Universal influences of Christianity
one disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Mar 5, 1897
نور افشاں مطبوعہ ۵ مارچ ۱۸۹۷ ء
ڈاکٹربیروز صاحب یہ بات ثابت کر کہ کسی مذہب کا اندازہ اس کی کئی اعلیٰ تعلیمات ہی پر مبنی نہیں ہے۔ مندرجہ بالا عنوان مضمون میں مطلع کرتا ہے کہ برعکس اس کے کسی مذہب پر صرف ان کی غلطیوں اور نقصوں سے بھی اپنی رائے قائم کرنے کی غلطی میں نہ پڑ جانا چاہیے ۔ پس اس کے ثبوت سے ہم ڈاکٹربیروز صاحب کا یہ مضمون ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ ایڈیٹر
لیکن اور بھی احتیاطوں کی ضرورت ہے ۔ ایک یہ ہے کہ کسی مذہب پر صرف اس کی غلطیوں اور نقصوں سے رائے نہیں قائم کرنی چاہیے خواہ ہندو مذہب ہو یا بُدھ مت خواہ محمدی مذہب ہو یا ادنیٰ قسم کی بت پرستی ۔
نہیں ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ یہ سب برائیاں مسیحی مذہب کی بنیادی قانون کی آئین شکنیاں ہیں یعنی اس قانون محبت کی جو خدااور انسان کی طرف ہے۔
ہم رکھتے ہیں کہ مسیح خود اپنی زندگی اور روح اور تعلیم میں ہمارے ایمان کا خلاصہ ہے۔ وہ ہم کو خدا کے باپ ہونے کی تعلیم دیتا ہے اور اس کو ایک حقیقت ثابت کرتا ہے۔ وہ ہم کو خدا کے روح ہونے کی تعلیم دیتا ہے اور ہم کو محض ظاہر پرستی سے چھٹکارا دیتا ہے۔ وہ ہم تک خدا کی صداقت کی تعلیم پہنچاتا ہے اور ہم کو منع کرتا ہے کہ بدی کو دل میں جگہ نہ دیں۔ وہ اپنی زندگی سے محبت کی فوقیت سکھاتا ہے او ر خود نثاری کی روح کو ظاہر کرتا ہے۔
اگرمسیحی مذہب کے نقطہ چین کی لیاقت اور اس کے اخلاقی اصولوں پر غور کریں تو وہ زیادہ صحیح خیال حاصل کریں گے۔ کیمیا گر جو کہ زہریلی ہوا میں تجسس کرے اغلباً صاف ہوا کی خاصیتوں کو نہ معلوم کرےگا۔ فرض کرو کہ سائنس کا کوئی نیم حکیم ذیل کے تجربے حاصل کرے۔ وہ شام کولمپ کے پاس بیٹھا ہے اور ہوا کا ایک جھونکا لمپ کو بُجھا دیتا ہے تب وہ بازار میں پھرتا ہے اور ٹھنڈی ہوا اس کو ٹھٹراتی ہے۔ پھرو ہ ایک پہاڑ پر چڑھتا ہے اور لطیف ہوا اس کی دم کشی کو مشکل کر دیتی ہے۔ وہ سمندر پر عبور کرتا ہے ایک سخت طوفانی ہوا جہاز کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔ وہ انگلستان کے ایک کوئلہ کی کان میں اُترتا ہے وہاں کی زہریلی ہوا اس کی جان کو خطرہ میں ڈالتی ہے وہ روم شہر کے کمپینامیدان میں گذرکرتا ہے ایک مہلک ہوا اس کے زور کو گھٹا دیتی ہے۔ وہ کوِہ وسویس کے اندر جھانکتا ہے تو گندھکی ہوا کا ایک جھونکا قریباً اس کے دم کو گھونٹ دیتا ہے۔ اس کےبعد وہ اپنے گھر کو واپس جاتا ہے اور ہوا میں اپنے پُر تکلیف تجربوں کو سوچ کر کے وہ عوام کے سامنے علانیہ اپنے یقین کو کہہ سناتا ہے کہ ہوا دنیا کے لیے بڑی لعنت ہے۔ اس بات کو بیوقوف سُنتے ہیں اور اس کو آفرین کہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ معلوم شدہ زمانہ کے آغاز سے انسان اس فراخ ہوائی سمندر میں حرکت کرتا اور رہتا چلا آیا ہے اور بغیر اس کے تمام زندگی مر جاتی ہے۔ موت زندہ ہو جاتی ہے ۔ مذہب وہ فضا ہے جس میں انسان زندہ رہتا ہے اور بجائے اس کے کہ ہم اس کو چھوڑ دیں ہم اچھی طرح برداشت کر سکتے ہیں ۔ فقہہ کی لطیف ہوا اور تعصب کے سر د دانٹ اور نیز بے رحم وہم کے مضر بخارات کی۔
اس حجت کو پیش کرتا ہوں اور ان کیفیتوں کو نہ صرف مسیحی مذہب کے حق میں پیش کرتا ہوں بلکہ دل مذاہبوں کے حق میں بھی جو مسیحی مذہب سے باہر ہیں۔ ڈاکٹر مارٹن نے شہر پیکنگ میں امپیریل یونیورسٹی کے پریزیڈنٹ ہیں تھوڑے دن گذرے یوں لکھا ہے ۔’’غیر مسیحی دنیا کے سخت منجمد منطقوں بھی گرم ہوا کی لہریں سورج کی طرف اٹھتی ہیں اور مسیحی ملکوں میں زیادہ گرم روحانی فضا میں کیا مردلہریں نہیں ہیں جو اس یعنی خدا سے دور ہوئی ہیں‘‘۔ اور وہ یہ بھی لکھتے ہیں۔ ’’یہ ۔۔۔ کرنا غلطی ہے کہ روح القدس اپنے عملوں کو صرف مسیحی صورتوں میں کرتی ہے۔ غیر مسیحی ملکوں میں اس کی حضوری اس برتی رقیق کی مانند ہے جو کہ فضا میں ہوتا ہے۔ حالانکہ مسیحی ملکوں میں یہ اس مایہ کی مانند ہے جو کہ تاروں کے جالے میں دورہ کرتا ہے۔ اور آدمی کے چھونے کا جواب روشنی ۔ حرارت اور طاقت پیدا کرنے سے ایک مذہب کو بخوبی جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیادی باتوں اور عملی طاقتوں اور نیز ان نتیجوں کو معلوم کیا جو اس کے متعلق ہوں۔ یہ بھی غرور ہے کہ ہم معلوم کریں کہ اس کے جائز پھل اور اس دین کی تواریخی ترقی کے کون کون سے واقعات اور حادثات ہیں۔ دیگر اسباب بھی مذہب کے ساتھ مل کر کام کیا کرتے ہیں ان کی طاقت کا بھی اندازہ کرنا چاہیے ۔ ہم اس بات سے نہیں ڈرتے ہیں کہ مسیحی مذہب کا کسی اور مذہب کے ساتھ مقابلہ کیا جائے آزمایشوں کے کسی سلسلے کے ذریعے جو ہم کو صداقت کے نکالنے میں مدد دے سکے۔ ان آزمائشوں میں ہر ایک مذہب کی بنیادی اور اخلاقی اور روحانی باتیں شامل ہونی چاہیں۔ اور نیز نا مکمل اور بُری تعلیمات اگر ایسی ہوں اور ہر ایک کی روحانی طاقتیں جن کے ذریعہ سے ان کے کامل نمونے حاصل کئے جا سکتے ہیں اور عمدہ نتائج جو ہر مذہب دکھا سکتا ہے اور وہ باتیں جس کی میں اس کے کام کے اوسط نتیجے کہونگا زمانہ دراز میں لوگوں کے بڑے گروہ پر یایوں کہیں اس کے اصلی رشتے شائشتگی علمی ترقی آزادی اور ترقی عام سے ۔ اس طرح سے معلوم ہوگا کہ امتیاز (فرق) کرنے والی قوت فیصلہ کی ضرورت ہے ایسے بڑے مکمل مضمون کے تحقیق کرنے کے لیے جیسا کہ مسیحی مذہب کے دور دراز اثر ہیں بمقابلہ اثر ہائے دیگر مذاہب۔
چونکہ آغاز میں یہ ایک نفرتی وہم خیال کیا گیا پس قدیم قوموں میں سے نہایت نفرتی اور حقیر قوم کے رہمناؤں نے اس کو حقیر جانا۔ اور یونان کے فلسفہ دان نے اس سے گھِن کی ۔ اور مغرورجس کی رومیوں کو نقصان دہ معلوم پڑا۔ اس لیے ہم اس بات پر متحیر نہیں ہوتے ہیں کہ مسیحی مذہب کے پہلے شاگردوں پر بے رحمی سے محلہ کیا گیا اور جب ان کی فتحیں پھیلتی گئیں ان کو ستاتا اور بھی زیادہ مہلک(خطرناک) ہوتا گیا۔ تو بھی باوجود یہودی اصل کے اور باوجود اس کے بلاشرکت کے (کیونکہ یہ تب بھی یہ طلب کرتا تھا جیسا کہ اب طلب کرتا ہے کہ اور سب انتظاموں کو جو نجات کے وسیلے سمجھے جاتے تھے ترک کرے) اور باوجود جو دبت پرستی۔ ناپاکی اور بے انصافی سے اس کی سخت دشمنی کے ہم یہ معلوم کرتے ہیں کہ یسوع کا مذہب اپنے بہت بت پرست دشمنوں کی مشکور جن سے مبارک کہا جا کر تاریک مردہ خانوں اور تماشاگاہ کے خون آلودہ ریگ سے فتح مند اٹھ کر انسانی طاقت شرارت اور دشمنی کے سب سے بڑے مجموعہ پر جس کا کلیسیا کو مقابلہ کرنا بُرا یعنی سلطنت روم پر آخری فتح حاصل کی۔ آخرکار ہم اس کو اسکول مندر عدالت گاہ لشکر گاہ اور گھر میں فتح مند پاتے ہیں۔ رومی بت پرستی سے مسیحی جنگ و جدل کا بیان پڑھنا اور ان باتوں کو یاد کرنا انسان کے روحانی ممکنات کے بارے میں ایمان کو تقویت بخشتا ہے کہ نہ تو نیرواور ملرکس آریلسیس اور ڈایو کلیشین اور نہ ٹریجن کسے پُر عداوت قوانین اور نہ وہ سب کامیابیاں جو کہ تہمت اور دشمنی حاصل کر سکیں کلیسیا کے شاہانہ گو پرزورترقی کو روک سکے ۔ صرف روحانی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اور اپنے سینے کو ہلاک کرنے والے کی برچھی کے سامنے کر کے اس نے اپنے بادشاہ مسیحی کی گواہی دی۔ مورخ یوں لکھتا ہے کہ وہ سخت عذاب کے وقت تھے خاص کر کے ویسیس کے دو سال اور ڈالو کلیشین کے دس سال جب کہ طاقتور رومی سلطنت تماشاگاہ کے دروازوں کو بند کر کے مسیحی کلیسیا کے مقابلہ پر اکھاڑے میں کود پڑی پر جب دروازے کھولے گئے تو فتح مند کلیسیااپنی مقدسانہ پیشانی پر خون کا بپتسمہ لے کر اور اپنے خوبصورت سفید بازؤں پر ایک نئی مسیحی سلطنت کو اُٹھائے ہوئے نکل پڑی۔
لیکن مسیحی مذہب خمیر اور تخم دونوں کا کام دیتا رہا ہے۔ اس کا کام نہ صرف پھیلانے اور اس کی بادشاہت کو زمانہ بزمانہ بڑھاتا رہا ہے بلکہ اس کا کام روحانی اور زوردار رہا ہے۔
جرمنی کی قومیں اس سلطنت پر حملہ آور ہوئیں اور مسیحی مناد اور جرمنی کے وحشی لوگ ایک دوسرے کے سامنے ہوئے ۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ دس صدیوں تک بلکہ اس سے زیادہ مسیح کی کلیسیا خوفناک طرح سے روم کی خرابیوں کے ساتھ اور نیم شائستہ وحشیوں کی تندیوں میں مبتلا رہی جو کہ آج کے دن کی یورپ کی خاص قوموں میں پھیلی ہوئی تھی۔
ہم مسیحی مذہب کی بہت ہی ٹھیک واقفیت جب کرتے ہیں جب ہم اس کے بنیادی قانون کو زندگی کا قانون مان لیتے ہیں۔ ہم کو بتایا گیا ہے کہ بُدھ مذہب کا بنیادی اصول یا بھید یہ تعلیم ہے کہ ہر نیکی کے بعد اور اوپردل کی وہ بے ہوش حالت ہے جو نہ غم کرتا ہے اور نہ خوشی ۔ نہ نفرت کرتا ہے اور نہ محبت ۔
’’ہر ایک شخص کے لیے اپنی ہی غیر فانیت کی کوئی امید نہیں ہے‘‘۔آخر کار اس کو جزب ہو جاتا ہے‘‘۔ جزا اور سزا آخر کار دونوں ختم ہو جائے گی ‘‘ یہ ان کا قول ہے۔ لیکن جب تک انسان نیکی کرتے جائیں وہ جزا کے مستحق رہنے میں جیسا کہ وہ سزا کے سزاور رہتے ہیں جب تک وہ بدی کرتے ہیں ۔ ’’تمام قسم کے کاموں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ انسان کی اعلیٰ حالت دھیان مستغرق حالت ہے جس میں کوئی کام نہیں کیا جاتا ‘‘۔ لیکن مسیحی مذہب جو انسان اور سوسائٹی کے مہیب کام اختیار کرتا ہے اور جو اور تمام مذاہب کو اپنے پر یقین دعووں کے سببب تاریکی میں ڈال دیتا ہے سب سے بڑھ کر بھرپورزندگی اور الہیٰ قوت کا مذہب ہے۔ جیسا کہ امریکہ کے ایک عالم جو کہ مدت تک جاپان میں رہا یوں صاف طرح کہا۔ ’’بدھ مذہب جب کہ دنیا کے گناہ اور قابل اس کا ترقی کے شکل سوال کے سامنے کیا جاتا ہے تو اس کو ٹال دیتا ہے۔
شروع ہی میں دعویٰ ہے دلیل کرتا ہے۔ اور ہستی سے بچنے کے لیے دعا کرتا ہے اور یہ کہ ہم کو زندگی سے بچا اور جہاں تک ممکن ہو اس کا بہت تھوڑا حصہ ہم کو ملے ۔ پر مسیحی مذہب اس سوال کا سامنا کرتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹتا۔ بلکہ حکم دیتا ہے کہ کوشش کے برابر خط کے ساتھ بڑھتے جاؤ اور دعایوں کرتا ہے کہ ہم کو بدی سے بچا۔
اور ہمیشہ خوش امید میں رہتا ہے کیونکہ اس کا سردار اور رہمنا یوں کہتاہے ۔ میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔ جاؤ اس کو میرے لیے جیتو۔ میں آیا ہوں تاکہ وہ زندگی پائیں اور تاکہ وہ اس کو بکثرت حاصل کریں۔
لوگ ترقی کے آغاز کو اور اس طاقت کو جس سے ترقی صورت پکڑتی ہے بھول جاتے ہیں جب کہ تسکین کے ساتھ انیسیویں صدی کی بابت گفتگو کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بڑے مرتی یعنی زمانہ جدید کی شائستگی پر نظر کرو اور مسیحی مذہب کے پھلوں کی بابت بڑائی کرنے سے باز آؤ۔ لیکن چین کے وسط میں جاؤ جہاں کہ انجیل اب تک نہیں پہنچی ہے۔ وہاں پر انیسیویں صدی نہیں ہے ۔ وہاں پر لوگ اب تک مسیح کے پیشتر کی پانچویں صدی میں رہتے ہیں۔ کہا ں ہے انیسویں صدی ان فرقوں میں جو کہ افریقہ کے تیز سورج کے تلے رہتے سہتے ہیں یا بڑے لامہ کے لوگوں میں جو کہ تبت کے سطح مرتفع پر رہتے ہیں۔ اگر آزادی کی ترقی کی بابت کہو تو اس کی ترقی کا سلسلہ ٹھیک اس سے آتا ہے جس نے تعلیم دی کہ کل آدم بھائی ہیں اور خدا باپ ہے۔ رومی سلطنت میں اسی کے کلام نے غلامی کی موت کا ڈنکا بجایا ۔ جس طرح تخموں نے کالییم میں اور اینٹوں کے بیچ اُگی ہوئی سبزی نے قیصروں کے محل میں پُرانی بنیا دکو خراب کر دیا اور الٹا دیا۔
اسی طرح اس تخم نے جس کو یسوع نے گذشتہ زمانہ کے بہت سے ذلیل کرنے والے ظلموں کو برباد کر دیا اور الٹ دیا ہے۔ زمیندار ی بشرط شرکت کا دستور جاتا رہا ہے۔ بائبل چھٹکارا کا باعث ہوا ہے۔