دشمن ِ عیسائیت

Eastern View of Jerusalem

The Enemies of the Christianity

By

kidarnath

کیدارناتھ

Published in Nur-i-Afshan Jan 4, 1894

نور افشاں مطبوعہ۴جنوری ۱۸۹۴ ء

ناظرين نور افشاں:ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے  ہيں۔اور دکھانے کے اور۔محمدی بھائی کتنے ہی زور شور سے دعوے کيوں نہ کريں۔کہ ہم خُدا وند يسوع مسيح کی حد سے زيادہ تعظيم(عزت)کرتے ہيں۔ليکن اُن کے ايسے لايعنی (فضول،بے ہيودہ)دعوے کو کسی دليل سے بھی تقويت نہيں پہنچتی۔اولاً قران خود اُن کو جھٹلا رہا ہے۔اور لا نفرق بين احدہِ۔يعنی نہيں فرق کرتے درميان کسی ايک کے بتلا رہا ہے۔ديکھئے يہاں صاف صاف کہا جاتا ہے۔کہ يسوع مسيح اور موسیٰ اور سيلمان وغيرہ نبيوں ميں کوئی تفاوت(فرق)نہيں۔

سب کے سب ايک ہی  سے ہيں  ۔پس شيخ احمد کوئيلم نو مسلم کا يہ قول۔کہ ہم مسلمان لوگ مسيح کی حد سے زيادہ تعظيم کرتے ہيں۔کئی وجہ سے باطل(جھوٹ)ہے۔اور انگريزی حکام کو دھوکھا دينے کے سوا ئے محض عاطل۔اولاًّ قران کی مندرجہ بالا تعليم کے خلاف ہے۔دويماًجملہ اہلِ اسلام محمد کو کُل انبيا پر فوقيت(برتری) ديتے ہيں۔اگر ہم  اپنے محمدی بھائيوں کا اس امر ميں ہندو بھائيوں کے ساتھ مقا بلہ کرتے ہيں۔تو اور ہی معاملہ نظر آتا ہے۔کيونکہ محمدی باوجود يہ کہ خُداوند يسوع مسيح کو نبی قرار ديتے ۔ليکن ساتھ ہی اُسے جھوٹا بھی ٹھہراتے۔ليکن ہندو بھائی اگرچہ اسے نبی نہيں کہتے۔پر تو بھی دھرماتما (نيک)کہنے ميں شک نہيں لاتے۔اس پر طرّہ(انوکھا) يہ ہے۔کہ ابھی تک محمديوں کو اتنا تک معلوم ہی نہيں ۔کہ محمد کا نسب نامہ اسمٰعيل تک دُنيا کے کسی حصہ ميں موجود نہيں۔نہ يورپ ميں،نہ ا يشيا ميں،نہ افريقہ ميں،نہ امريکہ ميں۔تو پھر کس برتے پر تتا پانی  مانگا(گرم جوشی دکھانا) جاتا ہے۔؟اگرچہ خُدا کا کلام ہم کو ڈنکہ کی چوٹ پکار پکار کر کہہ رہا ہے۔کہ ’’لونڈی کا بيٹا آزاد کے بيٹے کے ساتھ وارث نہيں ہو سکتا ہے۔لونڈی اور اُس کے بيٹے کو گھر سے نکال دو‘‘تو بھی اگر کسی صورت سے محمد صاحب کو اس کا کچھ سہارا کتب الہاميہ سے مل جاتا۔اُس وقت ہم اتنا مان لينے کو تيار ہو جاتے ۔جتنا کہ ابرہام کی دوسری بیوی قطورہ کی اولاد کو ۔مگر يہاں تو مطلع ہی صاف نظر آتا ہے۔

اس پر ہم اپنے محمدی بھائيوں کو ياد دلانا چاہتے ہيں کہ پنڈت ديا شنکر نسيم کے شعر کو ياد کريں                                   ؎

بھائی تھے جوش خوں کہا جائے

صدمہ ہوا درد سے کہا ہائے 

کيا منادی ميں سر ِبازار بحث کے وقت آپ لوگ ہندوؤں کو اپنی طرف نہيں ملا ليتے ہيں۔اور اُن کے توہمات کی تائيد ميں غل نہيں مچاتے ہيں؟اس کا جواب اکثر محمديوں کی زبان سے يہ نکلتا ہے۔کہ ہندو مسلمان بھائی بھائی ہيں۔پس محمديوں ہی کے اقرار سے اسلام عيسائيت کا دشمن ثابت ہو گيا۔اور اگر علمأ اسلام  اس کو عوام محمديوں کی جہالت قرار ديں۔تو ہماری عرض يہ ہے کہ احل لکم طعام الذين اوتو الکتاب۔کے خلاف کفار کا(بقول اسلام)دور سے ديا ہوا کھانا نوش ِجان فرمانا۔بازاری حلوائيوں کی پختہ پوری کچوری کھانا۔اُن کے لوٹے کا پانی چلوؤں سے پی جانا۔اور عيسائی کی ہاتھ کی دواتک نہ کھانا کيوں ہندوستان کے محمديوں ميں وبأ ہيضہ کی طرح پھيلا ہوا ہے؟۔اور اس بيماری کا سر چشمہ ان پڑھ محمدی نہيں۔بلکہ پڑھے ہوئے عالم فاضل۔

چناچہ محمديوں کے امام فن مناظرہ ابو المنصور دہلوی اپنی کتاب تنقيح البيان۔جواب تفسير القرآن مصنف سر سيد احمد خان صاحب ستارہ ہند کے صفحہ ۱۷۱ کی سطر بارہويں ميں لکھتے ہيں۔ کہ ’’اب طعام الذين اوتو الکتاب  کی تفسير مجھ سے سُن ليجئے۔کہ اس آيت ميں وصف اوتو الکتاب اس بات پر دلالت کرتا ہے۔کہ جو کھانا بحيثيت نزولِ کتاب اُن کے استعمال ميں ہےوہ کھانا تم کو بھی حلال ہے ‘‘۔ چو کفر از کعبہ برخيزدکجا ماند مسلمانی  ۔ليکن ہم مفسر صاحب سے پوچھتے ہيں ۔کہ کفار کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے ميں بحيثيت نزولِ کتاب کی شانِ نزول بھی بتلا ديجئے ۔ليکن اس کا جواب شايد آپ                 يا اور محمدی بھی ديں گے۔کہ ہندو مسلمان بھائی بھائی ہيں۔انگريزوں کے ہم مذہب عيسائی ہيں ۔ليکن اگر شيخ کوئيلم صاحب نو مسلم  کا دل اور زبان ايک ہی ہے۔تو ان بچارے ہندوستانی کروڑہا مسلمانوں کے کليجوں ميں ہاتھ ڈال کر عيسائيت کی دشمنی کو نکاليں۔اور فوراً امريکہ سے باتفاق رائے علمأ مکّہ ايک فتویٰ ہندوستان کے مولويوں کے نام روانہ فرمائيں۔کہ اہلِ کتاب کے ساتھ کھانا کھا کر اپنے بغض دلی (دل ميں حسد)کو نکاليں۔اور گورنمنٹ برطانيہ کی نظر ميں ثابت کر دکھائيں۔کہ ہم يا اسلام دشمن عيسائيت نہيں ہيں۔اب ہم قران کے ’’لانفرق‘‘کا جواب دے کر خُدا سے دعا مانگتے ہيں۔کہ پيارے باپ ہمارے محمدی بھائيوں کے دلوں سے اُس بغض کو ۔جو تيرے عزيز فرزند کی طرف سے ہو دور کر۔آمين۔

اب لانفرق کا  جواب يہ ہے۔کہ اگر حقيقت ميں نبيوں کے درميان کچھ فرق نہ  کرنا چاہيے۔اور اگر خُدا وند يسوؑع المسيح نبی سے بڑھ کر خُدا نہيں ہے۔تو ہماری سمجھ ميں نہيں آتا۔کہ طريقہ موجودہ کے خلاف اُس کے انسانی جسم ميں آنے کے ليے باپ کی ضرورت کيوں نہيں ہوئی۔پھر تمام قرآن ميں اور انبيأ کے گناہ لکھے ہوئے ۔يسوع مسيح کی کوئی بھی کمزوری اشارتاً يا کنايتاً کيوں نہ لکھ دی نہ پھر اگر اُس کی موت گناہ کا کفارہ نہ تھی۔تو قرآن ميں ما قتلوہ و ما صلبوہ پر کيوں زيادہ زور ديا گيا۔جب کہ اور نبيوں کی قتل و ايذا  سے چنداں انکار نہيں ہے۔

ان باتوں پر  لحاظ کرنے سے شبہ   پيدا ہوتا ہے۔

بقول مرزا نوشہ دہلوی

بے خودی بے سبب نہيں غالب

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

Leave a Comment