The excuse of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani
By
Thomas Howell Bashir
تھامس ہاول بشیر
Published in Nur-i-Afshan Sep 21, 1894
نور افشاں مطبوعہ۲۱ستمبر۱۸۹۴ ء
سب پر روشن ہے کہ مرزا قادیانی کی وہ پیشین گوئی کہ جس کے پردہ میں آپ نے امرتسری مباحثہ میں مسیحیوں کی فتح یابی کو بزعم خود پندرہ ماہ کے عرصہ تک کسی قدر پوشیدہ کر کےاپنی محمدیت کے بچاؤ کی سُوجھی تھی سو پندرہ ماہ پورے ہونے پروہ پیشین گوئی ۶ ستمبر ۱۸۹۴ء کو چیربول گئی۔ نہ تو مرنے کو اللہ جلشانہ(بڑی شان والا) کی مدد ملی نہ اُن کے کہنے کے موافق آسمان ٹل گئے اور نہ سورج تکمیلِ پیشن گوئی کے لئے ٹھہرا جیسا کہ مرزا گپ ہانکا کرتے تھے بلکہ مرزا ئی جُھوٹ سب پر فاش (ظاہر)ہو گیا اور دعویٰ مماثلت و مسیحائی مبدل بد جال کذاب ثابت ہوا۔ اور جو انسان ظالم کی عادت ہوتی ہے کہ باوجود دیکھنے کے نہیں دیکھتا اور باوجود سمجھنے کےنہیں سمجھتا اور باوجود سننے کے نہیں سنتا اور اپنے قصور پر قصور شوخی پر شوخی بڑھاتا کر تا جاتا ہے۔ آخر کار وہی کچھ مرزا قادیانی سے بھی ظہور میں آیا ۔ چنانچہ آپ کا ۹ تاریخ کا شائع کیا ہوا پرچہ فتح اسلام ( برعکس نہ ہندنام زنگی کا فور ) ہماری نظر سے بھی گزرا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اور بھی اپنی گت (مار پيٹ)اپنے ہی ہاتھوں سے بسبب وہی تباہی و کچی حیلہ سازیوں کے بنا ڈالی۔ اور ایسے ایسے بہانوں سے انہوں نے اپنے تئیں دانشمندوں کے رو برو زیادہ تر دروغ بے فروع کا مصداق(گواہ) تو کیا بلکہ دروغ بے فروع کا مجسم پتلا و حیلہ سازو مکاروں کا باپ ثابت کر دیا ہے۔ اب آپ کے بہانہ پر غور کیجئے ۔
آپ لکھتے ہیں کہ ہماری پیشین گوئی کے دو حصے تھے بھلا مرزا جی دو چار دن پہلے کیوں نہ کہہ دیا کہ ہماری پیشین گوئی کا فلاں حصہ پورا ہونے والا ہے۔ خیر چُوک(غلطی ہونا) گئے اب بھی کسی کانے لنگڑے کو گواہ بنا ليجيےورنہ مولوی نور الدين و غلام قاسم تو حاضر ہوں گے انہیں سے بالک دلا دیجئے ۔
پھر آپ لکھتے ہیں۔ اُن کی ( آتھم صاحب کی نسبت الہامی فقرہ یعنی ہاديہ کے لفظ کی تشریح ہم نے یہ کی تھی کہ اُس سے موت مراد ہے‘‘۔دروغ گو را حافظہ نہ باشد حضرت آپ نے تو يہ لکھايا تھا وہ فریق جو خُدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائےموت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اُٹھانےلئے تیا رہوں ‘‘۔ پھر ہاویہ کے لفظ کی تشریح کی کیا ضرور ت ۔ یہ تو لغات سے سب پر روشن ہے کہ ہاویہ ساتویں دوزخ کا نا م ہے ۔ جو سب سے اسفل (نہايت نيچا)ہے۔ اس سے تو آپ کے دل دماغ کا موازنہ ہوا کہ آپ کیسے شخص ہیں۔ مگر وہ رُوسیاہی (منہ کالا) جو آپ نے اپنے ہاتھوں حاصل کی وہ جُوں کی تو ں ہی بنی رہی۔ پھر آپ لکھتے ہیں ۔ ’’ کہ اب ہمیں خُدا تعالیٰ نے اپنے خاص الہام سے جتا دیا ‘‘۔ واہ مرزاجی کیا خوب الہام بھی خاص و راس ہوا کرتے ہیں۔ کیا وہ الہام آپ کا خاص نہ تھا کہ جس میں آپ نے کہا تھا۔ ’’کہ اگر یہ پیشین گوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظہور نہ فرماتی تو ہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے‘‘۔ اور یہ کہ ’’ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سُولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔ ‘‘ اغلباً یہ خاص الہام آپ کو سب ذلتوں و لعنتوں کے پڑنے کے بعد اب ملا ہے۔ اور وہ جوتھا سو یاروں کو دام نزویر میں صرف پھنسانے ہی کے لئے جال تھا کوئی خاص الہام نہ تھا۔ واہ کیسے موقع پر آپ کے خُدا کو اب خاص الہام دینے کی سوجھی جب کہ صدائے نفرین و لعنت و ملامت (پُھٹکار)آپ کے نام پر چہار طرف سے بآ واز دُہل آپ کے گلے کا ہار ہو کر آسمان تک پہنچ چکی تب آپ کو الہام ہوا ۔
بھلا صاحب یہ خاص الہام آپ کو پہلے کیوں نہ ہوا کیا خُدا آپ سے کچھ ناراض تھے ۔ پھر اب اس خاص الہام کا کیا ( اعتبارشاید یہ بھی اُس پہلے کی طرح کہ جس میں آپ نے لکھایا تھا۔ (وہ فریق جو خُدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں مجھ کو پھانسی دی جائے ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں ۔ اور میں اللہ جلشانہ (بڑی شان والا)کی قسم کہا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا ضرور کرے گا زمیں آسمان ٹل جائیں پر اُسکی باتيں نہ ٹليں گی اگر میں جُھوٹا ہوں تو میرے لئے سُولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو ۔ خاص نہ ہو اور جھوٹا نکلے ۔ پھر کیا کیا جائے کیونکہ اگلا قرضہ مقبولہ خود آسمانی فیصلہ سے جب کہ مرزا جی کے ذمہ ہنوزباقی ہے دیگر کا کیا اعتبار کہ ہم پھر نئی ادھار چڑھا کر خود دیوا لیہ بنیں ۔ بہر حال مرزا جی کا وہ الہام دو امروں سے خالی نہ ہو گا یا تو یہ کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کو منظور تھا کہ مرزا گو ایسا الہام دیا جائے کہ جس سے مرزا ہر طرح کی سزا اُٹھائے ذلیل کیا جائے رو سیاہ کیا جائے رسہ آپ کے رو برو رکھا جائے کہ خود بخود اپنے گلے میں ڈالنے کی نوبت تک پہنچے تب خاص الہام دیا جائے ۔ دوم ایسا جھوٹا الہام خُدا کی طرف سے آپ کو نہ آگے ہوا اور نہ اب صرف بہانہ بنا کر اپنے منہ پر کی سیاہی جو مہندی رنگے مکھڑے پر و سمہ(خضاب) کا رنگ دے رہی ہے الہام الہام پکار کردھونا چاہتے ہیں جو دُھل نہیں سکتی ۔ غرض کہ اس دروغ (جُھوٹ) بے فروغ نے آپ کے الہام کو اُس بل میں واپس گھُسا دیا ہے کہ جس سے وہ نکلاتھا۔ لہذا اللہ کا نام اس میں لینا اب بے جا ہے۔ شیطان کا نام آپ جتنی بار چاہیں اپنے الہام کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں کیونکہ اس میں مرزائی مماثلت; بھی محمد صاحب کے ساتھ خوب پھبتی ہے۔ دیکھو سورہ حج ۷ رکوع میں ہے وَماَاَرَسَلنَامِنرَسُولِوّلاَبَيِ اِلاَ اِذااتُمنٰی لقے الشيطٰنُ فِی اُمِنتہ اور نہیں بھیجا ہم نے پہلے تجھ سے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جس نفت آرزو کرتا تھا ڈال دیتا تھا شیطان بیچ آرزو اُ س کی کے اور یہ جو لکھا ۔’’ انہوں نے ( یعنی آتھم صاحب نے ) عظمت اسلام کا خوف اور وہم اور غم اپنے دل میں ڈال کر کسی قدر حق کی طرف رجوع کیا۔ اور نیک کام کے سبب وہ زندہ رہے‘‘۔
یادر کھئے کہ آتھم صاحب کے دل میں عظمت ِاسلام کے خوف کا نام تک نہیں اور نہ آئے گا وہ مرد خُدا پاک باز ہیں۔ آپ کے اسلام کو انہوں نے کب کاردّی کر چھوڑا ہو ا ہے۔ جیسا کہ اب بھی اُن کے اقوال و افعال سے اظہر من الشمس(سورج کی طرح ظاہر) ہے۔ البتہ لُچے او چکے بد معاش جو اس عرصہ میں ان کی جان کے خواہاں (خواہش مند)اور آپ کی پیشین گوئی کے پورا کرنے کے اوزاربن کر وقت بوقت خفیہ اُن کی گھات(داؤ) میں لگے رہتے تھے۔ وہ اُن سے بڑے استقلال و صبر (ثابت قدمی،برداشت)سے سب تکالیف و خرچ کثیر(بہت پيسہ خرچ کرنا) کی برداشت کر کے اپنی جان خون خواروں سے نقل مکان(ايک جگہ سے دوسری جگہ جانا) کر کے بچاتے رہے۔ اگر اسی کا نام آپ کے یہاں عظمت ِاسلام باقی رہا ہے تو لو یہ بھی ردّی گیا وہ مرد ِخُدا جُوں کا تُو ں آپ کا قافیہ تنگ(پريشان کرنا) کر نے کو موجود ہے۔ ابھی ذرا آگے تو آؤ کیا ہی عظمت ٹپک پڑتی ہے۔
پھر آپ لکھتے ہیں خلاصہ ’’ کہ تین دفعہ آتھم صاحب انکار کریں کہ پندرہ ماہ میں انہیں سچائی اسلام کا خیال عظمت و صداقت الہام نے گرداب ِغم(دُکھ کا بھنور) میں نہیں ڈالا وغیرہ ۔ تو ایک ہزار روپیہ امانت بضمانت ڈاکٹر کلارک صاحب و عماالدین صاحب کے پاس رکھ دیتے ہیں۔ اگر ایک سال میں وہ فوت ہو جائیں تو روپیہ مذکور ضامنوں (ضمانت دينے والوں)سے بلا توقف (دير کيے بغير)واپس مل جائے ۔ ورنہ اُن کا مالک ہو جائے ۔
ناظرين کو یاد ہو گا کہ مرزا مذکور روپیوں کی شرط اکثر لگاتار ہا ہے کہیں پانچ سو کہیں ہزار کہیں دس ہزار کی لیکن آج تک کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی ۔ اور نہ مانوں گا نہ مانوں گا تو آپ کے شیوہ (عادت)میں داخل اور ورد ِزبان ہی رہا ہے۔ آپ نے جب امرتسر مباحثہ میں پیشن گوئی لکھوائی تو اُس میں یہ شر ط قرار دی تھی۔ ’’ کہ میں ہر ایک سزا اُٹھانے کے لئے تیار ہوں ۔ مجھ کو ذلیل کیا جائے ۔ روسیاہ کیا جائے میرے گلے میں رسّہ ڈال دیا جائے ۔ مجھ کو پھانسی دیا جائے ۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سُولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو ‘‘۔ اور اب اُس شرط سے بڑھ کر ہزار روپیہ سو وہ بھی ضمانت پر امانت رکھنے کی آپ کو سوجھی ہے۔ سو اگر اپنی ذلت روسیاہی وغیرہ کے لئے بھی آپ اپنے یارو ں وغیرہ میں سے کئی ایک ضمانت میں عیسائیوں کے پیش کئے ہوتے تو آج کل جب کہ آپ صاف جھوٹے ثابت ہو چکے تھے۔ کہ آپ کا الہام و پیشین گوئی چربول گئے ۔ تو جیسے اب آپ سز ا کے خوف سے کترا کر بہانے جوڑنے لگے آپ کے شریف ضامن تو ایسا نہ کرتے اور نہیں تو معافی تو ہاتھ جوڑ کے مانگتے پر آپ خوب کھیل کھیلا کرتے ہیں داؤ کے پکے ہیں شیطان کی بھی کیا مجال جو آپ جیسا کر تب کر جائے۔
سُنيےمرزا جی پہلے آپ اپنی پہلی شرط تو پوری کریں پھر زاں بعد دوسری شرط کا نام لیں۔ اور وہ بھی اپنے ہاتھوں اسے پوری کیجئے ۔ کیونکہ بزرگ آتھم صاحب نے تو نہ آپ کو شرط لگانے کو فرمایا اور نہ آپ کی پیشن گوئی و شرط کو منظور کیا تھا۔ یہ تو آپ ہی نے خود بخود اپنے لئے تجویز کی تھی۔ سوا ب آپ ہی اس کو اپنے ہاتھوں پورا کر کے اپنے وعدہ کے سچے بن کر دکھائیں اور جب کہ آپ اپنے کہے کو ہی زیب نہیں دیتے تو اب آتھم صاحب کیوں آپ جیسے سے جو برقول خود ۔۔۔کے مصداق(گواہ) ہیں ذرا سی بھی توجہ مبذول(متوجہ ہونا) فرمائیں۔ اور یہ بھی یادرکھئے کہ جب کہ ہم مسیحی اپنے تئیں بہ رضائے خُداوند سپرد کر چکے ہیں ۔ موت سے کچھ خائف(خوف کھانے والے) نہیں بلکہ موت ہمارے نزدیک نفع اور وصالِ خُداوند(خُدا سے ملاقات) کا ایک دروازہ ہے تو ہم اُس کے نہ آنے کے لئے شرط ہی کیوں باندھیں ۔ اور اپنے ایمان کے خلاف کیوں کریں ۔ہمارے رات دن یہ ورد ِزبان ہے ’’ اے خُداوند اب تو اپنے بندے کو اپنے کلام کے موافق سلامتی سے رخصت دیتا ہے کیونکہ میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھی ‘‘۔