آج یہ نوشتہ تُمہارے سامنےپُورا ہوا

Eastern View of Jerusalem

Today This Scrpiture Is Fulfilled In Your Hearing

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Sep 14, 1894

نور افشاں مطبوعہ۱۴ستمبر ۱۸۹۴ ء

لوقا۲۱:۴

اُنیس سو برس کے قریب گزرتے ہیں  کہ فقرہ مندرجہ عنوان شہر ناصرت کے عبادت خانہ میں بروز سبت يسوع ناصری کی زبانِ مبارک سے یُہودی جماعت ِپر ستاران (پرستش کرنے والے)کے رُوبُرو نکلا تھا۔ جس کے حق میں راقم زبور (زبور لکھنے والا)نے لکھا کہ ’’ تو حُسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے۔ تیرے ہونٹوں میں لُطف بٹھایا گیا ہے۔ اِسی لئے خُدا  نے تجھ کو ابدتک مبارک کیا‘‘۔  یہ کیسا عجیب منظر تھا کہ وہ جو ہیکل کا خُداوند تھا ناصرت کے عبادت خانہ میں ایک مشتاق وہمہ تن گوش (پوری توجہ سے منتظر)یہودی جماعت کو یسعیاہ نبی کی کتاب کھول کر اس مقام کو ۔ جس میں سات سو برس پہلے وہ باتیں جو اس کے حق میں مندرج کی گئی تھیں۔ نکال کر بآواز بلند سُناتا کہ ’’ خُداوند کی رُوح مجھ پر ہے ۔ اُس نے اس لئے مجھے مَسح کیا۔ کہ غریبوں کو خوشخبری دُوں۔ مجھ کو بھیجا ۔ کہ ٹوٹے دلوں کودرست کروں۔ قیدیوں کو چھوٹنے  اور اندھوں کو دیکھنے کی خبر سناؤں ۔ اور جو بیٹریوں سے گھایل (زخمی)ہیں انہیں چھڑاؤں  اور خُداوند کے سال مقبول کی منادی کروں ‘‘۔ اور پھر کتاب کو بند کر کے اور خادم کو دے کر یہ کہہ کر بیٹھ جاتاہے۔ ’’ آج یہ نوشتہ جو تم نے سُنا پورا ہوا‘‘ اور تمام حاضرین ِعبادت خانہ بڑے تعجب و حیرانی کے ساتھ اس کو تک رہے ہیں اور بے اختیار اُن فضل کی باتوں پر گواہی دے کے آپس میں حیران ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ’’ یہ باتیں اس نے کہاں سے پائیں؟ اور یہ کیا حکمت ہے۔ جو اُسے ملی ہے ‘‘۔

اس نظارہ کا خیال کر کے ہم بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں  کہ عہد عتیق ميں  جو آنے والے مسیح موعود (وعدہ کيا ہوا)کا ایک مکمل حلیہ تھا اور جس میں اُس کے خط و خال اور صورت حال کا نہایت مفصل(تفصيل) بیان انبیائے واجب الاحترام (قابلِ عزت)نے قلمبند  کر دیا تھا۔ اگر وہ مطابق اصل نہ ہوتا یا وہ اُس کو مُحرف و منسوخ (تبديل و خارج)ٹھہرا کر متروک التلاوت(تلاوت  ترک کرنا)  اور غیر ضروری سمجھتا تو وُہ آج کے د ن تک ایک ایسا سر بمہر دفتر(بند کر کے مہر لگايا ہوا) رہتا  کہ نہ کوئی یہودی  اور نہ غیر یہودی جان سکتا ہے کہ وہ کیوں لکھا گیا اور اُس کا اصلی مقصد و مطلب کیا ہے۔ لیکن مسیح نے ان الہامی نوشتوں کو اپنے دست ِمبارک میں لے کر اور خود پڑھ کر ثابت کر دیا کہ یہ نوشتے فی الحقیقت وہی ہیں۔ جو اس پر گواہی  دیتے ہیں۔ کہ ’’ وہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔

اب ہم اس منظرِ عجیب کے خلاف ایک دُوسرے  منظر کے نقشہ پر غور کرتے اور دیکھتے ہیں کہ ایک عربی مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والا)۔ جس نے کتب عہد عتیق کے من جانب اللہ (خُدا کی طرف سے ہونا)ہونے پر گواہی دی اور انہیں ہدایت اور نوربخشنے والی کتابیں بتايااور مُصد قاً لما معھم اُن کی نسبت کہا ایک جگہ کھڑا ہوا ہے۔ اور اُس کے اصحاب و احباب اُس کے گرد حلقہ کئے ہوئے مُودّب اِستادہ (ادب سے کھڑے ہيں)ہیں۔ کہ اتنے میں ایک ذی رتبہ(بُلند رُتبہ) صحابی توریت کے اوراق ہاتھ میں لئے ہوئے وہاں پہنچتا ۔ اور باآواز بلند حاضرین کو پڑھ کر سُناتا۔ جس کو سُن سُن کر مدعیِ نبوت کا رنگ چہرہ متغیر(چہرہ کا رنگ بدلنا) ہوا جاتا اور وہ اُس کو حکم دیتا ۔ کہ اس کتاب کو نہ پڑھ ‘‘ ۔ لیکن وہ پڑھنے سے باز نہیں آتا ۔ اور یہ دیکھ کر دوسرا صحابی پڑھنے والے کو ملامت(بُرا بھلا کہنا) کر کے وہ اوراق اُس کے ہاتھ سے چھین لیتا ہے !  ناظرین کیا آپ ان دونوں منظروں میں آسمان و زمین کا فرق نہیں دیکھتے ؟ اور خود اپنے لئے عقل سليم (عقلمندی)کو کام میں لا کر درست نتیجہ  نہیں نکال سکتے ؟ کہ کیوں یہ ناضری باطمینان و خوشدلی کتب عہد عتیق کو خود ہاتھ میں لے کر پڑھتا ۔ اور سامعین(سُننے والے) کو سناتا ۔ اور حکم دیتا کہ ’’ نوشتوں میں ڈھونڈتے ہو ۔ کیونکہ تم گمان(خيال) کرتے ہو۔ کہ اُن میں تمہارے لئے ہمیشہ کی زندگی ہے اور یہ  وہی ہیں جو مجھ پر گواہی دیتے ہیں ‘‘ اور عربی کا رنگ چہرہ کتاب مُقدس کو سُن کر کیوں متغیر (تبديل ہونا)ہوتا ۔ اور وہ اُس کے پڑھنے کی کیوں ممانعت (منع کرنا)کرتا ہے ۔

Leave a Comment