محمدصاحب کی بشارت کا ہونا توریت و انجیل میں

Eastern View of Jerusalem

The Prophecy of Muhammad is in the
Torah and the Gospel?

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan June 3, 1875

نور افشاں مطبوعہ ۳جون ۱۸۷۵ ء

مو لوی سید احمد علی  واعظ  صاحب  ۲۵ مارچ  اور ۲۵۔ اپریل کی وعظ میں فرماتے ہیں۔ کہ محمد صاحب کی نسبت بشارت  (خوشی)نبیوں کی کتاب اور انجیل میں موجود ہے ۔اور اس دعویٰ کے ثبوت  میں دو مقام  پیش کئے  پہلا دانیال  نبی کی کتاب  کے  ۹ باب  کی ۲۴ آیت سے ۲۷  تک اور یہ  فرمایا   کہ یہ  نبوت  محمد صاحب  پر اشارت (اشارہ)کرتی ہے۔  خبر نہیں  اُن کو یہ کہاں سے سوجھ گئی ۔محض  ان کی منہ زوری  ہے کیونکہ  اگر ان  آیات  پرغور  کریں  تو فوراً معلوم ہوتا ہے  کہ ان کا دعویٰ  باطل (جھوٹا)اور  لا طائل(بے فائدہ) ہے۔

اول اس واسطے  کہ یہاں لکھا ہے کہ نبوت مذکورہ  ۴۹۰ برس  کے بعد وقوع  میں آئے گی۔  اور ہم کو معلوم ہے کہ دانیال  نبی کا زمانہ مسیح سے  ۵۰۰ برس پیشتر ہوا۔  اس واسطے  محمد صاحب   سے مراد نہیں ہو سکتی۔   کيونکہ دانیال  نبی  اُن  نے گیارہ  سو برس پیشتر  گذرے۔

دوم اس کے حق میں مرقوم(لکھا ہوا)  ہوا کہ وہ بدکار  یوں (زنا کاری،حرام کاری،بد چلنی،بدفعلی)کے لئے کفارہ(گناہ دھونے والا)  کرے گا  اور ذبیحہ(قربانی کا جانور۔شرعی طور پر ذبح کيا ہوا جانور)  اور ہدایا (نذرانے۔نذريں)موقوف (منسوخ۔برخاست)کرے گا اور وہ قتل  کیا جائے گا  ۔ پر اپنے لئے نہیں  ۔

بھلا میں پوچھتا  ہوں کہ مولوی صاحب  تواریخ  ِمحمد ی سے ناواقف ہیں کہ امور  مزکور ہ کو  محمد صاحب  پر جماتے ہیں ۔ ان کے عہد میں ذبیحہ  ہدیہ کب موقوف  ہوا اور وہ خود کب مارے گئے۔ جب کہ دستاویز  کامل نہ  ملے  اور بے استدلال  (ثبوت کے بغير)مطلب  نہ بنے  تو خاموشی  بہتر ہے۔ جھوٹی  شہادت( گواہی)  لانے سے۔ دوسری بشارت (خوشی)  فارقلیط(حضرت محمد کا وہ نام جو انجيل ميں آيا ہے )  کی کہ یہ بھی  انہیں کے حق  میں ہے۔ اور اس کی تائید(حمايت) میں قول ڈاکٹر  گادفری ہیگنس صاحب کا نقل کیا اس  مسئلہ کے تحقیق میں لمبے  چوڑے مضمون کی تحریر  اسے اخبار  میں سال گذشتہ میں درج  ہو چکی ہے۔ اب میں اس تمام  کو دوبارہ  پیش کرنا نہیں چاہتا  ہوں صرف اتنی بات دکھلا ؤں گا کہ مولوی  صاحب  منصف  مزاج ہو کر ان آیات کو ملاحظہ  کریں ۔جن میں فارقلیط  کا بیان ہو ا۔اُمید  قوی(مضبوط۔مستحکم) یہ ہے کہ اگر  بغور  ملاحظہ  کریں گے تو خو د ہی معترف(اعتراف کرنے والا۔اقرار کرنے والا)  ہو جائیں گے۔ کہ یہ   اوصاف(خوبياں) مذکورہ کسی صورت سے محمدصاحب  پر  منطبق(موافق۔ٹھيک)  نہیں ہو سکتے۔  ڈاکٹر  گادفری ہیگنس  صاحب کی شہادت(ثبوت۔گواہی)  اس معاملہ  میں لغو(بکواس۔بے فائدہ)اور بیکار  ہے۔ کیونکہ  یہ شخص  عیسائی  نہیں تھا  ۔بلکہ یونی ٹیرین  عقیدہ میں  بالکل  مسلمان۔

محمد صاحب تو اس گفتگو کے بعد چھ سو برس کے قریب پیدا ہوئے

  مولوی  صاحب  کا یہ کہنا  کہ عیسائیوں نے انجیل میں موٹانس  کے وقت میں پيرا کليتوس کو پيرا کليتس بنا لیا ہے۔ اور اس لفظ اول  کو چھپانے کے  لئے تمام  تحریر یں قلمی غارت(تباہ)  کر دی گئیں ایک خلاف  بات اور جھوٹی  تہمت(الزام)   ہے ۔اس کا ثبوت  صرف مولوی  صاحب کی زبان  کا بیان ہے اور کسی تواریخ  کلیسیا میں پا یا  نہیں گیا  شاید  مولوی  صاحب   نے اپنی  پُرانی  حرکات کو یاد  فرمایا ہو گا  کہ عثمان غنی  نے قرآن  جمع کر دہ  اپنا باقی رکھ کر  اور سب کو آگ  دکھلائی  علاوہ بریں یہ بھی  یاد رہے  کہ یہ مباحثہ  لفظی  نہیں ہے ۔کہ اس لفظ کو بدل  ڈالیں  تو مطلب  پورا ہو۔ بلکہ فارقلیط   جس کی نسبت خُداوند  یسو ع مسیح  نے وعدہ کیا اس کی  خصوصیات  اور افعال  کا مفصل بیان ہے۔ جو کہ محمد صاحب پر ہرگز  منطبق  نہیں ہو سکتا  ۔میں اُن آیات  کو منتخب  کر کے دکھلاتا  ہوں جن میں فارقلیط  یا بیان  ہے پڑھنے والے خود ہی  دریافت   کر سکتے ہیں۔(  یوحنا  کے ۱۴  باب کی ۱۶  ، ۱۷  آیت) اور میں اپنے باپ  سے درخواست   کروں گا  اور وہ تمہیں  دوسرا تسلی   دینے والا  بخشے گا  کہ ہمیشہ  تمہارے  ساتھ رہے یعنی روح  ِحق ُدنیا  حاصل نہیں  کر سکتی  کیونکہ  اسے نہ دیکھتی  ہے اور نہ اسے  جانتی ہے لیکن تم اسے  جانتے ہو کیونکہ  وہ تمہارے  ساتھ رہتی  ہے اور تم میں ہوئے گی۔(  ۲۶ ۔ آیت)  لیکن وہ تسلی  دینے والا  جو رُوح القدس  ہے جسے  باپ میرے نام سے بھیجے گا  وہی تمہیں  سب چیزیں سکھلائے گا۔ اور سب باتیں  جو کہ میں  نے تمہیں  کہی ہیں تمہیں یاد دلائے گا۔ ۱۵ باب کی ۲۶  آیت  پر جب کہ وہ تسلی دینے والا  جسے  میں تمہارے  لئے باپ  کی طرف سے بھیجو ں گا  یعنی روحِ حق جو باپ سے نکلتا ہے آئے تو وہ میرے لئے گواہی دے گا۔(  ۱۶ باب کی ۷ سے ۱۵ ۔ آیت تک) لیکن میں  تمہیں  سچ کہتا ہوں  کہ تمہارے  لئے میرا  جانا ہی فائدہ ہے ۔کیونکہ  اگر میں نہ جاؤں تو تسلی  دینے والا تمہارے   پاس نہ آئے گا  ۔پر اگر میں جاؤں تو  میں  اُسے تمہارے پاس بھیج  دُوں گا  ۔اور وہ آ کر دُنیا کو گناہ سے راستی  سے عدالت  سے تقصیر  دار (قصور وار۔مجرم)ٹھہرائے گا  ۔ میری اور بہت  سی باتیں  ہیں کہ میں تمہیں کہوں  ۔پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے۔لیکن جب وہ یعنی  روح ِحق آئے  تو وہ تم کو ساری سچائی کی راہ بتا ئے گا۔ اس لئے  کہ وہ اپنی نہ کہے گا   لیکن جو کچھ  وہ سنُے گاور کہے گا   اور تمہیں آیندہ  کی خبریں دے گا۔ وہ میری بزرگی کرے گاس لئے کہ وہ میری چیزوں میں سے پائے گا  اور تمہیں  دکھلا ئے گا۔

سب چیزیں جو با پ کی ہیں میری ہیں اس لئے  میں نے کہا کہ وہ میری چیز وں میں سے لے کروہ تمہیں دکھائے گا۔(اعمال کا پہلا باب ۴، ۵ ،۸ آیت) اُن کے ساتھ ایک جا ہو  کے مسیح نے حکم دیا کہ یروشلیم  سے باہر نہ  جاؤ بلکہ باپ کے اس  وعدہ کے جس کا ذکر  مجھ سے سُن چکے ہو راہ دیکھو کیونکہ یوحنا نے تو پانی  سے بپتسمہ  دیا پر تم تھوڑے  دنوں کے بعد روحِ  القدس  سے بپتسمہ  پاؤگے ۔اور یروشلیم  اور سارے یہودیہ  و سامریہ  بلکہ میں کی حد تک میرے گواہ ہو گے۔ آیات مذکورہ میں تسلی  دینے  والے  کی دو قسم  کی صفتوں کا مذکور ہوا ۔

اول عام جو ہر کسی مرشد(ہدايت کرنے والا۔اُستاد) یا دینی تعلیم دہندہ پر منطبق (موافق)ہو سکتے ہیں۔ اسی سبب سے نہ صرف محمد صاحب  نے دعویٰ کیا کہ مسیح  کی نبوت  فارقلیط  کی بابت  مجھ میں پوری  ہوئی ۔بلکہ عیسائی  جماعت  میں مختلف  اوقات  میں اور چند اشخاص  نے ایسے دعویٰ کیا اُس میں سے دو آدمی نہایت مشہور  ہیں ایک مونٹینیس اور دوسرا  سینتیر وہ عام صفات میں وہ تمہیں سب چیزیں سکھلاؤں گا ۔اور سب  باتیں جو کہ میں نے تمہیں کہیں یاد دلائے گا ۔وہ آ کر دُنیا کو گناہ  سے اور راستی  سے اور عدالت  سے تقصیر  وار(مجرم۔قصور دار)  ٹھہرائے گا  وغیرہ۔

دوسری خاص  یہ صفتیں اس قسم کی ہیں۔ کہ کسی خاص  شخص  پر صادق(سچی) آسکتی ہیں اور  جب تک یہ خصوصیت  کسی شخص میں نہ پائی  جائے تب تک اس کے لئے فارقلیط  ہونے کا دعویٰ کرنا لا حاصل ہے۔ اور کس کا کہنا کہ اس  میں یہ باتیں پوری ہوئیں ہذیان(بے ہودہ گوئی) ہے۔ اور اس کی جہالت  کا عنوان وہ خصوصیات یہ ہیں وہ ہمیشہ تمہارے  ساتھ رہے گا اسے دُنیا نہیں دیکھتی ہے وہ تمہارے ساتھ رہتا  ہے۔

بلکہ يسوع مسيح پر ايمان لانے سے راستباز گنا جاتا ہے

 اب میں یہ پوچھتا ہوں کہ یہ صفتیں محمد صاحب  پر کیونکر لگ سکتی ہیں  مسیح نے فرمایا  کہ وہ ہمیشہ  تمہارے ساتھ رہے گا ۔ مقابل اپنے رہنے کے لئے جیسے میں تھوڑی مدت رہا اور پھر  چلا جاتا ہوں وہ ایسا نہ کرے گا۔  محمد صاحب تو دُنیا میں  آئے اور تریسٹھ برس کے بعد وفات پائی اور بشر کی مانند ُ دنیا سے گذر گئے ۔ پھر لکھا ہے کہ وہ تمہارے بیچ  میں رہتا  ہے یعنی  اُسی  وقت جب  مسیح ان کے ساتھ گفتگو  کر رہا تھا۔

 محمد صاحب  تو اس گفتگو  کے بعد چھ  سو برس  کے قریب پیدا ہوئے سوا اس کے وہ ایسا شخص ہو گا  جس کو دُنیا نہ دیکھے گی  یعنی وہ جسمانی نہ ہوگا  ۔ بلکہ روحانی ۔علاوہ بریں اس کو باپ میرے نام سے بھیجے گا  وہ اپنی نہ کہے گا۔ لیکن جو کچھ وہ سنُے گا اور  کہے گا  وہ میری بزرگی  کرے گا۔ اس لئے  کہ وہ میری چیزوں میں سے پائے گاسب چیز یں جو باپ کی ہیں میری  ہیں اس لئے  میں نے کہا کہ وہ میری چیزوں میں سے لے گا اور تمہیں دکھائے گا۔

 ان آیات سے واضح ہے کہ فارقلیط جو ہو گا کوئی کیوں  نہ ہو وہ مسیح کے نام سے اور اس کا بھیجا ہوا ہو گا  کیا سو لو یصاحب تیار  ہیں کہ محمد صاحب کو مسیح کے نام سے آیا ہو اور اس کا رسول کہیں  اگر ایسا  ہو تو مجھے کچھ  انکار  نہیں فارقلیط  کا درجہ محمد صاحب  پر لگانے سے تاویل(بيان۔بات کو پھير دينا) تو یہاں کسی طرح کی بن نہیں سکتی۔  کیونکہ  عبارت نہایت صاف ہے  لیکن مولوی صاحب  کو یہ بھی اقرار کرنا پڑے گا ۔ کہ سب جو کچھ محمد صاحب نے پایا مسیح  سے پایا سو اس کے  اعمال  کی آیا ت اور ان کے بیانات سے یہ بھی ظاہر ہے۔ کہ روحِ حق تھوڑے عرصہ میں شاگردو ں پر نازل ہو نے والاتھا  کیونکہ مسیح نے انہیں فرمایا تھا تم یروشلیم میں اس کی  انتظاری  کرو اور جب وہ  تم  پر  آئے  قوت پاؤ گے۔ اور یروشلیم  اور سارے یہودی اور سامریہ بلکہ زمین کی حد تک  میرے گواہ ہو ں گے۔ بھلا کیونکہ یہ بات محمد صاحب  کی نسبت  متعلق  ہو سکتی ہے اورکون  منصف مزاج اس کو قبول  کر سکتا ہے معلوم  نہیں بعض محمدی اشخاص  فارقلیط کی نبوت پر کیوں اتنا زور لگاتے ہیں۔ محمد ی مذہب کی سچائی تو کچھ اس پر موقوف نہیں اس بے فائدہ کوشش سے صرف  اپنی بے علمی اور بے انصافی اور تعصب  (حمايت۔طرفداری)ظاہر  کرتے ہیں۔  بہتر ہےکہ اور کسی قسم کی دلیل (گواہی )پیش کریں ۔جس سے سچائی اُن کے مذہب  کی ثابت  ہو۔ اور علماء کو اس کی پذیر ائی میں تامل(برداشت) نہ ہو۔ جھوٹا فخر  بہر حال  نا مناسب  ہے کہ ندامت  اور شرمندگی کے سوا اور کچھ اس سے حاصل نہیں ۔

Leave a Comment