The Prudent See Danger And Take Refuge Proverbs 22 : 3
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-i-Afshan 3 May,1895
نور افشاں ۳ مئی ۱۸۹۵ء
’’ہوشیار بلا کو دیکھ کر چُھپ جاتا ہے لیکن نادان بڑھے چلے جاتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں ‘‘ (امثال ۲۲ :۳)۔
اس قول سے ظاہر ہے کہ دُشمن کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کر لینا انسان کے بچاؤ کے لئے ایک امر لابُدی(یقینی) اور ضروری ہے ۔یہی حال ہم جنگ گاہوں میں دیکھتے ہیں ۔جب تک دشمن کی فوج اور طاقت کا پہلے سے اندازہ نہ کیا جائے تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ فتح حاصل ہو بر عکس اس کے اس قسم کی پیش بینی(دور اندیشی) میں کوتاہی ہوتی ہے تو ہزارہا طرح کی سخت دقتیں (مشکلیں)پیش آتی ہیں بلکہ ناکامی پلہ پڑتی ہے ۔اس ہی طرح سے جو شخص کسی بلا کو آتے دیکھ کر پیش بینی سے اُس کا علاج نہ کرےتو کس طرح ہو سکتا ہے کہ اپنے بچاؤ کی راہ نکالے بر عکس اس کے جو پیش بینی (پہلے سے دیکھ لینا)کو عمل میں لاتا ہے وہ اُس بلا میں پھنسنے سے بچ جاتا ہے۔اس قسم کی پیش بینیاں ہر فردِبشر کے لئے نہایت ہی ضروری ہیں۔ عام اس سے کہ وہ پیش بینیاں اس زندگی کے معاملا ت سے تعلق رکھتی ہوں یا آئندہ زندگی سے ۔ہمارے روز کے کام کاج،ہمارے اخلاقی چال چلن اور ہماری دینی اُمیدوں کے وسیع میدانِ جنگ میں ہزارہا طرح کی بلائیں ہمارے بر خلاف صف ِ آرا(لڑائی کے لئے تیار کھڑے ہونا) ہیں اور اگر اُن سے بچنے کی خاطر ازروئے پیش بینی (پہلے سے تیاری کرنا) انتظام کیا جائے۔تو ہم کو اُس ہی میدان میں پناہ گاہوں کے ٹھکانے نظر آئیں گے۔
اوّل۔
ہماری زندگی کے روز مرّہ کے دُنیوی کام کاج میں خواہ وہ زمینداری ،تجارت پیشہ یا نوکری چاکری ہو ہم تجربے سے جانتے ہیں کہ بہت سی آفتیں ،دقتیں ،بلائیں ہمیں پیش آتی ہیں مگر ہم حتیٰ المقدو ر(جہاں تک ہو سکے )پیش بینی کو کام میں لاکر اُن کا مقابلہ کرتے اوربچاؤ کی صورت نکالتے اور پناہ کے انتظام کرتے ہیں مگر پھر بھی ایسے کم عقل کوتاہ اندیش(دور کی نہ سوچنے والا)اشخاص پائے جاتے ہیں جو بلا سوچے سمجھے کسی نہ کسی اُلجھاؤ میں گرفتار ہوتے اور اُس کا نتیجہ بد(بُرا) اُٹھاتے ہیں ۔
دوم ۔
ہم اپنی زندگی کے اخلاقی میدان میں بھی دُشمنوں اور بلاؤں سے گھرے ہوئے ہیں ۔ایسی بلائیں کہ جن کو وہ لوگ جو حقیقت میں داناہیں بڑی گہری نظر سے دیکھتے اور جن سے بچنے کے لئے وہ اپنے آپ کو چھپاتے اور پناہ لیتے ہیں ۔مثلاً ہر ایک بُری عادت ،شراب خوری،بُرے اور دغا باز ساتھی، دُنیا کی طرف لُبھانے والے نظارے وغیرہ وغیرہ ایسی بلائیں ہیں کہ جن کو اگر ہوشیاری اور پیش بینی سے دیکھا نہ جائے اور پناہ نہ لی جائے تو سخت گرد باد(بگولا۔ہو ا جس میں گرد ملی ہو) کی مانند ہر ایک شخص کو گھیر لیتی ہیں اور بھوسے کی مانند اُڑا کر ضلالت(گمراہی) اور ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیتی ہیں جہاں سے نکلنا نا ممکن ہوتا ہے۔ہمارے مذکورہ بالا قول کے مطابق ایسی بلاؤ ں سے بچنے کی خاطر یہ عمدہ طریقہ بتایا گیاہے کہ ہم اپنے آپ کو ان سے چھپائیں ۔
اب سوال لازم آتا ہے کہاں چھپائیں ۔وہ کون سی پناہ گاہ ہے کہ جہاں ہمارا دُشمن ہم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا دیکھو راقم زبور کیا کہتا ہے۔ ’’خُداوند میری چٹان اور میرا گڈھ اور میرا چھُڑانے والا ہے ۔میرا خُدا میری چٹان جس پر میرا بھروسہ ہے میری ڈھال اور میری نجات کا سینگ اور میرا اُونچا بُرج‘‘۔
سوم ۔
لیکن ان سب بلاؤں سے بڑھ کر وہ بلائیں ہیں جو گناہ گار انسان پر آئندہ جہان میں آنے والی ہیں اور جن کو صرف ایمان کی آنکھ پیش بینی سے دیکھ سکتی ہے۔بے تیاری لقمہِ اجل ہونا (بغیر تیاری کے موت کا شکار ہونا) بلاعذر عدالت کے تخت کے روبرو کھڑا ہونا،گناہوں کی شامت کے مارے ہمیشہ کے لئے اندھیرے میں پھینکا جانا۔یہ ایسی بلائیں ہیں کہ جن کے مقابلہ میں مذکورہ بالا بلائیں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں ۔لیکن اگرچہ یہ بلائیں عظیم بلائیں ہیں مگر تو بھی ہوشیار پیش بینی سے دیکھ سکتا اور ایمان لانے والا اُن سے بچ سکتا ہے ۔پناہ گاہ موجود ہے ۔آج اُس کا دروازہ کھُلا ہے ۔اگر ہوشیار آج داخل نہ ہو تو نادان پھر بند دروازہ پر بے فائدہ دستک دے گا ۔دیکھو آج قبولیت کا وقت ہے دیکھو آج نجات کا دن ہے ۔لیکن افسوس ہے کہ مذکورہ بالا قول کا آخری حصّہ آج کل دُنیا پر نظر ڈالنے سے کس قدر ثابت ہوتا ہے ۔’’نادان لوگ گزرتے ہیں اور سزا پاتے ہیں ‘‘۔