محبت اس میں نہیں

Eastern View of Jerusalem

This is love: not that we loved

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Jan 29,1891

نور افشاں مطبوعہ ۹جنوری ۱۸۹۱ ء

محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت رکھی۔ بلکہ اس میں ہے کہ اس نے ہم سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو بھیجا کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو (۱۔یوحنا ۱۰:۴)۔

اس میں شک نہیں کہ جب خدائے خالق ارض و سما نے سب کچھ پید ا اور مہیا کر کے آدم اول کو خلق کیا۔ تو وہ اپنے خالق و مالک کےسوا کسی کو دوست نہ رکھتا تھا۔ اور صرف اسی کے ساتھ محبت صادق (سچی محبت) رکھ کر ا س کی اطاعت و عبادت (بندگی) میں مسرور و مشغول تھا۔ لیکن افسوس وہ اس مبارک حالت میں قائم نہ رہا۔ اور امتحان میں پڑھ کر خدا سے دور و مجہور ہو گیا۔ اس کو اس کو خدا کی حضوری سے خوف آیا اور اس کے حضور سے بھاگ کر اپنے کو درختوں میں چھپایا ۔ محبت کے بدلے اس کے دل میں خدا نے نفرت و وحشت پیدا ہو گئی۔ اور اطاعت وحشت پیدا ہو گئی۔ اور اطاعت عبادت کی جگہ نافرمانی و بغاوت داخل ہوئی ۔ اس کی عقل یہاں تک زائل ہو گئی۔ کہ اس نے اپنے کو باغ کے درختوں میں اس ہمہ جا (جان سمیت) حاضر و ناظر۔ دانائے نہاں و آشکارا سے چھپانا چاہا۔ جس کا عرفان داؤد کے لیےنہایت عجوبہ تھا۔ اور جس کی نسبت اس نےیوں لکھا ہےکہ

’’ میں تیری روح سے بچکر کہاں جائوں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں ؟ اگر آسمان پر چڑھ جائوں تو تو وہاں ہے۔ اگرمیں پاتال میں بستر بچھائوں تو دیکھ تووہاں بھی ہے۔ اگر میں صبح کے پر لگا کر سمندر کی انتہا میں جابسوں تو وہاں بھی تیرا ہاتھ میری راہنمائی کرے گا اور تیرا دہنا ہاتھ مجھے سنبھالے گا۔اگر میں کہوں کہ یقینا تاریکی مجھے چھپا لے گی اور میری چاروں طرف کا اجالا رات بن جائے گا  ۔تو اندھیرا بھی تجھ سے چھپا نہیں سکتا بلکہ رات بھی دن کی مانند روشن ہے۔ اندھیرا اور اجالا دونوں یکساں ہیں(زبور ۷:۱۳۹۔۱۲)۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ آدم جب گناہ کا مرتکب ہو چکا اس نے خدا کی حضوری میں آپ کوکھڑا رکھنے کے نا قابل سمجھا اور نہ چاہا کہ اپنا شرمسار چہرہ اس کو دکھائے  اور وحشیانہ طور سے جسم پر پتے لپیٹے ہوئے اپنی بد ہیئتی (بری حالت) اس پر ظاہر کرے۔ اگریہواہ اپنی لا انتہا قدوسی و عدالت کے تقاضا کے موافق اس بد بختی کی حالت میں آدم کو چھوڑ دیتا اور چاہتا ہے کہ وہ آپ اپنی برگشتگی کا چارہ کرے اوراپنے ہی کسی عمل و کوشش سے اپنی گمشدہ سعادت و شرافت کو پھر حاصل کرے  تو آج کے دن تک ان کو ( اگر وہ زندہ رہتا) سخت مایوسی و ناکامی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوتا اور اس کےساتھ اس کی نسل بھی ہمیشہ کےلیے الہٰی قربت و حضوری سے دور و مجہور اور معتوب و مقہور رہتی ۔ ایسی خراب انسانی حالت کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟

کہ اس نے ہم سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو بھیجا کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو

الہٰی رضامند ی اور حصول نجات میں انسان کی بے مقدوری ولاچاری کی نسبت تجربہ کار مشہور روزگار مصنف زبور نے بہت درست لکھا ہے کہ ’’اُن میں سے کسی کا مقدور نہیں کہ اپنے بھائی کو چھڑا دے یا اُس کا کفارہ خدا کی دیوے کہ اُن کی جان کا فدیہ بھاری ہے(یہہ کام ابد تک موقوف رکھنا ہوگا) کہ وہ سد اجیتا رہے اور ہرگز موت کو نہ دیکھے ‘‘(زبور۷:۴۹۔ ۹)۔

پس اس پریشان حالی میں جب کہ انسانیت چلاتی تھی کہ ’’تو خدا نے جو محبت ہے‘‘۔جس کا غصہ ایک دم کا ہے اور جس کے کرم میں زندگانی ہے‘‘اور ’’جو غصہ ایک دم کا ہے اور جس کے کرم میں زندگانی ہے‘‘اور ’’جو غصہ کرنے میں دھیما اور شفقت میں بڑھ کر ہے۔ جس کا جھنجھلانادائمی نہیں او ر جو اپنے غصہ کو ابد تک نہیں رکھ چھوڑتا‘‘اُس کی حالت زار و خوار پر رحم کیا۔ اور آپ ہی اُس کے بچانے کی تدبیر نکالی اور گم شدہ و دل شکستہ آدم کی ایک ایسے بچانے والے اور درمیانی کی خوشخبری سے جو عورت کی نسل سے ظاہر ہو کر۔ اپنی ایڑی کو کٹوا کا اُس کے دشمن کے سر کو کچلے۔ حیات تازہ اور مسرت بے اندازہ بخش کر از سر نو جادہ تسلیم و رضا میں قدم رکھنے کے لئے قابل کر دیا۔ بقول شخصے’’جو دروازہ اندر سے بند کیا گیا وہ اندر ہی سے کھل سکتا ہے‘‘ صرف اس نہایت مختصر خوشخبری پر ایمان لانے اور وعدہ الہٰی کی یقینی جاننے کے لئے آدم کے کان میں گویا الہٰی آواز یہہ کہتی ہو ئی سنائی دی کہ ’’میں نے تیری خطاؤں کو بادل کی مانند اور تیرے گناہوں کو گھٹا کی مانند مٹا ڈالا۔ میری طرف پھر آ کہ میں نے تیرا فدیہ دیا ہے‘‘۔

بعض لوگ اس مشکل کو پیش کرکے یہہ سوال کیا کرتے ہیں کہ آدم کے وقت سے مسیح کے ظاہر ہونے تک جو لوگ گنہگارتھے اُن کی نجات کس ذریعہ سے ہوئی ہوگی کیونکہ مسیح نے اُس عرصہ میں مجسم ہو کر گنہگاروں کے لئے اپنے کو کفارہ میں نہیں گزرانا تھا؟ ایسے سوال کا صاف اور صحیح جواب یہی ہے کہ اُسی ایک کامل خوشخبری پر جو آدم کو دی گئی۔ ایمان لانے سے جملہ متقدمین و متاخرین کی نجات ہو سکتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ایمان رکھتے تھ۔ کہ موعودہ نجات دہندہ آئے گا۔ اور یہ ایمان رکھتے ۔ کہ وہ موعودہ نجات دہندہ آگیا۔ اور یہ فرق بھی صرف انسانی خیال سے ہے ورنہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک ماضی و مستقبل یکساں ہے۔ پس ’’ جب وقت پورا ہوا خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا۔ جو عورت سے پیدا ہوکر شریعت کے تابع ہوا۔ تاکہ وہ ان کو جو شریعت کے تابع میں مول لے۔ اورہم لے پالک(گود لیا ہوا) ہونے کا درجہ  پائے”۔ در حال یہ کہ وہ فرشتوں کا نہیں بلکہ ابراہام کی نسل کا ساتھ دینے والا تھا۔’’ اس سبب سے ضرور تھا کہ وہ ہرایک بات میں اپنے بھائیوں کی مانند بنے  تاکہ وہ ان باتوں میں جو خدا نے علاقہ رکھتیں لوگوں کے گناہوں کا کفارہ کرنے کےلیے ایک رحیم اور دیانت دار سردار کاہن ٹھہرے‘‘ (عبرانیوں۱۷:۲)۔

یہ بے نظیر (بے مثال) تعلیم بخیر مسیحیت کے دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ اور نہ کسی پیشوائے (سکھانے والا، استاد) مذہب نے سکھائی کہ ’’محبت اس میں نہیں ۔ کہ ہم نے خدا سے محبت رکھی بلکہ اس میں ہے کہ اس نے ہم سے محبت رکھی۔ اوراپنے بیٹے کا بھیجا کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو‘‘۔ کیا یہ عجیب و خود نثار(خود کو قربان کرنے والی ) محبت نہیں۔ کہ وہ جو مخدوم و مسجود ملائک ۔ اور معبود خلائق تھا وہ شکل انسانی میں انسان کے بچانے کےلیے آئے۔ اور خادم کی صورت پکڑکے ان کے لیے اپنی جان تک دینے سے دریغ نہ کرے؟ کون اس بے مثل محبت کی وسعت و عظمت کا بیان کر سکتاہے؟

بعض لوگ اعتراضاً یہ سوال کیا کرے ہیں کہ کیا خدائے قادر انسان کو اور کسی تدبیر سے نجات نہیں دے سکتا تھا کہ ضرورت لاحق ہوئے۔ کہ اپنے بیٹے کو دنیا میں دکھ اٹھانے کےلیے ۔ اوراپنے کو کفارہ میں گذراننے کےلیے بھیجے ہم اس کا معقول و منقول یہی جواب دے سکتے ہیں کہ اگر اس سے بہتر اور کوئی بہتر اورکوئی تدبیر ہوتی۔ تو وہ ضرور اس کو اختیار کرتا۔

چونکہ بگڑی اور گری ہوئی واجب العزیز انسانیت کے سدہارنے ۔ اٹھانے اور خدا کے حضور میں اسکو مغفور و منظور ٹھہرانے کے لیے ایک کامل انسانی نمونے اور فدیہ کی ضرورت تھی۔ لہذا کلمتہ اللہ کا بشکل انسان مجسم ہو کر دنیا میں آنا رحمت و فضل الہی کا ایک کامل دلیل ہے۔ جس نے سب کچھ درست کردیا۔ اور انسان کو از سر نو (نئے سرے سے) خدا کی صورت پر بن جانے وا اقتدار(اختیار) بخشا۔ اور اب بقول مسیحی شاعر:

؎ انسانیت کو فخر ہے ذات  مسیح سے

                                                عزت تھی خاک کی مگر اس کی ذرا نہ تھی

Leave a Comment