگرمی اُن کی تخریب میں ظاہر کرنا یکساں موجب ثواب سمجھتے ہیں۔ یہ بات آج کل اظہرمن الشمش (روز روشن کی طرح عیاں )ہے۔ کہ اگر کوئی ہندو مسلمان ہو جاے یا مسمان سکھ بن جائے ۔ تو لوگ بہت کم اُس کا نوٹس لیتے ہیں۔ لیکن اگر غیر اقوام میں سے کوئی شخص (خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہو) مسیحی ہو جائے تو گویا ایک فتنہ محشر برپا ہو جاتا ہے۔ اَور سب اس کو ایک مستوجب لعنت ونفرت سمجھ کر زبان حال سے ظاہر کرتے ہیں۔ کہ ’’اُس کو زمین پر سے اُٹھا ڈالو اُس کا جیتا رہنا مناسب نہیں ہے‘‘۔
بصورت اگر کوئی شخص سوال کرے کہ مسیحیوں میں ایسی کون سی بات ہے۔ اَور کیا وجہ ہے کہ دنیا کی تمام قومیں اَور جملہ اہل مذاہب اُنہیں اس قدر برا سمجھتے ہیں۔ کہ اُن کے ساتھ خصومت و عداوت رکھتے ہیں؟ تو اس کا صاف جواب خداوند یسوع مسیح کے مندرجہ انجیلی قول میں ہے۔ جو اُس نے اپنے شاگردوں کو مخاطب کرکے فرمایا یہی ہے کہ۔ ’’اگر تم دُنیا کے ہوتے تو دنیا اپنو ں کو پیار کرتی ۔ لیکن اس لیے کہ میں نے تمہیں دُنیا سے چن کے جدا کیا ہے۔ اس واسطے دُنیا تم سے دشمنی رکھتی ہے‘‘( یوحنا ۱۵: ۱۹)۔ پھر یہ کہ ’’ میرے نام سے قومیں تم سے کینہ رکھیں گی‘‘( متی ۲۴: ۹)۔
پس جو کچھ بدسلوکی غیر قومیں مسیحیوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ اُ س کا صاف و صریح سبب یہی ہے کہ مسیح کا مبارک نام لینے کے باعث ایسا دشمنانہ سلوک اُن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اُن کے لیے مایوس اَور بے دل ہونے کا باعث ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ اُ س کے جلال کی قدرت کے مطابق سب طرح کی مضبوطی پیدا کرکے خوشی کے ساتھ ہر صورت سے صبر و برداشت کرے۔ اَور باپ کا شکر کرتے ہیں جس نے اُن کو اس لائق کیا ۔کہ نور میں مقدسوں کے ساتھ میراث کا حصہ پائیں۔ اس مین شک نہیں کہ مسیح کے حقیقی ایماندار ایسی پر آزمائش حالتوں میں پولُس رسول کے ہم زبان ہو کریہی کہتے ہیں۔’’ ہم تو ہر طرف سے مصیبت میں ہیں۔ لیکن شکنجے میں نہیں ۔ حیران ہیں۔ پر نا اُمید نہیں۔ ستائے جاتے ہیں۔ پر اکیلے نہیں چھوڑے گئے۔ گرائے جاتے ہیں پر ہلاک نہیں‘‘ ( ۲ ۔کرنتھیوں۴: ۸۔۹)۔ اَور یہ کہ وہ تمام دنیوی مخالفتوں کی دلیری اَور استقلال کے ساتھ مقابلہ کرکے کہتے ہیں۔ کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا۔ مصیبت۔ یاتنگی۔ یا ظلم۔ یا کال۔ یا ننگائی ۔ یا خطرہ۔ یا تلوار؟ اگرچہ وہ اُ س کی خاطر دن بھر ہلاک کیے جاتے ہیں۔ اَور ذبح کی بھیڑوں کے برابر گنے جاتے ہیں۔ تاہم ان سب چیزوں میں وہ اُس کے وسیلے جس نے اُن سےمحبت کی ہر غالب پر غالب ہیں‘‘ (رومیوں ۸: ۳۷)۔