Those who despise the word of God
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Sept 6,1895
نور افشاں مطبوعہ ۶ستمبر ۱۸۹۵ ء
سلیمان کا یہ قول نہ صرف ہر فرد بشر کے حال پر صادق (سچ)آتا ہے۔ بلکہ قوموں کا بڑھنا اور گھٹنا اس صداقت (سچائی)پر مبنی ہے۔ نہ صرف وہ انسان جو کلام ِالہٰی کی تحقیر کرتا ہے۔ اور اُس پر عمل نہیں کرتا برباد ہوتا ہے۔ بلکہ ہر ایک قوم اور ہر ایک بادشاہت کا عروج (بلندی) اور ذلت (رسوائی)اسی قدر وقوع (واقع)میں آتی ہے ۔ جس قدر وہ قوم یا بادشاہت خُدا کے کلام کی عزت یا حقارت(کم تر سمجھنا) کرتی ہے۔ جس ملک یا جس قوم میں بائبل کی تعلیم حقارت کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا اس ملک یا اس قوم کی تاریخ کے ہر صفحہ پر ظلم اور کشت و خون (خون ريزی)اور ہر ایک طرح کی بے اعتدالیاں (نا انصافياں)دل کی دُکھا نے والیاں پائی جاتی ہیں ۔
اس کے برعکس جس ملک یا جس قوم نے بائبل کی تعلیم کی قدر کی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی تو اس جگہ اقبال مندی(خوش نصيبی) اور آزاد گی کے نمایاں آثار پائے جاتے ہیں ۔ دُور کیوں جاتے ہو ۔ ہندوستان کی موجودہ حالت کو گذشتہ حالت سے ذرہ تو مقابلہ کر کے دیکھو ۔کس قدر آپ کو اُوپر کے قول کی صداقت ثابت ہوتی نظر آئے گی ۔ دیکھئے آزادگی کس طرح جگہ جگہ پھوٹتی اور کلیاں نکالتی ہے۔ جب کہ اور ملکوں میں یہ آزادی لوگ اپنا خون بہا بہا کر حاصل نہیں کر سکتے ۔ مظالم آرمینیا اس امر کی ایک عمدہ نظیر(مثال) ہے۔
اس میں تو ذرہ شک نہیں کہ لوگ یہ مان لیتے ہیں اور کہتے بھی ہیں ۔کہ انگریزی سلطنت سے ہم کو بہت ہی فائدے پہنچے ہیں۔ مگر اس امر کو قبول کرنے سے تامل (سوچنا)کرتے کہ اس کا باعث کیا ہے وہ کون سی طاقت ہے ۔کہ جس سے یہ خوبیاں نکلتی ہیں۔ جواب اس کا سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ بائبل ہی ہے جو ہم کو ایسے بیش بہا فائدے پہنچا رہی ہے ۔ اور یہ سخت ناشکر ی ہے کہ ہم اس کی حقارت کرتے ہیں ۔ دُنیا میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اِنسان اپنے مربی(سر پرست) کی پرواہ نہیں کرتا جب وہ اس نعمت کو حاصل کر لیتا ہے ۔جو اس کو اس کے مربی کے وسیلے ملی کینہ پنی(دشمنی رکھنا) اور ناشکر ی کے نشانا ت ہیں ۔ ایسا ہی وہ جو بائبل کی روشنی سے مستفید(فائدہ حاصل کرنا) ہو کر بائبل کو نہیں مانتے اور اس کی قدر نہیں کرتے اپنے دل کی ناشکر ی کو ظاہر کرتے ہیں۔