انسان کی تین بڑی ضرورتیں


Three Major Needs of Man

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Feburary 1, 1895

نور افشاں مطبوعہ۱فروری ۱۸۹۵ ء

انسان کے پاس روح و جسم ہيں۔اُن ميں سے ہر ايک کی ضرورتيں عليحدہ عليحدہ ہيں۔

۱۔جسم کو غذا، پوشاک اور مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۲۔روح کو بھی بہت بڑی بڑی ضرورتيں ہوتی ہيں۔

 چند مدت بعد جسم فنا ہو جائے گا۔مگر روح تو خواہ لاانتہا خوشی ميں خواہ تکاليف ميں مبتلا رہے گی۔ايک بڑے معلم کا قول ہے’’کہ اُس شخص کو کيا حاصل جس نے تمام دنيا کی لذتوں کو حاصل کيا ۔مگر روح ِعزيز ہلاک کيا‘‘۔ہماری غرض روح کی اُن ضرورتوں کی تکميل سے ہے۔جو ہستی کی بلا اختتام حالت کے لئے ضروری ہيں۔جو ہماری منتظر ہے۔اور تھوڑے عرصہ ميں ہم سب جس ميں داخل ہوں گے۔

اوّل ۔انسان کو معافیٔ  گناہ کی ضرورت ہے۔ہم سب کو اپنے گناہوں کا مقر(اقرار کرنا)ہونا چاہيے۔چند برہمن روزانہ ايسا اقرار کرتے ہيں۔پاپو ہم۔پاپ کرمہم۔پاپتما۔پاپ سمبہواہ يعنی ميں گنہگار ہوں۔ميں نے گناہ کيا ميری جان گنہگار ہے۔ميں گناہ ميں پيدا ہوا۔ہاں يہ اقرار  ايسا ہی ہے۔کہ ہر شخص کرے۔مگر اب سوال يہ عائد ہوتا ہے۔کہ آيا گناہ معاف ہو سکتا ہے؟

 ہندو مذہب کے دو جواب ہيں جو ايک دوسرے کے بر عکس(اُلٹ) ہيں۔بہت خيال کرتے بلکہ يقين کرتے ہيں۔کہ گناہ دريائے گنگ (گنگا)يا کسی ديگر پاک پانی کے آشنان(نہانا) سے دُھل سکتا ہے۔اور کسی ديوتا کا نام لينے سے بھی گناہ دور ہو جاتا ہے۔چنانچہ ايک مشہور شخص اجميل کا ذکر ہے۔کہ اُس نے نزع (موت،جان کنی)کے وقت اپنے لڑکے نراين کو پانی لانے کے لئے بلايا چونکہ نراين خدا کا بھی نام ہے۔وہ بہشت ميں داخل ہوا۔

اب اس کے برعکس اس تعليم کو بھی ديکھو کہ کرم کی  تعليم کے مطابق معافی گناہ غير ممکن ہے۔شنکر آچار يہ کہتا ہے کہ برحطم (ہمہ اوست)  (سب کچھ خُدا ہے)کو کرم کے ساتھ  کچھ دست اندازی(مداخلت) نہيں ہے ۔

 بر ہمو مثل ديگر عقلا کے اقرار کرتے ہيں کہ گناہ آشنان وغيرہ سے دُور نہيں ہو سکتا ۔مگر وہ کرم کی تعليم ميں کچھ تعداد سزا کی مقرر کرتے ہيں جو نزع(موت،جان کنی ) کے وقت ہوتی ہے۔ يہ جاننا تو بہت ہی مشکل ہے ۔کہ کيا سزا ہو سکتی ہے اور کب مسيحی مذہب اس کے خلاف ظاہر کرتا ہے۔کہ بتقاضا عدل خُدا سے معافی کيونکر ہو سکتی ہے ۔خُدا تمام شريعت کا بخشنے والا ہے۔اگر گناہ کی معافی بغير کفارہ کے ہو تو انسان کو الہیٰ گورنمنٹ  کے خلاف بغاوت کا سخت اشتعال(غصّہ) ہوگا خُدا نے خود ايک شفيع(شفاعت کرنے والا)بخشا اُس نے انسان کو ايسا پيار کيا ۔کہ اپنے اکلوتے بيٹے يسوع کو دنيا  ميں بھيجا ۔کہ وہ انسانی جامہ اختيار کرے ۔دنيا ميں رہے اُن کے لئے مرے ۔اُس نے گناہ کی سزا کو برداشت کيا ۔کامل طور سے خُدا کی شريعت کو پورا کيا وہ جو اُس کو اپنا شفيع سمجھ کر اُس پر ايمان لاتے ہيں وہ اُن کے گناہوں کا جواب ديتا ہے ۔اور اپنی  راستبازی کی پوشاک  ميں اُن کو چُھپاتا ہے خُدا  فيضانِ رحمت(رحم کی بڑی بخشش) کے چشمہ سے کل معافی يسوع مسيح کے نام سے بخشتا ہے  ہميں اُس کی تلاش ميں مندر ہمندر جاتراواشنان (مقدس مقامات کی زيارت و غسل )کے لئے مارے مارے پھرنے کی ضرورت نہيں ۔خُدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ۔دستِ دُعا  سر بسجود ہو کر کہو ’’اے قادر مطلق خُدا ميں اقرار کرتا ہوں کہ ميں گنہگار ہوں ۔اس لائق نہيں کہ اپنے کو بچاؤں ۔

انسان کے پاس روح و جسم ہيں

 ميں خُداوند مسيح يسوع کے نام سے معافی کا خواستگار (اُميدوار،سوالی)ہوں ميں صرف اُسی کی پناہ ميں آتا ہوں ۔اُس کی خاطر سے ميرے گناہوں کو مٹادے ‘‘ايسی دُعا مقبول ہوگی

 دوئم۔انسان کو پاکيزگی کی بڑی ضرورت ہے  حالانکہ گناہ کی معافی ايک بہت بڑی بخشش ہے مگر يہی کافی نہيں ہے۔فرض کرو کہ کسی آدمی کو سزائے موت کا حکم ہے اور وہ مرض ِمہلک ميں بھی مبتلاہے ۔ اگر وہ سزائے موت سے بری کيا جائے ۔ تو معافی کے ساتھ ہی ضرور ہے۔کہ اُسکا علاج بھی ہو ۔ورنہ صرف معافی ہی معافی ہے تو اُس مرض سے اُس مرض کا جلد خاتمہ ہو جائے گا ۔

 نظر بحالات اُس کو ايک معالج کی ضرورت ہے۔ تاکہ اُس کی تندرستی واپس ہو۔ہم سب مثل کُوڑ اکے مکروہ و علاج گناہ کے مرض ميں مبتلا ہيں۔خُدا کے حضور ہم سب سڑے ناسوروں سے بھرے ہيں۔اس حالت سے ہم اُس کے  مقدس بہشت ميں ہرگز داخل نہيں ہو سکتے۔مذہب ہندو کونسا ذريعہ ہم کو پاکيزگی ميں ترقی کرنے کا بخشتا ہے؟افسوس کوئی بھی نہيں۔کيونکہ شاشتر کے مطابق اُس کے تين بڑے ديوتا

 ۱۔برہم ۲۔وشنو                                                           ۳۔ شيو  خود ہی گنہگار تھے۔تو اس صورت ميں کيو نکر وہ اپنے پرستار کو بچا سکتے ہيں؟کيا ممکن ہے۔کہ اندھا اندھے کو راستہ دکھلا دے؟ہرگز نہيں۔کيا خانہ مندر کوئی مدد دے سکتا ہے۔کيا اُس ميں کوئی پاکيزگی کی نصيحت ہے؟بعض ميں رنڈيوں کا ناچ ہوتا ہے۔جس کا اثر اظہر من الشمس(سورج کی طرح روشن ) ہے۔ہندو مذہب کے عقائد کے مطابق کل اچھے و بُرے کاموں کا ترک خوب ہے۔يہاں تک کہ يہ امر حدتيقن (بے حد اعتبار کرنا )کو پہنچ جائےاہم برہماسمی۔ميں برہم ہوں۔يعنی ہمہ اوست۔جو ايک حل طلب مسٔلہ ہے۔

 واحد و سچا خُدا علاوہ معافی کے ايک حکيم کا مرض ِعصيان(گناہ کا مرض) کے علاج کے لئے وعدہ فرماتا ہے۔اور وہ روح القدس ہے۔حکيم دوا ديتا ہے۔پس روح القدس ہی گناہ کی معافی و پاکيزگی کے لئے ترکيبيں بتلاتا ہے۔چند اُن ميں سے ذيل ميں درج ہيں۔

 ۱۔تلاوت کتابِ مقدس ۔يہ کتاب حقيقی شاسترہے۔ ہمارے رفتار کے لئے روشنی۔اور راہِ راست پر چلانے کے   رہنما کتابِ مقدس کو روز پڑھنا اور اسی پر عمل چاہئے۔

 ۲۔  دُعا۔جس طرح بچے ناہموار سڑک پر چلتے ہوئےگرتے ہيں۔ہم سب ہی معصيت(گناہ) ميں گرتے پڑتے ہيں۔مگر دعا کے ذريعہ آسمانی باپ کا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہيں۔ہر صبح گذشتہ شب کی رحمتوں کا شکريہ ادا کرنا چاہيئے۔دن بھر کے لئے مدد: ہر شام کو آرام کرنے سے قبل دن بھر کے گناہوں کا اقرار کر کے معافی ۔اور آزمائش کے وقت خدا کی طرف رجوع ہو کر دعا مانگنا چاہئے۔

 ۳۔عبادت۔خدا نے سات دن ميں ايک دن خاص عبادت کے لئے مقرر فرمايا ہے۔ہم کو گذشتہ ہفتہ کے افعال پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔کتاب مقدس  پڑھنا ۔ عبادت خانہ ميں عبادت کرنا چاہئے۔

 ۴۔گناہ سے احتياط۔’’خبردار رہواور دعا مانگو تاکہ آزمائش ميں نہ پڑو‘‘جہاں تک ممکن ہو وہ افعال جن سے آزمائش ميں پڑنے کا خطرہ ہو ترک کرنا چاہئے۔بے دينوں کی صحبت۔خراب کتابوں کی سير سے متروک(چھوڑنا) ہونا چاہئے۔صحبت نيک عمدہ کتابوں کی سير ايک ذريعہ ترقی کا ہو سکتی ہيں۔ايک مريض کو دوا کا حکم ديا جاتا ہے وہ عدول کرکے کبھی تندرستی کی اُميد نہيں رکھ سکتا۔اسی طرح اگر ہم روح القدس کی ہدايت پر عمل نہ کريں۔تو مرض عصياں(گناہ) سے شفا پانے کی اُميد بے فائدہ ہے۔

 سر گرمی سے دعا مانگو۔’’اے باپ آسمانی خداوند مسيح کی خاطر سے اپنا روح القدس نازل فرما۔تاکہ وہ صداقت کی رہنمائی کرے۔ميرے دل کو پاک کرے اور پاکيزگی ميں مثل تيرے بنائے‘‘۔

 سوئم۔آسمان يا بہشت کی ضرورت۔حضور قيصرہ ہند (ہندوستان کا بادشاہ )زائد از پچاس سال ہوا تخت حکومت پر رونق افروز ہيں۔مگر کچھ روز بعد تاج شاہانہ رکھا رہيگا۔اور اپنے بزرگوں کی  طرح گوشہ قبر ميں جانشين ہونگے۔پس کيا تھوڑی سی خوشی پر مطمين ہونا چاہئے؟نہيں ہرگز نہيں۔ ہم کو ابدی خوشی و مسرت کی ضرورت ہے۔ہندوؤں کا خيال ہے کہ اپنےفرضی نيک افعال وخيرات يا دان و چہنا سے بہشت خريدينگے۔اُن ميں سے ايک بہت بڑا خيال يہ بھی ہے۔کہ بوقتِ موت اگر گائے کی دُم برہمن کو پکڑا کر دان دی جاوے تو کشٹ (مشکل)دور ہو جائے گا۔عاقل بشران طريقوں کی بے بنيادی پر غور کر سکتا ہے۔مرنے والا ہندو دُنيا کو آيندہ کے خوف سے بڑے تردّدورنج ميں چھوڑتا ہے۔اُس کو اپنے سابق کے متعدد جنموں کا خيال جانکاہ  سخت پريشانی و اُلجھن ميں ڈالتا ہے۔اور وہ ڈرتا ہے۔کہ بعد موت کے پران (سانس،دم)کے مطابق اُس کو نوالہ جہنم ہونا پڑے گا۔

 مسيحی کبھی اپنے نيک افعال کے بھروسہ پر بہشت حاصل کرنے کی اُميد نہيں رکھتے۔اُن کا قول ہے کہ اُن کے نيک افعال بھی لوث عصيان (گناہ کی آلودگی )سے مملو(بھرا ہوا ) رہتے ہيں۔اور معافی کی ضرورت ہے۔اُن کو صرف خداوند يسوع مسيح کی بےداغ  راستبازی  کے ذريعہ سے بچنے کی اُميد ہے۔اُس کے وسيلہ سے اُن کے گناہ معاف ہو سکتے ہيں۔اور بہشت نصيب ہو سکتا ہے۔بوقتِ موت سچے مسيحی کو ہر گز کسی قسم کا خوف نہيں ہوتا۔يونہی کہ روح قالب سے پرواز کرتی ہے۔فوراً آسمان ميں خدا کے حضور ابدی خوشی کے لئےجاتی ہے۔خدا ہمارا آسمانی باپ ہے۔کيونکہ اُس نے ہميں پيدا کيا۔ہندوؤں کا جيسا خيال ہے۔ہمارا خيال ہرگز نہيں ہے۔کہ ہم ابدی ہيں۔بلکہ خدا نے ہم کو اپنے ميں بلايا ۔ہمارا ہر ايک نفس اُس کی مرضی پر موقوف ہے۔ہم  اس کی دُنيا  ميں رہتے ہيں۔تمام چيزيں جو ہمارے پاس ہيں ۔اُس کی بخشش ہيں۔جس طرح لڑکوں کو اپنے باپ کی فرمانبرداری و محبت لازم ہے۔اسی طرح ہم پر اُس کا حق ہے۔مگر افسوس کہ ہم ناشکرگزار اور باغی لڑکے ہيں۔اُس کے احکام کی تعميل وقدر نہيں کرتے۔اور اپنی گناہ آلود خواہش پر چلتے ہيں۔تاہم وہ اپنی پدرانہ شفقت ظاہر کرتا ہے۔اور اپنی طرف بُلاتا ہے۔کيونکہ عقلمند باپ اپنے لڑکوں کو کھيل ميں تضيع اوقات(وقت ضائع کرنا) نہيں کرنے دے گا۔اُس کی مرضی اُس کی فرمانبرداری سے ہے۔اور نيک چلنی سے ہے۔وہ اپنے لڑکوں کی غلطيوں کی اصلاح کرتا ہے۔پس خُدا بھی اپنے فرزندوں کے ساتھ ايسا ہی سلوک کرتا ہے۔مدّعا يہ ہے کہ ہم ابدی خوشی کی تياری کريں۔اور جو مذہب ان تينوں ضرورتوں کو رفع کرے اختيار کريں۔

Leave a Comment