ابن آدم جان بچانے آیا

Eastern View of Jerusalem

The Son of Man came to save life

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Sep 21, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۲۱جنوری ۱۸۹۴ ء

کیونکہ ابن آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا(لوقا ۵۸:۹)۔

یہ ایک مشہور عالم مقولہ ہے ۔ کہ ’’ کہنے  اور کرنے میں بڑا فرق ہے ‘‘ اور یہ کسی حد تک سچ بھی ہے کہ حوصلہ مند اشخاص جیسا کہتے ہیں۔ ویسا کر نہیں سکتے  اور یوں اُن کے اقوال وافعال میں ایک فرق عظیم واقع ہو جاتا ہے۔ مگر ہم اس عجیب شخص یسوع ناصری کے تمام اقوال و افعال میں ایک ایسی لاثانی موافقت و مطابقت پاتے ہیں کہ جو تاریخ دنیا میں کسی انسان کی زندگی میں ہرگز نہیں پائی جاتی ۔ اس میں شک نہیں کہ بعض آدمی ایسے بھی ہوتے  کہ جیسا وہ کہتے  ویسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اپنی انسانی کمزوری کے باعث  کر نہیں سکتے  اور اپنے قول و فعل کی مطابقت ظاہر و ثابت کرنے میں قاصر(مجبور)  رہتے ہیں۔ مگر یسوع ناصری نے جیسا کہا  ہمیشہ ویسا ہی کیا  کیونکہ وہ اپنے قول وفعل کو مطابق رکھنے پر قادر تھا اور یہی باعث ہے۔ کہ اُس کے کلام و کام میں کبھی سر موفرق نہ آیا ۔ جیسا اُس نے کہا تھا  کہ ابن آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا‘‘۔ ویسا ہی اُس نے اپنی زندگی کے دوران میں کر کے دکھا یا ۔ انسا ن کی زندگی میں اکثر ایسے موقعے پیش آجاتے ہیں کہ جن میں اُس کی حرارتِ طبعی جوش میں آجاتی  اور وہ اپنے کلام و کام میں تخالف (با ہم مخالف ہونا) ظاہر کرنے پر معذور و مجبور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یسوع ناصری سخت ترین آزمائش کے موقعوں کے پیش آنے پر بھی اپنے اقوال پر ثابت و قائم رہا اور کبھی اُن کے مخالف کار بند نہ ہوا ۔ مندرجہ عنوان کلام اُس نے اپنے شاگردوں یعقوب اور یوحنا سے ایک ایسے موقع پر فرمایا جب کہ اُس نے انہیں یروشلیم کو جاتے ہوئے اثنائے راہ میں شب  باش(رات گزارنا) ہونے کے لئے سامریوں کی ایک بستی میں اپنے آگے بھیجا تھا۔ مگر اُن نامسافر پر و ر سامریوں نے انہیں اپنی بستی میں آنے اور ٹھہرنے کی مطلق(بالکل) اجازت نہ دی ۔ پس انہوں نے سامریوں کی ایسی بےرحمانہ وو حشیانہ حرکت پر غضب آلود ہ ہو کر خداوند کے پاس واپس  آکر کہا ‘‘۔ کیا تو چاہتا ہے کہ جیسا الیاس  نے کیا ۔ ہم حکم کریں کہ آگ آسمان سے نازل ہو  اور اُنہیں جلا دے۔ اس کے جواب میں خداوند نے انہیں دھمکایا  اور کہا ’’ تم نہیں جانتے  کہ تم کیسی روح کے ہو  کیونکہ ابن آدم لوگوں کی جان برباد کرنے نہیں بلکہ بچانے آیا ہے‘‘۔  کیا کوئی شخص جس میں مخالفوں کی بدسلوکی کے انتقام لینے کی قدرت و طاقت موجود ہو۔ ایسے موقع پر در گزر (برداشت، معاف) کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ لیکن خداوند یسوع مسیح نے اپنے قول کے مطابق کہ وہ لوگوں کی جان مارنے والا نہیں بلکہ جان بچانے والا تھا اپنے عمل سے ثابت کیا۔

جیسا اُس نے فرمایا تھا  کہ ’’ اپنے دشمنوں کو پیار کرو  اور اور جو تم پر لعنت کریں۔ اُن کے لئے برکت چاہو ۔ جو تم سے کینہ(دشمنی) رکھیں۔ اُن کا بھلا کرو اور جو تمہیں دُکھ دیں اور ستائیں ۔ اُن کے لئے  دُ عا مانگو ‘‘۔ ویسا اُس نے عملاً  خود کر کے دکھلایا۔ جب کہ اُنھوں نے اپنے تشنہ خون(خُون کے پياسے) دشمنوں کے لئے۔ جو اُس کی مصلوبیت کے وقت سر ہلا ہلا کر اُسے ملامت(بھلا بُرا کہنا) کرتے  اور کہتے تھے۔ واہ!  تو جو ہیکل کا ڈھانے والا۔ اور تین دن میں بنانےوالا ہے۔  اپنےآ پ کو بچا ۔ اگر تو خدا کا بیٹا ہے۔ صلیب پر سے اُترا ٓ۔ دُعا مانگی کہ اے باپ انہیں معاف کر کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ کیا کرتے ہیں‘‘۔

Leave a Comment