Transaction of religions in the world
By
Allama G.L.Thakur Das
علامہ جی ایل ٹھاکرداس
Published in Nur-i-Afshan Dec 10, 1891
نور افشاں مطبوعہ ۱۰دسمبر ۱۸۹۱ ء
دُنیا میں مذاہب کی آمدورفت کی کیا وجہ ہے؟
کیونکہ مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے نہیں بنے ہیں کہ ایک عالمگیر مذہب ہونے کے قابل ہو سکیں اور نہ ان کے بانیوں کی یہ غرض ہی تھی۔ ہر ایک مذہب جو انسان کی سیرت کا بانی نہیں ہے۔ وہ عالمگیر ہو ہی نہیں سکتا۔مذہب کا اصل منشاء(مقصد) نہ سمجھنے کے سبب سےلوگوں کو مذہب ایجاد کرنے کی کچھ عادت ہو گئی ہے۔ اور نتیجہ یہ ہوتا رہا ہے کہ ایک مذہب آتا اور جاتا رہا ہے۔ اور یوں وہ لوگوں کے دماغ کی ہوا خوری نہ کہ مذہب ٹھہرتے رہے ہیں۔
یہ بات سچ ہے کہ قریباً ہر ایک مذہب میں کسی قوت ۔ یا چیز کو (اس کا وجود ہو خواہ نہ ہو) اپنے سے زور آور سمجھ کر ایسا کچھ مانا گیا ہے۔ جس کی وقتاً فوقتاً تعظیم کی جائے ۔ جیسا قدیم یونانی اور رومی ہر ایک چیز کا ایک دیوتا مانتے تھے۔ اور ہندو مانتے ہیں۔ جیسے اندر اگنی ۔ وایو ۔ ماروت ۔ ویشنو۔ اور لچھمی۔ شیو اور پاربتی ۔ قدیم شامی قوموں میں ایل یا اللہ ۔ جس کو عرب میں محمد صاحب نے بنی اسرائیل کے خدا یہوواہ کی صفات منسوب کیں۔ اور الہہ کو اَل الہہ (اللہ) کر کے بیان کیا ۔ خیر اپنے سے اعلیٰ خواہ کسی چیز ۔ یاقوت ۔ یافرضی وجود کو کسی طرح مانا۔ کچھ نہ کچھ مانا ضرور ۔ مگر ان کو ماننے کے لئے جو جوبندوبست کئے گئے۔ ان کی بابت معلوم کرنا چاہئے کہ کیوں ایسے بندوبست تجویز کئے گئے۔ دیکھا جاتا ہے کہ ہر مذہب ہیں کچھ نہ کچھ دُنیاوی خصوصیت ہے۔ اب وہ خصوصیت کس قسم کی ہے اور مذہب بنانے میں اس کا کہاں تک اثر ہوا ہے۔
اوّل ۔دیکھا جاتا ہے۔ اور اگلی کتابوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آب وہوا کا بہت سی مذہبی باتوں پر اثر ہے۔ یعنی جیسی کسی ملک کی آب وہوا ہے اُس کے مطابق اس ملک میں مذہبی دستور جاری کئےگئے۔ چنانچہ گرم ملکوں میں پانی مذہب میں ایک جزو(حصہ) ہے۔ اشنان یا غسل اور وضو پر کئی ایک باتوں کا بو جھ ہے۔ یہ باتیں عبادت کا ضروری جزو ٹھہرائی گئی ہیں۔ اُن کے بغیر عبادت ناقص قرار دی جاتی ہے۔ ان سے عبادت کی عبادت اور ساتھ ہی تفر یح طبع (دل بہلانا)بھی ہو جاتی ہے۔ پھر گرم ملکو ں میں سایہ دار جگہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مکان ہوں خواہ درختوں کی جھنگیاں(جُھنڈ)۔ دھوپ سے بچنے کے واسطے يہ مصنوعی اور قدرتی ذریعے ہیں۔ اس لئے لوگ مکان بناتے۔ اور درخت لگاتے ہیں۔ اب دیکھا جا تا ہے۔ اور قدیم زمانوں سے یہ رواج ہے کہ دیوتوں یا وہ جس کو خدا کر کے مانا جاتا ہے، ا ُن کی خوشنودی بھی ایسی جگہوں میں قرار دی گئی ہے۔ دیوتوں کو درختوں کے نیچے بٹھایا جاتا ہے۔ اور پرانے اور بڑے درختوں کی تعظیم( عزت) کی جاتی ہے۔ اور جس طرح لوگ اپنے لئے مکان بناتے ان کے لئے بھی مندریں اور مسجدیں اور خانقاہیں(پير کا مقبرہ) بنانا نیکی تصور کیا جاتا ہے۔ اور نیکی بھی ایسی جس سے ہزاروں برائیاں دُور ہو جاتی ہیں۔ اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی تدبیروں (کوششوں)سے ایک طرف تو اپنا جسمانی آرام ہے اور دوسری طرف ثواب ِآخرت بھی اسی میں آگیا ۔ بنی اسرائیل میں بھی اس قسم کے دستور (رواج)ڈالے گئے تھے۔ مگر وہ نہ ہمیشہ کے لئے تھےاور نہ سب کے لئے۔ بلکہ اس ایک مخصوص(خاص، الگ) قوم کے لئے (استثنا ۱۱،۶:۷) اور نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ وہ آئے اور گئے۔ عیسوی مذہب کے پیروؤں(پيچھے چلنے والے) کو بھی دیکھا جاتا ہے ۔ کہ نہانے دھونے میں بڑے بڑھ کر ہیں اور عبادت کے لئے مکان بناتے اور ان میں کرسیاں یا بنچ دھرتے اور گرمیوں میں پنکھے لگاتے ہیں۔ مگر عیسائیوں میں بڑی خوبی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ وہ اپنے آرام اور خوشنمائی کے واسطے کرتے ہیں۔ اور اس لئے نہیں کہ وہ ان میں کچھ ثواب مانتے ہیں۔ اور یا عبادت کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔ پر ان کا اعتقاد (يقين)یہ ہے کہ ’’ خُدا روح ہے۔ اور اس کے پرستاروں پر فرض ہے کہ رُوح اور راستی (رُوح اور سچائی)سے خدا کی پرستش کریں‘‘۔ بدنی ریاضت(مشقت) کو وہ عبادت نہیں جانتے ۔ اور یہ اصول ایسا ہے کہ آب وہوا اور مکان کا اُس پر اثر نہ ہو۔ یہ اصول انسانیت کے متعلق اور ا نسا نيت کی سیرت ِروحانی کے متعلق ہے۔ ہر ملک اور ہر آب وہوا میں اپنا زور رکھتا ہے۔ ایسا ہی مذہب ایک عالمگیر(دُنيا ميں پھيلا ہوا) مذہب ہو سکتا ہے۔
دوم ۔ لوگوں کی عادات اور طبیعت مذہبوں کی ساخت کے لئے ایک اور زبردست ذریعہ رہا ہے۔ اگرچہ یہ سبب(وجہ) ظاہر نہیں کیا جاتا ہے۔ مگر فی الواقع یہ ایک موجب(وجہ) کئی مذاہب کی آمد کا معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں کی طبیعت ملکی اور قومی دستوروں کی ماں ہے۔ جس بات سے طبیعت خوش ہوتی اور آرام و آسائش اس میں معلوم ہوا۔ اُسی بات کا دستور پڑگیا۔ اور رفتہ رفتہ اس کی پیروی کے لوگ عادی ہو گئے۔ اور مابعد کی پشتوں نے اس کو اپنا اپنا قومی دستور مانا ۔ اس طرح مذہبوں میں بھی کئی باتیں لوگوں کے مذاق کی بنا ء پر جاری کی گئی ہیں۔ اور وہ بھی ایسی کہ قومی خصوصیت سے محدود ہیں۔ ایک کارواج دوسری قوم میں نہیں ہوتا اور بعض حالتوں میں دوسروں کا اس کو اختیار کرنا صرف اس وجہ سے ناگوار ا ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر قوم کا دستور ہے۔ مثلاً تیرتھ(مقدس مقام نہانے کی جگہ)، حج ، ستی(ہندوؤں ميں مُردہ شوہر کے ساتھ عو رت کے جل مرنے کی رسم)، نکاح ، مُردوں کی پرستش ، فاقہ یاروزہ یابرت ،پوجا ، نماز ۔ حج کی بابت ہم تواریخ سے معلوم کرتے ہیں کہ حج کرنا یعنی سنگِ اسود (جنت کا پتھر)کی تعظیم کے لئے فراہم ہونا اہل ِعرب کا ایک پرانا دستور تھا۔ اب اپنی قوم کے اس پرانے دستور کو بانی ِاسلام نے اپنے مذہب میں داخل کرلیا۔ اور لوگوں کی طبیعت کے میلان(رحجان) پر اپنے مائل ہونے کو خدا کی طر ف سے قرار دیا ۔ اور اس کو ثوابِ آخرت کا موجب(سبب) ٹھہرایا ۔ ہندوستان میں ہندو اپنے بزرگوں کے دستور کے موافق کا شی اور گیا اور ہرد وار کو ثواب کی جگہ مانتے ہیں۔ اور دکھن میں اَور جگہیں ہیں۔ جن کو لوگ ایسا ہی پاک سمجھتے ہیں۔ محمد صاحب نے دوسرے ملکوں کے تیرتھوں(مقدس مقامات) کی پروا نہ کی ( شايد خبر نہ تھی) اور یونانیوں نے کعبہ کی پروا نہ کی۔ اور اپنے ملک ميں ڈوڈونا کو الاہوں(دیوتاؤں) کی سکونت گاہ مانا تھا۔ پھر نکاح اور طلاق کا رواج بھی بہت آب وہوا پر منحصر ہوتا ہے۔ ہر ملک میں لوگ بقاء نسل (نسل بڑھانا)کی قوت و شوق رکھتے ہیں۔ مگر بعض ملکوں میں آب وہوا کی تاثیر سے لوگ اور ملکوں کی نسبت زیادہ شہوت پرست ہو جاتے ہیں۔ ان ملکوں میں محنت کشی کم ہوتی ہے۔ اور لوگ کاہل ہو جاتے ہیں اور شہوت پرستی کے سوا اور شغل (تفريح)انہیں نظر نہیں آتا ۔ یہ طبیعت اور عادت کئی ایک مذہبی دستوروں کی ساخت کے موجب ہیں۔ یعنی مذہب کو ایسے ڈھنگ(طریقہ) سے بنایا ہے کہ اس طبیعت کو ہر ج(نقصان) واقع نہ ہو۔ یجروید (ہندوؤں کے چاروں ويدوں ميں سے دوسرا ويد جس ميں قربانی کے رسم وآداب درج ہيں)کے زمانہ کے عربوں کی یہی طبیعت تھی۔ یجروید کی تعلیم خود ہی اس بات کی شاہد (گواہ)ہے۔ اسلام میں جو باتیں نکاح اور طلاق کی بابت فرمائی گئی تھیں۔ وہ عرب کی طبیعت اور عادت پر مبنی تھیں۔ مگر بانی ِاسلام نے ان کو خدا کی طرف سے بتلایا ۔ اگر اسلام پنجاب میں جاری ہوتا ۔ تو وہ ایسا اسلام نہ ہوتا جیسا عرب میں جاری ہوا۔ کیونکہ اس میں ملک عرب کی آب وہوا ۔ اور اہل عرب کی طبیعت اور عادتوں کی بہت بُو آتی ہے۔ جو پنچاب میں برپا ہونے سے نہ ہوتی ۔ پھرہندوؤں میں بچپن کے نکاح میں۔ اور بیوگان(بيوہ عورتيں) کے منع نکاح میں وہ دُنیاوی اور قومی فائدے تصور کئے گئے۔ جو اوروں کے نزدیک ظلم قرار دیئے جاتے ہیں۔ اور یہ دونوں باتیں مذہب میں بھی شامل کر لی گئی ہیں۔ حتی کہ ان کےبرخلاف کرنا دھرم شاستر کے برخلاف کرنا ہے۔ اگر مؔنو کا شاستر کسی اورقوم میں لکھا جاتا ۔ تو ایسی وہمی خود غرضی کی بندشیں راہ ِجنت قرار نہ دی جاتیں۔ یہ باتیں ہندوؤں ہی میں ختم ہیں۔ اور انہی سے خصوصیت رکھتی ہیں۔ ایسی باتیں عالمگیر نہیں ہو سکتیں اور اسی لئے ان کی آمد پر اب رفت(روانگی) کا زمانہ طاری ہے۔ پھر ستؔی ہونے کا رواج خواہ کسی غرض سے ہوا۔ مگر اس کی آمد ورفت ظاہر ہے۔
لڑائی۔ دُنیا میں اکثر ایسا اتفاق ہوتا رہا ہے کہ ایک قوم کی دوسری سے جنگ ہو۔ حکومت یا دوسروں کی دولت کا طمع (لالچ) اس بات کو دلوں میں بھڑکا نے والے سبب ہیں۔ یہ باتیں حاصل کرنے کے لئے ایک قوم دوسری پر ۔ کبھی کوئی عذر دھرکے(بہانہ کرکے) اور کبھی یونہی اور کبھی ترویج مذاہب (مذہب کی ترقی)کے بہانے سے لڑائی کرتی رہی ہے۔ حتّی کہ بعض قوموں میں جنگ کرنا ایک مذہبی اصول قائم کیا گیا ۔ اور موجب خوشنودی اپنے خدا یادیوتوں کا قرار دیا گیا۔ اور نیز موجب ثواب ِآخرت ٹھہرایا گیا۔ اور بزدلوں کی مذمت بیان کی کئی تھی۔ چنانچہ بانی ِاسلام نے اپنی اس طبیعت کی بنا ء پر جہاد ۔یعنی دینی لڑائی کا قانون قائم کیا اور ثواب ِآخرت اس پر منحصر(وابستہ) رکھا۔ ایسا ہی ویدوں کے بانیوں کا حال تھا۔ وہ بھی دشمنوں کو جو ان کے ہم مذہب نہ تھے۔ مارنا دھرم جانتے تھے۔ مگر یہ سب بندوبست آئے اور گئے اور قائم نہ رہ سکے۔ ایسی قومی یا شخصی طبیعت انسانیت کی سیرت کو ڈھالنے والا سانچا(لکڑی یا لوہے کا ڈھانچہ،قالب)نہ تھی۔ لیکن ایک اتفاقیہ جو ش تھا۔ جس کے مطابق ہمیشہ عمل نہیں ہو سکتا ۔
مذاہب کی ساخت کی جستجو کرتے ہوئے ۔ ہمیں انصافاً یہ کہنا پڑتا ہے کہ صرف دین ِعیسوی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس میں کوئی بات ایسی نہیں جو انسانیت کی کامل سیرت کو قائم کرنے والی نہ ہو۔ اس کے قوانین آب وہوا یا کسی قوم یا شخص کی طبیعت یا عادت پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ ایسے ہیں
کہ گو ملکِ یہودیہ میں فرمائے گئے۔ تاہم ہر ایک ملک اور ہر قوم کے لئے کافی اور مناسب ہیں۔ اوّل تو اس میں وہ باتیں جو اور مذاہب میں خوشنودی خدا (خدا کی رضا) اور ثواب آخرت قرار دی گئی ہیں۔ بُری اور فضول کر کے ترک کی گئی ہیں۔ اور پھر وہ باتیں فرمائی گئی ہیں۔ جو بہر حال انسانیت کے لئے فائدہ مند اور عبادت الہٰی کے مناسب ہیں۔ اس کی طرز روزہ اور نماز اور خیرات اور دیگر سب روحانی امرو نہی (منع کيے ہوئے کام)ایسے ہیں کہ آب وہوا اور قومی اور شخصی طبیعت کو اپنے مطابق بنادیں۔ نہ کہ آپ اُن کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ کسی ملک کی آب وہوا کا لحاظ نہیں کیا گیا ہے۔ اور نہ طبیعت گنہگار کی رعایت کی گئی ہے۔ بلکہ وہ ایسا مذہب ہے کہ کنعان اورعرب اور ہند اور چین ، روس ، روم، انگلستان اور یونان کے واسطے یکساں(برابر) ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ جُوں جُوں لوگ اس کو سمجھتے ہیں عیسائی ہوتے جاتے ہیں۔ اور اگر عیسائی نہیں ہوتے تو اپنے اپنے مذہبوں میں اس کے مطابق اصلاح (درستی) کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ اگر پوری پوری اصلاح کریں۔ تو ان کے قومی مذہب اُن اصلاحوں میں چھپ جائیں گے۔ اور اب تک جو کچھ دینِ عیسوی اپنے کاموں سے ثابت ہوا ہے۔ وہ یہی ثابت ہوا ہے کہ وہی ایک عالمگیر مذہب ہونے کے قابل ہے۔ جو انسانیت کو سرفراز کر سکتا ہے۔ اور ایک دفعہ پھر اس کو خُد ا اور خالق پاک سے ملا سکتا ہے۔ اور اس کی یہ حالت اس کے زائل(ختم) ہونے کی مانع(روکنا) ہے۔ اور مثل اور مذاہب کے اس کی بابت نہیں کہہ سکتے کہ ’’ایں ہم آمد ورفت ‘‘۔جو جوقیو د (پا بندياں)اور حدود (حدّيں)ملکی اور قومی روحانی شریعت پر بنی اسرائیل میں لگائے گئے تھے۔ ان سے روحانی شریعت کو آزاد کر کےکُل عالم کے لئے واجب (لازمی)ٹھہرایا گیا ہے۔ (دیکھو متی رسول کی انجیل باب پانچ ، چھ اور سات ) اور ویسی قیود اور حد ود ہر مذہب میں مسیح خداوند کی شریعت سے جھڑجاتی ہیں اور وہ مذہب مذہب نہیں رہتے ۔
سوم ۔ بُت پرستی۔ یہ ایک اور امر ہے۔ جو دُنیا میں بہتیرے مذاہب کی آمدورفت کا موجب رہی ہے۔ خدا کی سچی پہچان کا دل سے ضائع ہونا ہر قسم کی بُت پرستی کا موجب ہے۔ بُت پرستی دو قسم کی معلوم ہوتی ہے۔ ایک قسم وہ ہے جو کسی چیز کو خدا کی جابجا ٹھہرا کر تعظیم کے لائق بتلاتی ہے۔ ہمہ اوست ( سب کچھ خدا ہے خدا کے سوا کسی شے کی وجود نہيں)کی تعلیم اس قسم کی بُت پرستی کی ماں ہے۔ دوسری قسم وہ جو کسی چیز کو خدا نہیں ٹھہراتی ۔ تو بھی اس کی تعظیم کو جائزاور شرطِ ثواب ٹھہراتی ہے۔ اور اُس سے اُن باتوں کی اُمید کی جاتی ہے۔ جو وہ کسی حالت میں دینے کی قدرت نہیں رکھتیں۔ ہنددؤں کی بت پرستی بہت کچھ پہلی قسم کے متعلق اور رومن کیتھلکوں اور محمدیوں کی بُت پرستی دوسرے قسم کے متعلق ہے۔ چنا نچہ سورج اور بجلی اور آگ اور ہوا وغیرہ ویدک (ہندی علمِ طب)ہنددؤں میں ۔ اور اوتار ( خدا کا کسی شخص کی صورت ميں جنم لينا)وغیرہ پُرانوں (روحوں)والے ہنددؤں میں خدا کر کے مانے جاتے تھے اور مانے جاتے ہیں۔ قبرپرستی اور پیر پرستی اور کعبہ پرستی مسلمانوں میں اور پوپ پرستی اور رسولوں اور مریم اور مسیح کی مُورت کی پرستش رومن کیتھلکوں میں جاری ہوئی اور اب تک ہیں۔ مگر دینِ عیسوی ہر دو قسم بت پرستی کو رّد کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ بُت کچھ چیز نہیں۔ اور جن کو لوگ خدا کہہ کے مانتے ہیں۔ وہ حقیقت میں خدا نہیں اور خدا سب چیزوں کا خالق ہے نہ کہ وہ خود ہی یہ چیزیں ہے۔ خدا ہی سب کو زندگی اور سانس بخشتا ہے۔ وہ نجات دینے والا خدا ہے۔ وہی دُعائیں سُن سکتا ہے۔ کیونکہ وہی قادر مطلق ہے۔ وہی ہماری تعظیم کے لائق ہے۔ ماں باپ کو وہ عزت دینی چاہیے جو اُن کا حق ہے۔ اور بادشاہ کو بادشاہ کا حق ۔ یہی سبب ہے کہ سچے عیسائی نہ کسی مورت کو پوجتے نہ قبروں کو مانتے نہ پتھروں کی پرستش کرتے اور نہ نیچری (فطری)چیزوں کی تعظیم کرتے ہیں۔ البتہ جو استعمال اُن چیزوں کا ہو سکتا ہے۔ ان کو اس استعمال میں لاتے ہیں۔ اور خدا کو روح بے مثل(جس کی کوئی مثال نہ ہو) مانتے۔ اور روح و راستی سے اس کی پرستش کرتے ہیں۔ غیر قومیں اپنی بُت پرستی کی رو سے ۔ اور اُن امورات کے روسے جو اس کے متعلق ٹھہرائی گئی ہیں۔ ثواب آخرت یعنی گناہ کی بخشش اور نجات کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ایسے کاموں کو اعمالِ حسنہ (نيک کام)قرار دے کر جنت کی اُمید رکھتے ۔ مگر ظاہر ہے کہ سوائے چند ایک باتوں کے ہر ایک ملک کی بُت پرستی جس نے اس ملک کے مذاہب کو جاری کروایا۔ دوسرے ملک میں کار آمد نہیں ۔ نہ ہر ملک میں گنگا ہے نہ ہر ملک میں مکہ۔ بت پرستی بھی قومی اور ملکی خصوصیت رکھتی ہے۔ اور اس کا اسی سبب سے دُنیا میں آنا جانا لگا رہا ہے۔ بہتیرے ملکوں میں سے تو بالکل چلدی(چلی گئی) ہے۔ اصل میں ان چیزوں کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ روحانی انسانیت کو ان سے کچھ فائدہ نہیں۔ بلکہ عموماً جسمانی فائدہ بھی نہیں ہوتا ۔ ایسے مذہب دُنیا میں لانے سے کیا فائدہ ہے۔ ان کو جانے دو ۔ اور پاکیزگی اور راستبازی بتلانے والے مذہب کی پیروی جو نہ پانی لاگ(پا نی سے تعلق)، نہ چولھے کی راکھ ، نہ پتھر کی رگڑسے ، نہ بجلی کی چمک سے ، نہ صبح کی ہو اسے اور نہ کسی بشر زندہ و مُردہ سے ۔لیکن ابنِ خدا(خدا کی بيٹا) اور خدا کی روح سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ ہر ملک و ہر قوم میں یکساں ۔’’ اپنےاپنے مذہب ‘‘۔ والا مقولہ چھوڑ دو ۔ اور دینِ عیسوی پیروی کرو۔ جس کا بندوبست عالمگیر اور انسانیت کو کامل کرنے والا ہے۔