رُوح القدس تم پر نازل ہو گا

Eastern View of Jerusalem

The Holy Spirit will come upon you

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Jan 12, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۱۲جنوری ۱۸۹۱ ء

’’لیکن جب رُوح القدس تم پر آئے گی تو تم قوت پاؤ گے۔ اور یروشلیم اور سارے یہودیہ و سامریہ میں۔ بلکہ زمین کی حد تک میرے گواہ ہو گے‘‘  (اعمال ۸:۱)۔

لوقا کے چوبیسویں(۲۴) باب کی اُنچاسویں(۴۹)آیت میں خُداوند مسیح نے رُوح القدس کو موعود(وعدہ کرنا) فرمایا اور شاگردوں سے کہا ’’دیکھو اپنے باپ کے اس موعود کو تم پر بھیجتا ہوں۔ لیکن تم جب تک عالم بالا(آسمان) کی قوت سے ملُبس (لباس پہننا)نہ ہو یروشلیم میں ٹھہرو‘‘۔ یہ خداوند کی آخر ی تسلی بخش بات تھی جس میں  ایک ایسا وعدہ شامل تھا کہ جب تک وہ پورا نہ ہو  لیا ۔مسیح کے رُسول اس کی گواہی دینے کےقابل نہ ہو سکے۔ کیونکہ صرف رُوح القدس ہی قوت و قدرت کا وہ سرچشمہ ہے۔ جس سے سب مقدسوں میں قوت اور ہمت و جراّت پیدا ہوتی  اور کلام کو سمجھے، مضامین روحانی کی برداشت ، روحانی جنگ کی قوت اور کلام کی خدمت اُسی کی مدد سے ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے آسمان پر عروج(بلند مرتبہ) فرمانے کے بعد سب شاگرد یروشلیم ہی میں ایک بالا خانہ میں فراہم رہ کر اس موعود مسعود (وعدہ کيا ہوا مبارک)کی انتظاری میں شب و روز دُعا مانگنے اور عبادت کرنے میں مشغول (مصروف)رہے۔ اور جب عید پنتیکوست کا دن آیا ۔ تو وہ وعدہ عجیب طور سے پورا ہوا اور جب کہ عید ِِمذکورہ کی تقریب کے باعث تخمیناً (اندازہ سے)پچیس لاکھ یہودی ممالک مختلفہ  (مختلف)کے یروشلیم میں جمع تھے۔ سب کے دیکھتے ہوئے روز ِروشن میں مجمع عام میں آتشی زبان (آگ کی زبان) کی صورت میں نازل ہو کر ان بے علم و اُمی گلیلی مچھووں(مچھلی پکڑنے والے) کو غیرزبانوں میں خدا کی عمدہ باتیں بولنے اور مسیح کے نجات بخش نام کی نہایت دلیری و استقلال (ثابت قدمی)کے ساتھ گواہی دینے کے قابل کر دیا۔ ضرور تھا کہ اولاً مسیح کی خوشخبری يہودیوں کو دی جائے اور یروشلیم سے یہ کام شروع کیا جائے۔ جہاں کے ہزاروں آدمیوں نے مسیح کو مصلوب ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کی زندگی میں اس کے کلام کو سُنا تھا۔ اور اس کو بخوبی جانتے پہچانتے ۔ اس کے معجزات کو مشاہدہ کر چکے تھے۔ کیونکہ یہ باتیں کونے میں نہیں ہوئیں۔ پس رسولوں نے اس وقت سے ایک عرصہ تک مسیح کی گواہی یروشلیم شہر میں بڑی جوش و خروش کے ساتھ دی اور سب سے زیادہ زور اسی ایک بات پر دیا کہ یسوع وہی مسیح ہے جس کا ذکر نوشتوں میں کیا گیا ۔ جس کو قوم یہودنے پلا طُس سے درخواست کرکے صلیب دلوا دی اور قتل کیا۔ اور وہی یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ وہ ہمارے دیکھتے ہوئے آسمان کو گیا ہے۔ اور آخر دن میں وہی دُنیا کی عدالت کرنے کو پھر آئے گا۔ اور یہ  کہ اس کے سوا اور کوئی نجات دہندہ نہیں۔ جو اس کے نام پر ایمان لاتا ہے سو ہی نجات پائے گا۔

لیکن جب رُوح القدس تم پر آئے گی تو تم قوت پاؤ گے

اگر چہ یہ حکم خُداوند نے اس وقت ان ہی شاگردوں کو جو حاضر تھے دیا۔ مگر اس کی  تعمیل ہر ایک مسیحی ایماندار پر فرض ہے۔ ہر ایک مسیحی مومن خدا وند مسیح کا گواہ ہے اور واجب ہے کہ وہ اپنے اعمال و اقوال ، حرکات و سکنات زندگی اور موت سے اپنے نجات دہندہ کی گواہی دے اور ایسا کرنے سے وہ اپنے کو فرشتوں ، نبیوں اور رسولوں کا ہم خدمت ثابت کرے گا۔

’’اور میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا۔ اور وہ تمہیں دوسرا تسلی دینے والا دے گا۔ کہ تمہارے ساتھ ابدتک رہے۔ یعنی سچائی کی روح جسے دُنیا نہیں پا سکتی کیونکہ اسے نہیں دیکھتی اور نہ اسے جانتی ہے ۔ لیکن تم اسے جانتے ہو ۔ کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتی ہے اور تم میں ہوگی‘‘ (یوحنا ۱۷،۱۶:۱۴)

دُوسرا تسلی دینے والا

 جس یونانی لفظ کا ترجمہ ہے وہ  دراصل ’’پارا قلیتس‘‘ ہے۔ محمدی اس کو’’ فارقلیط‘‘ کہتے اور محمد صاحب کی خبر سمجھتے ۔ اور کہتے  ہیں کہ’’ فارقلیط‘‘ کے معنی’’ احمد‘‘ ہيں۔ اسی لئے قرآن میں آیا ہے۔ کہ مسیح نے کہا (اِنّی مُبشراً برسُول یاتی من بَعدی اسمہ احمد )ترجمہ۔’’یعنی میں خوشخبری دیتا ہوں ایک رسول کی میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہوگا‘‘۔ تمام عہدِ جدید میں یہی ایک ایسا مقام ہے جس پر محمدیوں نے حضرت رسول موعود (وعدہ کيا ہوا)ٹھہرانے کےلئے بہت زور مارا ہے۔مگر مسیحیوں نے مقدور (حيثيت کے مطابق)بھران کی غلط فہمی کو رفع (دور)کرنے کی کوشش کی اور مُد لل (دليل کے ساتھ)طور پر بہت کچھ لکھا تو بھی ابھی  تک محمدی یہی سمجھتے ہیں کہ ضرور ’’فارقلیط ‘‘سے مراد محمد صاحب ہی ہیں۔

لیکن اگر ان تمام آیات پر جو اس موعود کی نسبت انجیل میں پائی جاتی ہیں بخوبی غور کیا جائے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ مسیح خداوند نے جو جو کام اور صفتیں اس سے منسوب(نسبت) کی ہیں وہ کسی انسان کے تو درکنار (علاوہ) کسی فرشتے کے ساتھ بھی ہرگز منسوب نہیں کی جا سکتی ہیں۔ اور یوں تو محمد صاحب کو کیا ہر ایک شخص کو جس کا نام احمد ہو ۔ اختیار ہے کہ وہ اپنے کو’’ فارقلیط ‘‘تصور کرکے موعود تسلی دینے والا ظاہر کرے ۔چنانچہ اکثروں نے مسیح کے بعد ایسا دعویٰ کیا ہے۔ اور بعض محمدیوں نےبھی جن کے نام میں لفظ احمد شامل تھا  اپنے کو اور دیگر محمدی اشخاص کو دُھو کا  دیا۔ منجملہ(تمام) ان کے ایک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہیں جو اس آیت قرآنی کو اپنے اُوپر جمائے اور کہتے ہیں کہ میں آیا ہوں اور میرا نام احمد ہے (دیکھو ازالہ صفحہ ۶۷۳)۔

لیکن جیسا کہ ’’توزین الاقوال ‘‘سے ظاہر ہوتا ہے۔ پندرھویں صدی سے اس اُنیسویں صدی تک ہندوستان میں چار احمد ظاہر ہو چکے ہیں۔ جنہوں نے دینِ اسلام کی مرمت(درستی) اور سلطنت ِاسلامیہ کے بارے میں فکر کیا ہے۔ اور مجّدد (پُرانے کو نيا کرنے والے)ہونے کے مدعی(دعویٰ کرنے والے) ہوئے ہیں۔

پہلا احمد

 شیخ احمد سر ہندی ہیں جن کا انتقا ل ۱۳۴ء ہجری میں ہوا اور شہر سر ہند میں ان کا مقبرہ ہے۔ وہ مذہب اسلام کے ایک جید عالم(کھرا زورآور عالم) اور صوفی(پر ہيز گار) تھے۔ ان کو محمدیوں نے مجدّد الف ثانی(دوسرے ہزار برس کا مجدّد) کا خطاب دیا تھا۔ جو اب تک ان میں مقبول (مشہور)ہے۔ یعنی وہ دین اسلام کے مجدّدیا ر یفارمر(اصلاح کرنے والا) ۔ اور احمد ثانی (دوسرا محمد)کہلائے ۔ پہلا احمد محمد صاحب ہوئے۔ اور دُوسرا احمدیہ حضرت سمجھے گئے ۔ آخر کار ان کے خیال میں بھی کچھ ایسا آگیا  کہ میں دوسرا احمد ہو کے محمد صاحب کے قریب آگیا ہوں۔ ضرور دوسرے اصحاب رسول سے مجھے سبقت (برتری)حاصل ہوئی ہے۔ ایسے خیال کی بُو دریافت (معلوم)کر کے بعض محمد ی ان پر طعن (ملامت)کرنے لگے تھے۔ تب انہیں کہنا پڑا کہ یہ غلط ہے۔ میرا گمان(وہم) ایسا نہیں ہے۔

( سفنیتہ الاليامگر تا نبا شداند کے مردم نگویند چیز ہا)

دُوسرا احمد

سید احمد غازی ہیں۔ ان کا حال ناظرین بغور سُنیں۔ کیونکہ مرزا صاحب نے ان کی تقلید (پيچھے چلنا)کر کے نبی اور مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور اس طرح کے کچھ بندوبست نظر آتے ہیں۔ یہ حضرت قوم سے سّید اور رائے بریلی کے باشندے تھے۔ اور سیدھے مزاج کے آدمی بے علم شخص تھے۔ اور اولاً نواب ٹونک  کے سواروں میں ملازم تھے۔ شاہ عبدالعزیز کی شہرت سُن کےدہلی میں آئے ۔ اور سرائے میں اُترے ۔ ارِادہ تھا کہ شاہ صاحب کے مرید ہو کے واپس چلے جائیں گے۔

بلکہ زمین کی حد تک میرے گواہ ہو گے

اُس وقت دہلی ميں دو مولوی صاحب ہمرازدوست اور دُنیا کی طرف سے تنگ ۔ اور شاہ صاحب سے بباطن کشید ہ خاطر۔ بظاہر ان کے عزیز ۔ کسی منصوبہ میں گُشٹ کیا کرتے تھے۔ یعنی مولوی اسمعیل  اور مولوی عبدالحی۔ مولوی اسمعیل بڑا  لسّا ن(بہت بولنے والا) اور عمدہ واعظ شاہ صاحب کا بھتیجا تھا۔ اس کو اُمید تھی کہ  شاہ صاحب جو لا ولد (اولاد نہيں تھی)تھے۔ اپنی میراث میں سے اِس بھتیجے کو حصِہ دیں گے۔ لیکن شاہ صاحب اُن کے غیر مقلدی(پيروی نہ کرنے والے) خیالات سے خوش نہ تھے۔ کچھ ترکہ (وراثت  ميں حصّہ)نہ دیا۔ سب کچھ اپنے داماد کے نام لکھ دیا۔ تب اسمعیل سخت ناراض ہو کے مقلدین (پيروی کرنے والے)فرقہ کی  بيخ کنی (جڑ سے اُکھاڑنا)۔ اور اپنی معیشت دُنیاوی کے فکر میں ہو گئے۔ اور عبد الحی اُن کے دوست جو میرٹھ کے کسی سرکاری دفتر میں محرر( لکھنے والے) تھے۔ بر خواست( ملازمت سے الگ) ہو کے دہلی میں آگئے تھے۔ دونوں فکر مند دوست ہمراہ (ساتھ)چلتے پھرتے ۔ اور کسی تجویز کے درپے(خواہاں) تھے۔ ناگاہ سرائے میں بطور سیر کے آگئے ۔ وہاں سید احمد صاحب کو مسافرانہ اُترے ہوئے پایا۔ ملاقات ہوئی اور حال پوچھا۔ مزاج دیکھا اور جہاد کی پٹی پڑھائی۔ اور اپنے پنجہ میں پھنسا لیا اور منصوبے باند ھ لئے اور شاہ صاحب کے پاس مرید کرانے کولے گئے۔ جب وہ مُرید ہو کے باہر نکلے ۔ پالکی موجود تھی۔ انہیں سوار کیا۔ اور ایک مولوی دہنے اور ایک بائیں ہوا۔ اور ادب سے پالکی کے ساتھ دوڑتے تھے۔ اور جب وہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے لئے آتے  تو مسجد کے دروازہ پر ایک جوتی ان کی مولوی اسمعیل ۔ اور دوسری جوتی مولوی عبدالحی ادب سے اُٹھا لیتے ۔ اور دست بستہ (ہاتھ باندھ کر)پیچھے کھڑے رہتے تھے۔ لوگ حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ ایسے بڑے بڑے مولوی اس شخص کی پائے خاک(پيروں کی مٹی) ہوگئے ہیں۔ یہ کون صاحب ہیں۔ تب یہ دونوں مولوی کہتے تھے کہ حضرت سید احمد صاحب بڑے ولی اللہ ہیں۔ یہ حضرت محمد صاحب کے مشابہ پیدا ہوئے ہیں۔ خدا نے ان کو بھیجا ہے کہ سلطنت اسلامیہ کو قائم کریں اور دینِ اسلام کو رونق دیں۔ اور خدا نے ان سے ہم کلام ہو کے بڑی فتح مندی کے وعدے فرمائے ہیں۔ اب یہ حضرت امام (پيشوا)ہو کے جہاد کریں گے۔ اور کافروں کو مار کےہندوستان سے نکال دیں گے۔ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی جان سے اور مال سے ان کی مد د کریں اور ان کے ساتھ ہو کے جہاد میں جانا ایسا سمجھیں جیسے رسول اللہ کے ساتھ گئے۔ ( دیکھو کتاب صراط المستقیم تصنیف مولوی اسمعیل )جو انہیں ایام میں جلد لکھی گئی۔ دیباجہ میں لکھا ہے کہ جناب سید ا حمد کا نفس عالی جناب رسالت مآب کے ساتھ کمال مشابہت پر بدوفطرت میں پیدا کیا گیا ہے اور خاتمہ میں لکھا ہے کہ حضرت نبی  صاحب کو سید صاحب نے خواب میں دیکھا اور نبی صاحب اپنے ہاتھ سے ان کو خرمے کھلائے ۔ پھر کسی روز حضرت علی اور حضرت فاطمہ بھی خواب میں ان سے ملنے کو آئیں ۔ علی نے بدست خود (اپنے ہاتھ سے)اُن کو غسل دیا اور فاطمہ نے بدست خود ان کو عمدہ پوشاک پہنائی  ۔ پھر ایک روز خواب میں ان سے خدا تعالیٰ نے ملاقات کی اور اپنی قدرت کے ہاتھ سے ان کو پکڑ لیا اور پاک چیزیں ان کے سامنے رکھ کے کہا کہ یہ چیزیں میں نے تجھے دیں اور آئندہ کو اور چیزیں بھی تجھے دُوں گا۔ غرض سید صاحب کو پیر بنا کے لے اُڑئے۔ اور تمام ہندو ستان میں پالکی لے کے پھر گئے اور جا بجا وعظ کر کے ملک کے مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ بے شمار روپیہ جمع کیا اور جابجا ہنڈوی بھیج کے مہاجنوں میں جمع کرایا۔ اور ہزار ہزار جاہل نمازی مسلمان جہاد کے لئے تیار کرکے کچھ آگے بھیج دئیے کچھ ہمراہ لئے  اور شہر شہر سید صاحب کے خلیفے بٹھلائے تاکہ روپیہ جمع کریں۔ اور آدمی بھی پیچھے روانہ کرتے رہیں۔ جب انگریزوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ تو کہا کہ ہم آپ لوگوں سے نہیں پنجاب کے سکھوں سے جہاد کریں گے۔ وہ وقت ایسا تھا کہ انگریز بھی مصلحتاًچپ کر گئے۔ اور یہ حضرت فوج بنا کے براہ سند ھ سوات بونیر تک پہنچے۔ تا کہ اس طرف سے سکھوں پر حملہ ہو۔ اُمید تھی کہ افغان بھی ساتھ ہو جائیں گے۔ اور جب ملک پنجاب سکھوں سے خالی کر الیں گےتب انگریزوں کو سمجھ لیں گے اور یوں سلطنت اسلامیہ قائم ہو جائے گی۔ مولوی عبدالحی کوئٹہ کی راہ میں بعارضہ تپ لرزہ (کپکپی بخار)انتقال کر گئے۔ اور اسمعیل و سید احمد وہاں پہنچے۔ کوئی دِن فوج لے کے کچھ لڑے۔ آخر کار بعض پٹھانوں کی مدد سے سکھوں نے رات کو ایسا اُن پر چھا پا مارا کہ سب کو قتل کیا ۔ مولوی اسمعیل وہاں مارے گئے۔ اور سارے مومنین مجاہدین قتل ہوئے سید احمد صاحب کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔ اور وہ میدان میں بیٹھ گئےتھے۔ اسی جگہ مرگئے ۔کوئی کہتا ہے کہ ایک پٹھان ان کو اپنے اُٹھائے گیا تھا۔ وہاں جا کے مر گئے کوئی کوئی آدمی بھاگ کے بہ مشکل واپس آیا تھا۔ اور یہ واقعہ (۱۸۲۷ء)میں واقع ہو ا تھا۔ ( دیکھو کتاب مولوی غلام حسین ہوشیار پور ی وانور العارفین تصنیف محمد حسین مراد آبادی) ۔

جب تک اس پشت(نسل) کےلوگ نہ مرے ان کو یہی خیال رہا کہ سید صاحب پہاڑوں میں پوشیدہ ہیں۔ کسی وقت نکلیں گے۔ (ف) اس منصوبہ اسمعیل کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کہ انسانی چالاکی تھی رسولی مشابہت اور وہ سب خواب باطل(جھوٹے) تھے۔ سب دوڑدھوپ (محنت)برباد ہوئی آپ بھی مارے گئے اور صدہا جاہل نمازی اطراف پورب کے مومینن قتل کر وا دیئے۔ ان کی عورتیں رانڈ(بيوہ)ہوئیں بچے یتیم ہو کے محتاج ہوئے ۔ خانہ خرابیاں ہو گئیں۔ بادشاہی ہاتھ نہ آئی ۔ ہاں اسلام کی اس قدر مرمت ہوئی کہ غیر مقلد (پيروی نہ کرنے والا)فرقہ ان کے وعظوں سے اور ان کی  تقویت لایمان وغیرہ سے پیدا ہو گیا۔

اب مرزا قادیانی صاحب کا وہی طور(طريقہ) نظر آتا ہے۔ وہ خود مسلمانوں کو سکھلاتے ہیں ۔( فتح الاسلام صفحہ ۷۱،۸) کہ رسمی علوم اور قرآن و احادیث کے ترجموں کی اشاعت سے اسلام کی مرمت(درستی) نہیں ہو سکتی آسمانی سلسلہ کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مطلب ان میں آسمان کی طرف سے نبی اور مسیح مقرر ہو کے آیا ہوں۔

میری اطاعت سے مرمت ِاسلام ہوگی ۔ نہ تمہارے رواجی دستورات سے اور اپنی بے شمار تعریفیں آپ اپنے منہ سے کرتے ہیں کہ میں بڑا کامل شخص ہوں۔ اور جیسے سید احمد غازی کو دو مولوی اُڑانے والے مل گئے تھے۔ ان کو بھی حکیم نورالدین اور غلام قادر فصیح صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مل گئے ہیں۔ ان کا انجام ان سے زیادہ خطرناک ہو گا۔ سُنّی  مسلمانوں نے جو مرزا کو رّد کیا دانشمندی سے اپنے مذہب کے موافق کام کیا ہےاور محمد حسین بٹالوی تحسین(تعريف) کے لائق ہیں۔ اور وہ جو مرزا صاحب کی صلاح میں شریک میں اپنے مذہب کے اور عقل ِسلیم کے خلاف کام کرتے ہیں۔

تیسرااحمد

مسلمان اس کو’’ فارقلیط‘‘ کہتے اور محمد صاحب کی خبر سمجھتے

سید احمد خان صاحب بالقابہ ہیں۔ اُنہوں نے سب سے زیادہ اسلام کا تجدّد (پرانے کو نيا بنانا)کیا۔ اسلام قدیم کو کاٹھ کی ہنڈیا (جھوٹ  ناپائيدار)بتا کے چھوڑ دیا۔ اور قرآن و حدیث کو نیچر یت(فطرت پر چلنا) کے پیرایہ میں لاکے اسپات کی ہنڈیا(سخت لوہا فولاد) بنایا۔ اور قرآن کی تفسیر نیچری (فطرت کے مطابق)لکھی۔ محمد صاحب نے اپنے اسلام کا رُخ انبیائے بنی اسرائیل کی طرف کچھ کچھ رکھا تھا۔سید صاحب نے اُدھر سے بمشکل کھینچا ۔ اور فلاسفی (علمِ موجودات)کی طرف کر دیا۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ لیکن یہ عمارت جو انہوں نے اُٹھائی ہے طالبِ حق(سچائی جاننے کا خواہش مند) کے دل میں کچھ تسلی تو پیدا نہیں کر سکتی۔ اور نہ کچھ پائیدار (مضبوط)ہے۔ بلکہ بہت جلد گر ے گی۔ ۔کیونکہ الفاظِ قرآن سے ان کے مضامین ِمخترعہ (ايجاد کيے گئے مضامين)کو کچھ علاقہ (تعلق)نہیں ہے۔ ان کے بیان ان کی تفسیر میں مرقوم پڑے رہیں گے۔ اور الفاظ و عبارات قرآن اپنے معنی و مضامین لازمہ (ضروری)کو ہرگز نہ چھوڑیں گے۔ اور وہ جو محقق (تحقيق کرنے والے)پیدا ہوں گے۔ ہمیشہ اہلِ زبان سے معنی دریافت(معلوم) کریں گے۔ سب سے بڑی عقلی تفسیر قرآن کی امام فخرالدین رازی [1]نے لکھی ہے۔ جہاں سے سید صاحب نے بہت کچھ لیا۔ تو بھی فخرالدین صاحب کے مضامینِ عقلیہ(عقل سے بنائے ہوئے) مسلمانوں کے ایمان میں شامل نہ ہوئے بلکہ جلال الدین سیوطی نے اس کی تفسیر کو چند سطروں میں دلیل کر دیکھلایا۔ اور لکھا ہے۔

امام فخرالدین۔ نے اپنی تفسیر کو اقوال حکماء اور فلاسفہ وغیرہ سے بھر دیا ہے۔ اور ایک بات سے دوسری بات کی طرف نکل گیا ۔ یہاں تک کہ ناظر(ديکھنے والا) کو موردآیت (بنائی ہوئی)کے ساتھ عدم مطابقت (کسی امر کا دوسرے کے مطابق نہ ہونا)سے تعجب(حيرانگی) ہوتا ہے۔ ابوحیان نے کہا کہ رازی نے اپنی تفسیر میں نحوی(جملوں کا علم) باتیں۔ جن کی علمِ تفسیر میں حاجت (ضرورت)نہیں۔ بکثرت لمبی چوڑی بھری میں ۔ اسی واسطے بعض علماء نے کہا  کہ اس کی تفسیر میں سب کچھ ہے۔ لیکن قرآن کے معنی نہیں ۔

اس بدعتی (مذ ہب ميں کوئی نئی بات نکالنے والا)کااور کچھ ارادہ نہیں ہے۔ مگر یہ کہ آیتوں کو تحریف (بدل دينا)کرے۔ اور اپنے فاسد(بگڑا ہوا) مذہب کے برابر بنا ئے۔ اس طرح سے کہ جب اس کو کوئی دُور سے دوڑتا ہوا وہم نظر آگیا۔ تو اُسی کے درپے ہو لیتا ہے۔ یا کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں ذرا کھڑا ہو سکے۔ تو اُدھر ہی دوڑ پڑتا ہے۔ یہی حال ان سب نیچریوں (سيد احمد کے پيروکار)کا ہے۔ آپ قرآن کے تابع نہیں ہوتے ۔ مگر قرآن کو اپنے تابع کرتے ہیں اور اپنے ذہن میں کچھ مذہب کہیں سے لا کے قائم کر لیا ہے۔ اس کے موافق قرآن کو بناتے چلے جاتے ہیں۔ فی الحقیقت تفسیر نیچری انہیں دو چار لفظوں سے گر جاتی ہے کہ وہ قرآن کی اصلی وضع(ساخت) کے خلاف ہے۔

چوتھااحمد

مزرا غُلام احمد ہیں۔ وہ احمد سیوم کامذہب رکھتے ہیں۔ اور احمد دوئم کی روش پر چلتے ہیں اور قرآن و حدیث کو نہ بسمت انبیاء  اور نہ  بسمت فلاسفہ مگر  بسمت دریائے خبط کھینچ رہےہیں۔ اور احمد چہارم رہنا نہیں چاہتے ۔ احمد اوّل بننے کا اشتیاق  (شوق)ہے۔ اسی لئے قرآن میں ہاتھ ڈالا اور اسمہ احمد وہاں سے اپنے لئے نکالا ۔جو سابق کے کسی احمد کو نہ سوجھی تھی۔ ابھی کیا کوئی دن میں احمد بلامیم اپنا نام رکھیں گے۔ کیونکہ صوفی بھی ہیں۔ اور ابھی دیکھ لو وہ کہتے ہیں  کہ خُدا نے مجھ سے کہا (اے مرزا تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں) گویا مرزا خدا سے پید اہوئے۔ اور خدا مرزا سے پیدا ہواہے۔ اگر کچھ اور مطلب ہو تو ان کے ذہن میں ہو گا عبارت کا مطلب یہی ہے اور اگر یہ ذو معنی(جس کے دو مطلب نکلتے ہوں) کلام ہے تو ایسی ذومعنی کلام بولنا جس کے ایک معنی سے خدا کی تحقیر(بے حُرمتی) ہو بے ایمان آدمی کا کام ہے۔

Leave a Comment