THE RECORD OF OUR ACTION
By
Inayat Allah Nasir
عنائت اللہ ناصر
Published in Nur-i-Afshan July 20, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۰جولائی ۱۸۹۴ ء
(۱)۔ نیچر(فطرت) میں یہ ایک مسلم قائدہ ہے کہ سب اشیا ءایک دوسری سے کچھ نہ کچھ اثر رکھتی ہیں۔ چنانچہ اجرام فلکی جن میں کشش ثقل(وہ کشش جس سے اجسام زمین کے مرکز کی طرف مائل ہوتے ہیں) ویسے ہی نمایاں ہے۔ جیسے ہماری زمین کے ہر ایک ذرہ میں ہے۔ایک دوسرے کی حرکتوں پر بڑا بھاری اثر رکھتے ہیں۔ جس کو مشکل سے حساب کے شمار میں لا سکتے ہیں۔ اغلب(ممکن ) ہے کہ اسی قانون قدرت کا دخل انسانی صحت پر کچھ نہ کچھ ہے۔ خواہ وہ سیاروں اَور ثوابت(ثابت کی جمع،وہ ستارے جو گردش نہیں کرتے) کی کشش سے ہو، یا نہیں کے کم و بیش ارتقاع پر موقوف ہو۔ اسی طرح ہمارا ہر روز کا مشاہدہ ہے کہ ہر شے اپنی حرارت کو کیونکر اپنی چاروں طرف منتشر(بکھیرنا) کرتی ہے۔ اس طور پر گویا کل اشیا میں حرارت کا تبادلہ برابر جاری رہتا ہے۔ اَور بالآخر سب ایک ہی درجہ پر ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بجنسہ(اسی حالت میں) یہی حال اخلاقی عالم میں ہے۔ ہر فرد بشر ایک دوسرے پر کچھ نہ کچھ تاثیر کرتا ہے۔ جب ہم کسی سے ملاقات یا کسی قسم کا رابطہ پیدا کرتے ہیں۔ تو یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں ۔ بلکہ دُنیا کی امتحان گاہ میں اس میں بھی کوئی راز ہے۔ اَور خواہ فوراً ہم اس کو نہ سمجھ سکیں ۔ لیکن ہم ضرور اپنی زندگی کی تاثیر وہاں چھوڑتے ہیں۔ گویا ہم ایک دوسرے کے کسی نہ کسی پہلو کے معمار ہیں۔ یہ قدرتی قائدہ کی پابندی ہے۔ اَور ہم اس میں بے بس ہیں ۔اس کا اثر نہ فقط ہماری حیِن حیات(زندگی) میں بلکہ اُس وقت تک رہے گا جب ہماری ہڈیاں خاک میں خاک ہو جائیں گی۔ جیسا کہ پتھر کو پانی میں پھینکنے سے سطع آب پر حلقہ وار حرکتوں کے دائرے قائم ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ سنگ قعر (گہرائی کا پتھر)دریا میں بے حرکت پڑا ہے۔ ویسا ہی ہمارا اثر ( خواہ وہ نیک ہو یا بد ہو) بعد ازمرگ (مرنے کے بعد) کسی خاص حلقہ میں قائم رہتا ہے۔ یہی بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس حلقہ میں خالق نے ہم کو رکھا ہے۔ ہم اُس میں بے تاثیر نہیں ہو سکتے۔ یا تو ہم اپنے خداوند کی سلطنت کو پھیلاتے ہیں یا شیطان کی مدد گار ہیں۔
(۲)۔انگلستان کے مشہور شاعر ینگ نے اپنے ماقّل دُول طرز پر یوں درافشانی (چوکھٹ کو کھولنا)کی ہےکہ۔
’’ اپنے خیالات کی حفاظت کر ہمارے خیال آسمان پر سنائی دیتے ہیں‘‘۔
یہ ایک عجیب اَور مہیب خیال ہے۔ کہ کون یہ سن کرنہ کانپ اُٹھے گا۔ کہ میرے ناپاک خیالات کو خدا ۔ اَور اُس کے مقدس فرشتگان نے سنا ہے۔ کیا ہم دلیری سے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھا سکتے ہیں۔ کہ ہمارے دل میں کوئی نجس خیال نہیں آیا۔ یہ ظاہر ہے کہ بمقابلہ افعال کے خیالات کی روکنا ازحد دشوار ہے۔ اس لیے ضرور ہے کہ دل کی بڑی سے بڑی خبر داری کی جائے۔ ’’کیونکہ زندگی کے انجام اسی میں ہے‘‘۔ اَور ہم اپنے خیلات کو واپس نہیں لے سکتے۔ حقیقت میں اگر خدا کا فضل اس کوشش مین انسان کے شاملِ حال نہ ہوتا تو برے خیالات سے بچنا نا ممکن تھا۔
(۳)۔ جس وقت ہم گفتگو کرتے ہیں۔ ہم ہوا کو جنبش دیتے ہیں۔ اَور اس کا ایک اثر جو فوراً ظاہر ہوتا ہے۔ اَور ہماری موجودہ زندگی میں کارآمد ہے۔ سو یہ ہے کہ ہم اپنے خیالات کا اظہار اپنے ہم جنسوں پر کر سکتے ہیں۔ لیکن کون جانتا ہے کہ وہ ہوا کی موج ۔ جس کو ہمارے الفاظ نے پیدا کیا کہاں جاتی ہے۔ اَور اگر ہوا پر اس حرکت کی اس وجہ کی تاثیر ہو۔ توایتھر کیسے لطیف مادہ جس سے تمام کائنات معمور ہے۔ اَور جس میں افلاک کے نظامِ شمسی موتیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ کس قدر صدمہ اس حرکت کا پہنچا ہوگا ۔ اَور نا دیدنی موج اس نیلگوں عرصہ کے کس کنارے پر جا کر ٹکرائی ہو گی۔ انسان اس حرکت کو شروع تو کر سکتا ہے۔ لیکن اُس کا ہاتھ اُسےآگے بڑھنے سے روک نہیں سکتا۔ ہمارے الفاظ جب ظاہراً ہوا میں گم ہو جاتے ہیں۔ تو قوانین قدرت کے مطابق کہیں نہ کہیں زائل ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ اگر حقیقت میں ہماری گفتگو کی حرکتیں ابد تک یادگار رہیں گی ۔ تو ہمیں کس قدر خبردار رہنا چاہیے۔ کیونکہ ہم ہر ایک بات کے لیے خدا کے آگے جواب دہ ہوں گے۔
(۴)۔ ڈاکٹر ڈریپر صاحب فرماتے ہیں۔ کہ
’’ جو سایہ کسی دیوار پر پڑتا ہے۔ وہ ایسا ادائمی نشان وہاں چھوڑ جاتا ہے۔ جسکو خاص ترکیب سے روشن کرنا ممکن ہے۔ چنانچہ عکسی تصاویر اس کی ایک نظر میں نہ ہمارے دوستوں کی شباہت یا کسی ذاتی نظارہ کا نقشہ جو کسی لطیف سطح پر نظر سے غالب ہو کیمیائی ترکیب سے نمودار ہوسکتا ہے۔ ایک ہوائی صورت شیشہ چاندی کے ٹکرے پر گویا چھپی مٹی ہے۔ جسکو ہم اپنے طلسم (جادو) سے مرئی (وہ جیسے دیکھا جاسکے)عالم میں لا سکتے ہیں۔ ہمارے سب سے خفیہ کمروں کی دیواریں پر جہاں غیر کا سایہ تک نہیں پھٹک سکتا۔ ہمارے تمام پوشیدہ افعال کے نقشے موجود ہیں‘‘۔
کیا یہ بات بہتوں کے لیے حیرت کا باعث نہ ہوگی کہ افعال ہم سے سرزد ہوتے ہیں۔ وہ بالکل محفوظ رہتے ہیں۔ تاوقت یہ کہ اُن کے ظہورکا موقع نہ آئے۔ اس لیے کیسا ضرور ہے۔ ہم نہ فقط ظاہری افعال ک خیال رکھیں۔ بلکہ اپنے پوشیدہ اَور اُلجھانے والے گناہوں سے بھی باز آئیں۔
(۵)۔ ہم اس چند روزہ زندگی میں گواہوں کے ابر سے محصور (گھیرے میں)ہیں جو ہماری روز مرہ کی دوڑ کو بغور دیکھتے رہتے ہیں۔ اس میں ہمارے ہم جنس انسان بھی شامل ہیں۔ لیکن اس وقت ہم ان نا دیدنی گواہوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ جن کے غیر مرئی(وہ جو دیکھائی نہ دے) ہونے کے باعث ہم اُن کی ہستی کا انکار نہیں کر سکتے۔
اوّل۔ اغلب ہی کہ ہر ایک انسان کے ساتھ اُسکا ایک مقرب فرشتہ موجود رہتا ہے۔ جو خدا کے حضور اُس شخص کی حالت کا آئینہ ہے۔ اَور اُس کے حق میں خدا کی مرضی پورا کرنے پر ہر وقت کمر بستہ(تیار) ہے۔ یہ فرشتہ ہمارے افعال و اقوال کو کیسے غور اَور دلچسپی کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ اَور ہمارے قبیح (خراب)حالات پر کس قدر رنج و غم نہ کرتا ہوگا؟
دوئم۔ جو مقدس اپنے قالبِ خاکی (جسم)سے سبکدوش(فارغ،بری الذمہ) ہو چکے ہیں۔ ہماری دوڑ کے ہر قدم کو بغور دیکھ رہے ہوں گے۔ اَور جب ہم راستے کے کنارے پھول توڑنے کے لیے کھڑے ہوکر اپنی منزل مقصود سے غافل جاتے ہیں۔ تو وہ ہم کو کیسا کم عقل اَور کوتاہ بین(تنگ نظر) سمجھتے ہیں۔
(سوئم) ۔ روشنی کی رفتار ایک ثانیہ میں قریب ایک لاکھ پچاس ہزار میل ہے جس کے یہ معنی ہیں۔ کہ روشن شے کس قدر جنبش میں ہے۔ کہ اُس کی حرکت کی موج نیچر کے لطیف مادہ ایتھر (ایک مادہ جو ماہرینِ طبیعات کے نزدیک خلامیں بھرا ہوا ہے)میں بحساب ایک لاکھ پچاسی ہزار میل طے کرتی ہے۔ اس حساب سور ج کی روشنی زمین تک قریب آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے۔ اَور ہیت دانوں نے حساب کیا ہے۔ کے سب سے نزدیک سیارہ کی روشنی زمین تک قریب ساڑھے تین سال میں پہنچتی ہے۔ بعض ستارے اس قدر فاصلہ پر ہیں۔ کہ جن کی روشنی کی کرن ہزار سال تک ہماری زمین تک نہیں پہنچتی۔ چنانچہ بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعے کئی ایک نئے ستارے نظر آتے معلوم ہوتے ہیں۔ جو پیشتر دکھائی نہ دیتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں۔ اگر ہم کسی ستارے میں جا سکیں۔ اور وہاں ایک بڑی تیز دوربین لگا کر دیکھیں۔ تو اس زمین کی دھندلی روشنی میں شائد وہ زمانہ نظر آئے گا ۔ جب آدم اَور حوا باغِ عدن میں تھے۔ شائد کسی دوسرے ستارے سے نوح کا طوفان دیکھ سکیں گے۔ علی ہذالقیاس دنیا کی تاریخ اَور انسانی حالات میں کوئی دقیقہ(راز) شائد ایسا باقی نہ ہوگا۔ جو روشنی کی ذریعے ااس بے انتہا خلا میں کہیں نہ کہیں منقش(نقش کیاگیا) نہ ہو۔
غرض مندرجہ بالا خیالات نہ فقط غافل کو جگانے۔ اَور عاقل کو آسمان کی طرف قدم بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ بلکہ ہم گویا نیچر کے باریک پردہ میں سے اُس روز عظیم کی جھلک دیکھتے ہیں۔ کہ جب عدالت ہوگی اَور کتابیں کھولی جائیں گی۔ ہمارے ان ناقص حالات سے جن کو ہم نہائت مختصر طور پر ادا کیا ہے۔ یہ واضح ہو سکتا ہے۔ کہ ہمارا نامہ اعمال ہمارے سامنے ایسی دنیا میں کسی قدر روشن ہے۔ اَور اُس کے لکھنے والے ہم خود ہی ہیں۔ روز حشر میں ہمارا کانشنس(انسانی ضمیر) ہی ہمیں ملزم یا مقدس ٹھہرانے کے لیے کافی ہے۔ لیکن خدا دُنیا پر راستی ظاہر کرنے کے لیے اَور گواہوں کو بھی طلب کرے گا۔
چنانچہ(۱)۔ وہ لوگ جو موجود ہوں گے جن کے کریکٹر(کردار) پر ہمارے افعال کی بودامن گیر ہوگی۔
( ۲)۔ بیشمار آسمانی مخلوقات شہادت کے لیے اُس جگہ حاضر ہوں گے۔ جن کے کانوں میں ہمارے خیالات کی آواز گونجتی رہی۔
( ۳)۔ جس طرح فوٹو گراف میں گفتگو کو بند کرکے مدت کے بعد اُس میں سے متکلم (کلام کرنے والا)کی آواز کو سن سکتے ہیں۔ اس طرح خدا گویا ایتھر کی ڈبیا میں ہمارے الفاظ بند کرکے جمع رکھتا ہے۔ جو اپنے وقت پر سب کو صاف صاف سنائی دیں گے۔
( ۴)۔ ہمارے افعال اُس روز آسمان کی فضا میں بیلشضر کے دیواری نوشتہ کی طرح عیاں ہوں گے۔ اگر کسی اَور گواہ کی ضرورت ہو تو ۔
( ۵)۔ تمام کائنات کی مخلوق ہمارے کسی نہ کسی فعل کی شہادت دینے کے لیے تیار ہوگی۔ اگر یہ نامہ اعمال نہیں۔ تو اَور کیا ہے؟