True Friendship
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan August 2, 1895
نور افشاں مطبوعہ ۲اگست ۱۸۹۵ ء
سچی دوستی کا ایک بڑا خاصہ یہ ہے ۔کہ جب کوئی اپنے دوست کی نسبت کوئی نامناسب بات اُس کی غیر حاضری میں سُنے تو اُس موقعہ پر وفاداری ظاہر کرے ۔ اکثر دیکھا جاتاہے ۔ کہ انسان اس قدر اپنی تاریک دلی اور کمزوری ظاہر کرتا ہے ۔ کہ اپنے ہی دوستوں کی نسبت جن کی دوستی کا وہ دم بھرتا ہے بُری اور نامناسب خبریں سُن کر راضی ہوتا ہے۔ کیا یہ روز مرّہ کی بات نہیں ہے کہ انسان کا نیچر جب اوروں کے قصوروں غلطیوں یا کمیوں کو دل لگا کر سنتا ہے۔ سننے سے خوش ہوتا ہے۔ کم ازکم ہم کو اس قدر تو اقرار کرنا پڑے گا ۔ کہ اس طرف انسان کا بڑا میلان (رُحجان)ہے ۔ لیکن ہم کو مناسب ہے کہ ہم دُنیا میں محبت کا ایسا نمونہ دکھلا دیں ۔ جو ایسی بُری باتوں کو سن کر جو اس کو ضرر(نقصان) پہنچاتی ہیں ۔یا اس کے نقص اور کمیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ خوش ہوں ہم پر واجب (فرض)ہے کہ اس سے ہمارے دل میں رنج(افسوس) ہو ۔
مسیحی محبت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنے دوست کی چال چلن کے بچاؤ میں اُس قدر سرگرمی ظاہر کریں ۔ جیسا کہ ہم اپنی خاطر کیا کرتے ہیں۔ ہم سچ مچ اپنے بھائی کے رکھوالے ہیں۔ پولوس رسول کیا ہی محبت کی تعریف کرتا ہے محبت صابر ہے اور ملائم ہے۔ محبت ڈاہ (حسد)نہیں کرتی ،محبت شیخی نہیں مارتی ۔ اور پھولتی نہیں بے موقعہ کام نہیں کرتی ۔ خود غرض نہیں غصہ و رنہیں بدگمان (بد ظن۔شکی)نہیں ۔ ناراستی سے خوش نہیں بلکہ راستی سے خوش ہے۔ سب باتوں کو پی جاتی ہے سب کچھ باور(يقين) کرتی ہے سب چیز کی اُمید رکھتی ہے سب کی برداشت کرتی ہے ‘‘۔ الخ اگر یہ محبت ہمارے دل میں ہو اور ہم اس پر عمل کریں تو غور کیجئے اور سوچئے کہ کس قدر نااتفاقی اور آپس کا رنج اور جُدائیاں اور جھگڑے اور بدانتظامیاں ہماری سو سائٹی ہماری کموینٹی ہمارے ملک سے جاتے رہیں گے اور کس قدر چین اور آرام اور ملن ساری اور دلی اطمینان ہم حاصل کریں گے اور کس قدر خوشی اور تسلی ہمارا بخرا (حصّہ)ہو گی۔
ناظرین نورِافشاں کو یاد ہو گا کہ دو ہفتہ گذرے کہ ہم نے ایک خط کا ترجمہ جو امریکا کے ۲۲ بورڈ ذ کی جانب سے ان کی متعلقہ کلیسیاؤں کے نام سیلف سپروٹ کے بارے میں ہی درج اخبار کیا تھا ہماری غرض اس کے اندراج سے یہ تھی کہ ہمارے اہل الرائے مسیحی ناظرین اس امر پر غور کر کے اس معاملہ میں اپنی آزاد رائے دیں ہمارے خیال میں یہ امر ہندوستان کے مسیحیوں کے لئے بڑا غور طلب امر ہے اور جس قدر جلد ہو سکے اگر ہند کے مسیحی اس کو عملی طور پر حل کریں تو نہایت ہی مناسب ہو گا ۔ ہم جانتے ہیں کہ عملی طریقے اور عملی تدابیر پیش کی جائیں تا کہ اس پر عملدرآمد ہو نے لگے۔