تثلیث

Eastern View of Jerusalem

TRINITY

By

One Disciple

Published in Nur-i-Afshan June 1,1894

نور افشاں مطبوعہ ۱جون ۱۸۹۴ ء

اس امر  کی صداقت(سچائی)   پر عام روز  مرّہ کا تجربہ   گواہی دیتا ہے۔  کہ جس   قدر کسی    کی عقل   محدود  ہوتی ہے۔  اسی قدر  وہ اپنے تئیں   افلاطون   ثانی (دوسرا)  اور لقمان   زمانی    سمجھتا   ہے۔ اور جس قدر   کذب  و بطلان   (جھوٹ و ترديد)کی زنجیروں   کا دائرہ   اس کے فہم   و فراست(عقل و سمجھ داری)  پر تنگ   ہوتا ہے۔  اسی قدر  وہ اپنے تئیں روشن ضمیر  ، اور  قدرتِ   کاملہ  اور اسرارِ غیبیہ   پر حاوی تصور  کرتا ہے۔  مقدس  پولوس  نے ایک جگہ   فرمایا   ہے۔ کہ جسم  اور روح  کے درمیان   بسبب گناہ  کے ایک  جنگ  شدید   اور کش مکش عظیم   بر پا ہے۔  جس   کی عین   بزرگی    اس میں ہے۔   کہ وہ روح کامطيع(فرمانبردار)  رہے۔ اپنے  درجہ  سےتجاوز(حد سے بڑھنا)کر کے چاہتا  ہے۔ کہ روح  پر بالا دستی(کسی پر اختيار ہونا) کرے۔ بر عکس   اس کے روح جس میں خُدا   کی ذات   کا  خاص نقش موجود  ہے۔ اور جس  کی طاقتیں   بباعث   اس نقش   کے ہمیشہ    رو  بترتی   رہتی ہیں۔   اور اُمید   ہے کہ زمانہ  ابد تک   رہے گی   بھی  ہمیشہ   بباعث   اس حیاتی  اور ایمانی رشتے  کے۔ جو کہ ذاتِ   باری   سے رکھتی  ہے۔ اس ذات  پاک  کے اسرار  پنہائی  (چُھپے ہوئے راز)میں لگی   رہتی  ہے۔  لیکن روح   کا جسمانی  اور نفسانی   قیود(قيد۔پابنديوں)   سے رہا  کرنا تھوڑوں  ہی کا حصہ  ہے۔  عوام الناس  بباعث   اپنی  نفسانیت  کے  اس تعلیم   کوپسند  کرتے ہیں۔  جس میں دقائق(باريکياں)  یا بھید(راز) نہ ہوں ۔  اور جس مذہب   میں  دقایق ہوں۔   اس پر تمسخر  (مذاق)کرتے ہیں۔ اور  اسرار  کو انسانی   ڈھکو سلے (فريب۔دھوکے)  قرار  دیتے ہیں ۔ ایک  شخص  نے بڑی  بے صبری  سے کہا ۔ میاں خُدا  کی ذات  میں بھید  ہے وہ ذات  تو اظہر  من   الشمس  (سورج کی طرح ظاہر و عياں)ہے؟

  گویا  اس سے تثلیث ِمقدس  کی جڑہی  کٹ  گئی۔ اور  بحث  کی جگہ   باقی نہ رہی  ليکن  یاد رکھنا  چاہیے  ۔ کہ جب ہم  نے ذات ِباری  کو اظہر  من الشمس  مان لیا ہے۔  تواس  سے فقط  یہی مراد  ہے۔ کہ وہ ذات  پاک من حیث  الوجود  اظہر (ظاہر)ہے۔ نہ اس خیال  سےکہ اس کے اندرونی  قواعد   الطاف  بھی اظہر  ہیں۔ عام  بحثوں  میں ایک لفظ   دو معنوں  میں استعمال   کیا جاتا ہے۔ اس لئے  نتیجہ  خبط(غلط)  ہو جاتا ہے۔ او رانسان   کی بگڑی   ہوئی طبیعت   اس تعلیم   کو جلد   قبول   کر لیتی   ہے۔ جو فوراً  سمجھ   میں آجائے  اور جس کا  فائدہ  جلد مبرہن(مضبوط) اور عیاں(واضح)  ہو۔ لیکن جن مذاہب   کی تعلیم  ایسی ہوتی  ہے ان کا اثر  معتقد  ین(اعتقاد رکھنے والوں) پر اچھا   نہیں ہوتا ۔ مثلاً اسلام  ۔ جس  کی تعلیم   صاف  صاف  اوربھیدوں  سے بری وتہی (آزاد و خالی)ہے۔  اس کا اثر   مسلمان  قوموں پر کیا ہو اہے؟ مسلمانوں نے سائنس   ، ریاضی   طب  ونجوم   میں بہت ہی کم نئی  باتیں   ایجاد    یا معلوم کی ہیں۔  برعکس  اس کے ہندووں ،یونانیوں اور آج کل   کے  اہلِ   یورپ  نے،جن کے مذاہب   پُر  از دقائق   (باريکياں۔نکتے)تھے یا ہیں ۔ ہر قسم  کےعلم میں   عروج (بلندی)پیدا کیا۔  جس قدر کسی   قوم پر  نفسانیت  غالب   (زور آور)ہوگی۔ اسی قدر  اس کی عقل  عمق(گہرائی)  میں کم۔  اور اس کا مذہب  دقائق  سے خالی ہو گا۔  کنوئے کا مینڈک۔ اور گھڑے  کی مچھلی   علم   ِجغرافیہ   سے کسی قدر کم واقف ہوتے ہیں۔

پس  جو شخص  نفسانیت   سے کسی قدر رہا  ہوا ہے۔ وہ فوراً مان لے گا۔کہ امکان   کا میدان   ہو کے  ساتھ   ہم وسعت(گنجائش۔پھيلاؤ) ہے کہ اس  کےساتھ   ہی روح  کے واسطے   ترقی   ۔ اور عرفان(شناخت ۔پہچان)  کا  درآغاز  جہان سے  دا ہے۔  اور رہے گا کیونکہ  ذات ِ باری کا انکشاف (ظاہر ہونا) رُوحِ   انسانی    پر ایسا   نہیں۔  کہ ایک کتاب  نازل ہوئی اور بس۔

بھید  تو دین ِاسلام  میں بھی  پائے جاتے ہیں۔ جن کے سمجھنے  اور بیان کرنے   میں علماء  حکما ء  اسلام   عاجز(بے بس) ہیں۔ معلوم  نہیں کہ  ان  پر بے سمجھے کیوں  ایمان  رکھتے ۔  اور مسیحیت   کے بھیدوں  پر کیوں  اعتراض  کرتے ہیں۔

Leave a Comment