The Quotes of Great People About Friendship
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan October 26,1894
نور افشاں مطبوعہ۲۶اکتوبر۱۸۹۴ ء
۱۔ دوستی زندگی کی ہی ہے (ینگ)
۲۔ دوستی سے پیشتر جانچو ۔ پھر آخر تک ثابت قدم رہو (ایضاً)
۳۔ دُوست کے بغیر ایک دنیا کا مالک بھی مفلس(غریب،محتاج) ہے تمام جہاں کو دے کر ایک دوست حاصل کر لینے میں بھی نفع ہے۔
۴۔ جیسےمکھیا ںشیریں(میٹھے) گلوں (پھُولوں) سے شہد نکالتی ہیں۔
اس طرح انسان دوستی سے حکمت اور فرحت (آرام و سکون)حاصل کرتا ہے ۔ایضاً
۵۔ جس کا کوئی دوست نہیں اسے زندگی کا کچھ لطف نہیں ۔(بیکن )
۶۔ سچے دوستوں کا نہ ہونا سب سےبڑی تنہائی ہے بیوفائی کا مناسب صلہ دوستوں کی محرومی ہے۔ جو نئے دوست بناتا ہے وہ لئے فرائض اختیار کرتا ہے ۔ (ایضاً)۔
۷۔ جس شخص کا کوئی ایسا دوست نہیں جس سےدل کا حال کہہ سکے وہ خود اپنے دل کےلئے گھن(بادلوں کا ہجوم، بہت بڑا ہتھوڑا) ہے ۔ (فیثاغورث)۔
۸۔ دوستی کو بتدریح (درجہ بہ درجہ، آہستہ آہستہ)آگے بڑھنے دو ۔ کیونکہ اگر دو تیزی کرے تو جلد ی دم ہار جائےگی۔
۹۔ دوستی ایک ایسا برتن ہے جو ذرا سی آنچ یا صدمہ یا ٹھیس سے فوراً ٹوٹ سکتا ہے۔ اس کی جس قدر خوبی ہماری نگاہ میں تھی ۔ اس کی پیوند(مناسبت،جوڑ، بندش، میل) کرنے میں اسی قدر نا امیدی ہو گی ۔ شکستہ (ہارا ہوا) پتھر کو جوڑ سکتے ہیں لیکن شکستہ گوہر(موتی، جواہر، قیمتی پتھر) کو جوڑنامحال(بہت مشکل) ہے۔
۱۰۔ دوست کا سب سےقابل تحسین فرض یہہ ہے۔ کہ وہ دلیری سے ہماری غلطیوں کو ہم پر ظاہر کرے۔ جو شخص میرے نفع (فائدہ) کو مدنظر رکھ کر میرا عیب مجھے بتاتا ہے۔ میں اس کو دانا(عقلمند) اور دریانت دار کہوں گا ۔ دانا اس لئے کہ اس نے وہ بات دیکھی جس کو نہ دیکھ سکا ۔ اور دیانت دار اس لئے کہ اس نے تملق(نرمی، خوشامد) آمیز کلام کے بجائے مجھے صاف صاف میرے عیب سے واقف کر دیا۔
۱۱۔ حقیقی دوست وہ ہے۔ جس کے سامنے تمہارا دل ایسا شگفتہ(کھلا ہوا ، خوش اور شادمان) ہو جاتا ہے۔ جیسا گل (پھول)سورج کے سامنے جس سے کچھ حاصل کرنا موجب(وجہ) خوشی کا ہے۔ جس کی خاطر اپنے تئیں قربان کرنا عین فرحت(سکون) ہے۔ جس کی زندگی نے تمہاری محبت کو برا نگیختہ (بھڑکا ہوا،طیش میں بھرا ہوا) کیا ہے۔ جس کی خاموشی کو تم بآسانی سمجھ سکتے ہو ۔ جس کے بشرہ (چہرہ، مکھڑا)کی حرکتوں میں تم واقعات کا مطالعہ کر سکتے ہو۔ جس کی ہستی تمہاری ہستی کے ساتھ گویا ملحق(جڑا ہوا، لگا ہوا) ہو گئی ہے۔(بروک)
۱۲۔ جو دوستی دنیاوی اخلاق کے اصولوں پر مبنی ہے زندگی کے تمام تغیر و تبدیل پر غالب آتی ہے۔لیکن جس دوستی کی بنا مذہب پر قائم ہے وہ الا نتہا عرصہ تک رہے گی۔ اول قسم کی دوستی خیالات کے ردو بدل(تبدیلی) اور دنیا کے انقلاب کے صدمہ کے مقابل کھڑی رہی۔ دوسری قسم کی اس وقت تک قائم رہے گی ۔ جب آسمان جاتے رہیں گے اور کائنات بھسم (تباہ) ہو جائے گی۔ اول میں اس درجہ تک پائیداری ہےجس قدر زمینی معاملات میں ہو سکتی ہے۔ دوئم خدا کے ساتھ ازلیت (ابتدا، آغاز) میں شریک ہے۔ دنیاوی دوستی میں بدل جانے کا احتمال(شک و شبہ، گمان) ہے۔ روحانی دوستی بے بدل او ر بے زوال ہے۔ وہ دوستی جو طبائع (طبیعت کی جمع ، مزاج) اور عادات کی مطابقت پر موقوف(ٹھہرایا گیا) ہے پروردگار کی طرف سے اس چند روزہ دنیا کی زینت(زیبائش،خوبصورتی) کے لئے مقرر کی گئی ہے۔ لیکن جس کا دارو مدار مذہب پر ہےوہ تھوڑے عرصہ کےبعد خدا کے فردوس (جنت) کو آراستہ(سجانا،سنوارنا) کر نے کے لئے منتقل(جگہ بدلنا) کی جائے گی۔ ( رابرٹ ہال )