مسیح ابن اللہ۔ خدا۔ کفارہ۔ خاتم النبین ہے

Eastern View of Jerusalem

The Christ is son of God, God, Atonement and the seal of Prophets

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan July 9-15, 1873

نور افشاں مطبوعہ ۹۔۱۵جنوری ۱۸۷۳ ء

یہ  چاروں باتیں عیسائیوں کے عقیدہ کا ایک جزو  ہیں۔ اور بڑی  مشکل ہیں اور اس لئے ہندو و مسلمان  وغیرہ اس میں لغزش(خطا۔لرزش)  کھاتے ہیں ۔ اور اس پر معترض(اعتراض کرنے والا)  ہوتے ہیں۔ چند ر وز ہوئے  کہ اخبار منشور   محمدی  میں بھی ایک  مضمون  اسی بناء پر ایک شخص   مسمٰی  ملک  شاہ   نےتحریر   فرمایا ہے ۔ جو کہ  محض  اُن کی  ناواقفی اور   نافہمی   کا نیتجہ  ہے۔

اس واسطے میں ان امور  پر اپنی عقل  خُدا داد کے موافق  تحریر  کرتا ہوں تا کہ معترض(اعتراض کرنے والا)  اور  نیز متلاشیان(تلاش کرنےوالا)   دین عیسوی  کو اس کے سمجھنے  میں مدد ملے۔

ملک  شاہ  نے اپنے مضمون  کا آغاز  یوں  کیا ہے۔ کہ انجیل  کا حال نئی  تواریخ کی کتابوں سے معلوم ہوا  ہے کہ  یہ کتابیں مروّج(رائج)  اہل کتاب  بالکل  فاسد(خراب۔ناقص)اور نکمی  ہیں۔ چنانچہ   مسٹر کار لائل کہتے ہیں کہ ترجمہ انگریزی میں مطلب  بالکل فاسد  اور  باز ار  راستی  کاسد(ناقص۔غير خالص۔کھوٹا) ہے ۔ اور نُور کو   ظلمت میں اور  سچ کو دروغ (جھوٹ۔بہتان) پر فوقیت بخشتے  ہیں۔ اور علمائے لنکن نے بہ  در خواست  خود گزارش بادشاہ کو کیا  تھا کہ ترجمہ انگریزی  بائبل کا بہت خراب ہے۔ کہ بعض جگہ  بڑھایا گیا اور   بعض جگہ  گھٹایا گیا   اور بعض جگہ بدلا گیا ۔اور مسٹربراتن نے درخواست کی تھی کہ ترجمہ  انگریزی  بائبل  کا موجودہ انگلستان  غلطیوں سے پُر  ہے ۔اور مسڑ ہر جن نے کہا تھا کہ میں کمی  و بیشی   اور اخفائے مطلب  اور تبدیل مدعا کی کیونکر  سنددوں۔ غرض کہ انجیل مروجہ تمام  تغیر  و تبدل  (تبديلياں۔فرق)سے پُر  اور طا یر(اڑنے والا)  مطلب  سے بے پر ہے۔ پھر ایسی  انجیل کی رو سے عیسیٰ  کو خُدا کا بیٹا  کہنا ۔اور الوہیت   اُس کی ثابت  کرنی اور تمام  دُنیا کا پیغمبر  مبعوث (بھيجا گيا۔)کہنا باطل  وعاطل (جھوٹ۔بے اصل)  ہے ۔بلکہ   اُس میں بھی پایہ  ثبوت  کو نہیں پہنچتا ۔ عیسیٰ  نے تمیثلاً کہا ہو گا  کہ ایسا  عزیزو بر گزیدہ درگاہ کبریا  (خُدا کا ايک صفاتی نام۔فخر)ہوں کہ جیسا   بیٹا باپ  کو محبوب اور اُس کی طبع  (طبيعت۔مزاج)کو مرغوب(پسنديدہ)  ہوتا ہے ۔

 ملک  شاہ صاحب  معلوم نہیں کہ آپ نے کونسی   تواریخ  سے ثابت کیا ہے کہ انجیل فاسد اور  نکمی  ہے اس کا حوالہ  تو دیجئے  ۔ یہ ثبوت  اور حوالے جو آپ  نے دیئے  ہیں بالکل  فاسد اور نکمے  ہیں۔ اے  جامع  علم معقول(عقل ميں لايا گيا)  بہتر  ہوتا اگر آپ آغاز  ِمباحثہ  سے پہلے اور شروع  اعتراض سے پیشتر  علم منطق(ٹھيک  طور سے سوچنے کا علم) اور مناظرہ (بحث و مباحثہ)کا مطالعہ  کر لیتے۔  تا کہ آپ کو  اعتراض  کرنے اور ثبوت  دینے اور دلیل  کے پیش کرنے  کا ڈھنگ  یا د ہو جاتا۔ اور اس قسم کی فاش(ظاہر۔صريح)  غلطی  میں گرفتار   نہ ہوتے۔ چھوڑا  کہیں تھا اور جا پڑا کہیں۔  آپ کا دعویٰ ہے کہ انجیل  فاسد اور نکمی  ہے اور دلیل  اُس کی آپ یہ دیتے ہیں کہ مسٹرکارلائل یا کسی اور کے کہنے سے یہ ثابت ہے کہ اُس کا ترجمہ انگریزی بہت خراب ہے ۔

واہ صاحب  واہ  آپ ہی  انصاف  فرمائیں  کہ یہ دلیل  اسی قسم کی نہیں جیسا  کہ ہم کہیں قرآن  بالکل فاسد  اور نکما ہے۔ کیونکہ  اُس کا ترجمہ اُردو  بہت  خراب ہے۔ آپ کو معلوم نہیں کہ عیسائیوں  کا اعتقاد (يقين)اور ان کے عقیدہ کی بنیاد کچھ ترجمہ انگریزی  اور اُردو پر نہیں بلکہ  اصلی کتاب پر ہے۔اور نہ کوئی عیسائی ترجمہ کو الہامی کتاب رُوح القدس کی لکھائی ہوئی مانتا ہے  ہم جو کچھ دعویٰ  کرتے ہیں وہ اصل  کتاب کی نسبت  ہے نہ ترجمہ کی نسبت اور ترجمہ  کی خرابی  کچھ اصل کتاب  پر نقص  نہیں ڈالتی ۔ ترجمہ غلط  ہے تو غلط سے اُ س کی پابندی اور شہادت(گواہی۔ثبوت) وہیں  تک ہے جہاں  تک اصل کتاب کو معتبر  (درست)سمجھا جائے گا ۔

اور ابن ِ اللہ وغیرہ کا لفظ  یسوع  کی نسبت  ترجمہ میں ہی  مستعمل(استعمال)نہیں ہو ا بلکہ اصل کتاب  میں آیا  ہے اور ہم اصل  انجیل کے رو سے  ہی اُ س کو خُدا کا بیٹا  کہتے ہیں  اور اسی  سے اس کی الوہیت(خُدائی)وغیرہ  ثابت  کرتے ہیں ۔

بے شک  محمدی یسوع  کو ابنِ اللہ  کہنے  سے نفرت  کرتے ہیں اور اس پر  اعتراض  لاتے ہیں لیکن  یہ ان کی غلطی  ہے۔

 ہم یسوع  کو جسمانی  طور پر خُدا کا بیٹا  نہیں کہتے  جیسا  کہ ان کا خیال  ہے بلکہ ہمارا یہ عقیدہ  ہے کہ خُدا جوُ  رو سے  اور بیٹے  سے پاک ہیں  اور جو شخص  جسمانی  طور پر  اس کو خُدا کا بیٹا  قرار  دیتا ہے  وہ گنہگار  اور کا فر جہنمی ہے۔

اب انصاف  کو مد نظر  اور تعصب  (بے جا حمايت۔طرف داری)کو دُور فرما کر ملاحظہ فرما ئیں تا کہ آپ  کو تاہ فہمی(کم علمی) سے اس غلطی  اور دھوکہ میں پھنسے نہ  رہیں ۔ کہ ابن ِاللہ کل بائبل  میں چار  اشخاص  کی نسبت  مستعمل  (استعمال)ہوا ہے۔

 ۱۔ فرشتوں کی نسبت  دیکھو ایوب  کی کتاب  پہلا باب ۶ آیت جہاں لکھا ہے ایک دن ایسا  ہوا کہ بنی الر آئے کہ خُدا کے حضور حاضر ہوں ۔ پھر ۳۸ باب ۷ آیت کتاب  صدر جب صبح  کے ستارے ملکے گاتے تھے۔ اور سارے بنی اللہ خوشی کے مارے للکارتے تھے۔ اور اس لفظ  کا استعمال  فرشتوں کی نسبت اس واسطے ہوا ہے۔ کہ وہ آدمز اد کی مانند بہ تو  سل(ملاپ۔ذريعہ)  ماں اور باپ کے پیدا  نہیں ہوئے۔ بلکہ سارے  ایک ہی دفعہ خُدا کے حکم سے  مبعوث(بھيجے گئے) ہوئے ۔

 ۲۔ آدم کی نسبت  دیکھ لو قا کی انجیل تیسرا  باب ۳۸ آیت جس میں آدم کو  خُدا کا بیٹا  کہا گیا  ہے۔ اور اُس کا سبب بھی یہی ہے کہ وہ بغیر  ماں اور باپ  کے صرف خُدا قادر  مطلق کے حکم  سے پیدا ہوا ۔

 ۳۔ خُدا پرست لوگوں کی نسبت  بھی یہ  لفظ بائبل میں آیا ہے۔ جیسے اسرائیل اور افرائيم بلکہ اُن کو پلوٹھے بیٹے گیا  ہے دیکھو ( یرمیاہ  نبی  ۳۱ باب ۹ آیت ) اور مسیح  پر ایمان  لانے والوں کے لئے یہ لفظ مستعمل (استعمال)ہوا ہے۔ دیکھو انجیل (یوحنا  پہلا  باب ۱۲ آیت )لیکن جنہوں  نے مسیح  کو قبول  کیا اُس نے  انہیں  اقتدار(اختيار۔مرتبہ)  بخشا  کہ خُدا کے فرزند  ہوں۔ یعنی انہیں  جو اُس کے نام پر ایمان  لاتے ہیں۔ پھر یوحنا  کا پہلا  خط  تیسر ا باب پہلی آیت  دیکھو۔ کیسی  محبت  باپ نے ہم سے کی کہ ہم خُدا کے فرزند کہلائے ۔ اور( رومیوں  کا خط ۸ باب  ۱۴ آیت) جتنے خُدا کی رُوح  کی ہدایت سے  چلتے  ہیں وہی  خُدا کے بيٹےہیں۔

ان آیتوں  سے صاف معلوم   ہوتا ہے کہ خُدا کے بندوں کو بائبل  میں فرزندِ خُدا کہا گیا ہے اس کا سبب  یہ ہے۔ 

۱۔ کہ انہوں نے خُدا کی پاک رُوح کی تاثیر  سے نیا جسم حاصل کیا ہے اور

۲۔ کہ خُدا وند  یسوع مسیح  پر ایمان  لانے سے خُدا کے خاندان  میں شامل ہو ئے  جیسا  لکھا ہے ویسے  نہ لہو سے اور نہ جسم  کی خواہش  سےنہ مرد کی خواہش  سے مگر خُدا سے  پیدا ہو ئے  ہیں اور  فرزندوں کی  سی طبیعت  اور حق حاصل کیا۔

 ۳ ۔ خُدا وند یسوع مسیح کی نسبت ابن اللہ کا لفظ بائبل  میں آیا   ہے ۔دیکھو  لوقا  کی انجیل پہلا باب ۳۵ آیت وہ پاک  لڑکا  خُدا کا بیٹا کہلائے گا ۔ اور مرقس کی انجیل  پہلا باب  پہلی  آیت  خُدا  کے بیٹے  یسوع  مسیح کی انجیل کا شروع  ۔ یوحنا  کی انجیل  پہلا  باب ۳۴  آیت سو میں نے دیکھا  اور گواہی  دی کہ یہی  خُدا کا بیٹا  ہے۔ یوحنا  کی انجیل  ۶ با ب ۱۹ آیت ہم تو ایمان لائے اور جان  گئے کہ تو زندہ  خُدا کا بیٹا  ہے اور اس طرح کم سے کم ۴۵ دفعہ لفظ ابن اللہ کا بائبل  میں مسیح کی نسبت  آیا ہے لیکن ہم اسی پر اکتفا  کرتے ہیں۔ اب یہ سوال  ہے کہ خُداوند  یسوع مسیح کو ابن  اللہ کیوں کہا گیا  ہے سو اس کا جواب ہم انجیل  سے ہی تحریر  کرتے ہیں۔

 واضح ہو کہ  انجیل  مقدس  میں یسوع مسیح کو ابن  اللہ کہنے کے دو سبب  بیان ہوئے  ہیں ۔

 ۱۔ لوقا  کی انجیل  پہلا باب ۲۵  آیت۔ فرشتہ   نے جواب میں اُسے  يعنی مریم کو کہا  کہ رُوح  القدس   تجھ  پر اُتر  ے گی  اور خُدا  ئے  تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہو گا  اس سبب  سے وہ پاک لڑکا خُدا کا بیٹا  کہلائے گا۔

اس آیت  سے صاف معلوم  ہوتا ہے ۔کہ ہمارا  خُداوند  یسوع مسیح ابنِ  آدم ابن ِمریم خُدا کا بیٹا  کہلایا  اس واسطے  کہ اس کی پیدائش  رُوح القدس  سے  اور خُدا کی قدرت  کے سایہ سے   بغیر  باپ کے ہوئی۔

یعنی  وہ خُدا کی خاص  قدرت سے    پیدا ہو ا اس واسطے خُدا کا بیٹا کہلایا  ۔ دوسری  وجہ یسوع  کو ابن اللہ  کہنے  کی یوحنا  کی انجیل  میں مندرج  ہے دیکھو  پہلا باب ۱۴ آیت۔ اور کلام مجسم  ہوا اور  وہ فضل  اور راستی سے بھر پور ہو کے ہمارے  درمیان رہا اور ہم نے اس کا  ایسا  جلال دیکھا۔ جیسا  باپ کے اکلوتے  کا جلا ل۔اس آیت  کا بیان یوں ہے  کہ کلمتہ  اللہ جو ابتداء  میں تھا  ۔ اور خُدا کے ساتھ  تھا اور خُدا تھا  ۔ یعنی  ابن ِاللہ جو ذات الوہیت   کا دوسرا  شخص  ہے مجسم  ہوا یعنی  جسم  اختیار  کر کے یسوع مسیح میں رہا  اور اس کا  جلال اس میں ایسا  ظاہر  ہوا جیسا  باپ کے اکلوتے  کا جلال  اس سبب سے خُدا کے بیٹے  کہلائے ۔ یہ خاص  سبب ابنیت(فرزندی۔بيٹا ہونا)  کا صرف خُداوند یسوع مسیح میں موجود تھا  ۔اور وہی  اکیلا  انسان تھا ۔جس میں  الوہیت   (خُدائی)مجسم  ہوئی یعنی ابن  ِاللہ جو ابتداء  میں تھا خُدا کے ساتھ  خُدا تھا  اکیلا  اس میں رہا ۔، اس واسطے  خُداوند  یسوع مسیح خُدا  کا اکلوتا  بیٹا  کہلایا  ہے۔

نہ  اس لئے جیسا  کہ ملک  شاہ  صاحب  نے یہ کفر  کا کلمہ  کہا کہ خُدا کی تین  جُو رويں تھيں اور مسیح تیسری  جُو رو کا اکلوتا بیٹا تھا۔

یہ ساری باتیں الہامی  ہیں تقریر  میں نہیں  آسکتیں  اس کی سچائی  اُن معجزات سے ثابت ہوتی  ہے ۔ جو کہ اس سے  ظاہر ہوئے  اور نیز  اس کا سمجھنا  متعلق  مسئلہ  تثلیث   کے ہی انسان کو پوری  سمجھ  اس کی جب ہی آسکتی  اس کی سچائی اُ ن  معجزات  سے ثابت ہوتی ہے جو کہ اُس  سے ظاہر ہوئے اور نیز اس کا سمجھنا  متعلق  مسئلہ تثلیث کے ہے انسان  کو پوری سمجھ اس کی جب ہی آ سکتی  ہے جب کہ بیان ِتثلیث  کو وہ بخوبی  سمجھ لے۔

لیکن اس جگہ  اس کا بیان  موافق  انجیل کے ہوا کہ کس واسطے یسوع  کو ابن ِاللہ کہا گیا ہے تا کہ لوگ اس  کو بخوبی  سمجھ لیں۔ جھوٹھی تہمت  عیسائیوں پر نہ رکھیں  کہ وہ جسمانی طور  پر خُدا کا بیٹا ہے۔               باقی یہ ہفتہ آیندہ

مسیح کی الوہیت  کا بیان

 مضمون  سابقہ  میں خُداوند  یسوع مسیح  کے ابن  ِاللہ ہونے کا  ذکر تھا۔  اس میں اس کی الوہیت  (خُدائی)کا بیان اور اس کی  دلائل(ثبوت)  مندرج ہیں ۔ خُداوند  یسوع مسیح خُدا ہے اس کلام  کے سمجھنے  کے لئے یاد رکھنا  چاہیے۔  کہ خُداوند یسوع  مسیح ایک شخص  تھا جس میں دو  ذات موجود تھیں۔

 ۱۔ انسانیت

 ۲۔ الوہیت  ۔

 وہ پورا  انسان  تھا عین  اس طرح  جیسے  اور انسان  ہیں جسم اور رُوح سے بنا ہوا ۔ اس واسطے  وہ پیدا ہوا ۔ لڑکپن  سے پرورش  پائی۔ اور انسان کے موافق  کھاتا پیتا رہا اور کام  و کاج کرتا رہا ۔ اور علم میں بھی اس نے ترقی  کی اور آخر  مر گیا صرف ایک بات  میں وہ اور انسانوں سے فرق رکھتا تھا ۔ کہ وہ بالکل  بے گناہ تھا اور بے نقص  اور کامل انسان تھا اور اس میں الوہیت  موجود تھی۔ یہ الوہیت  انسانیت  سے مل کر یک ذات   اور متحد نہیں تھی بلکہ علیٰحدہ  اور حدی تھی  اور مسیح کو نجات کا کام  پور ا کرنے میں ہمیشہ  مدد دیتی رہی ۔یہ  الوہیت  اس میں اس طرح  موجود   نہ تھی ۔ جیسا  اس ملک کے بے دانتی  لو گ خیال کرتے ہیں  کہ ہر ایک  جیو(زندگی۔رُوح) میں خُدا  کی ذات موجود ہے۔ جیسا خُدا ہر جا موجود  ہو نے کے سبب سب جگہ اور سب جیومیں  ہے مسیح ميں  الوہیت  اس طور پر تھی کہ اس کی الوہیت اور انسانیت  دونوں ملکر  وہ ایک شخص بنا اور اس کے کام و کاج میں اور خیال  و گفتگو  میں الوہیت کی صفات ظاہر ہوئیں جس کا ثبوت  دیا جائے گا۔

مسیح خُداوند خُدا  مجسم تھا یعنی خُدا انسان کے پیرایہ  میں آیا۔ اور اس لئے اس کا ایک نام انجیل  میں عمانوائیل  ہے۔ جس کے معنی  ہیں ہمارے ساتھ  وہ پر میشر کا اُوتار تھا۔ یعنی اس میں پورا منش (مرد۔آدمی)کا اور پرمیشر  کا انس(طاقت۔توانائی) موجود تھا۔

ملک شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انجیل سے یہ بات  ثابت  نہیں ہوتی ۔ کہ خُدا کی ذات  اس میں  موجو د تھی یہ بات  غلط ہے۔ اس کا ثبوت  انجیل  میں بے شمار ہے کوئی شخص  جو انجیل  سے واقف  ہو اس بات سے انکار نہیں کر سکتا ۔چنانچہ  اس امر کا ثبوت  اور دلائل  چار حصّوں میں بیان کرتا ہوں۔

 ۱۔ انجیل  میں خُدا کا لفظ مسیح کی نسبت استعمال  ہواہے دیکھو یوحنا کی انجیل پہلا  باب  پہلی آیت  ابتدا  میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ  تھا ۔ اور کلام خُدا تھا ۔( رومیوں کا خط ۹ باب ۵ آیت )جسم کی نسبت مسیح بھی باپ دادوں سے ہوا جو سب کا خُدا ہمیشہ  مبارک ہے۔ (۱۔ تيِمتھيس کا ۳ باب ۱۶ آیت)  اور بالا  تفاق دینداری  کا بھید  بڑا  ہے یعنی خُدا جسم میں ظاہر کیا گیا۔ اور رُوح سے راست(درست۔موافق) ٹھہرایا گیا یہ کلام یسوع مسیح کی نسبت ہے۔ طِطُس( دوسرا  باب ۱۳  آیت) اور بزرگ خُدا اور اپنے بچا نے والے یسوع مسیح کے ظہور(ظاہر ہونا)  جلیل(اعلیٰ)  کی راہ تکے( عبرانیوں  کا خط پہلا باب ۸ آیت) بیٹے کی بابت  کہتا ہے کہ اے  خُدا تیرا  تخت ابد تک ہے راستی  کا عصا تیری  بادشاہت  کا عصا  ہے (یوحنا  کا پہلا  خط  ۵ باب ۲۰  آیت )ہم اس میں جو حق  ہی رہتے ہیں  یعنی  یسوع  مسیح میں  جو اس کا  بیٹا ہے خُدائے  برحق  اور ہمیشہ  کی زندگی  اور( یسعیاہ  نبی  کی کتاب ۹ باب  ۶ آیت )کہ مسیح اس نام سے کہلاتا  ہے عجیب  مشیر  اور خُدائے قادر ۔

۲۔ دلیل اس کی  الوہیت(خُدائی)   کی یہ ہے کہ خُدا کی صفات اُس کی نسبت  بیان ہوئیں ۔ اوّل  ازلیت(  یوحنا کی انجیل  ۱ باب  ۲ آیت) کلام ابتداء  میں خُدا کے ساتھ (  ۸ با  ب         ۸ا ٓیت   )یسوع  نے لوگوں کو کہا کہ پیشتر اس کے کہ ابراہیم  ہو میں ہوں(ميں ہی ہوں)۔    ( ۱۷  باب ۵ آیت )اور اے باپ تو مجھے اپنے ساتھ اُس  جلال سے جو  میں تیرے  ساتھ دُنيا کی پیدائش  سے پیشتر رکھتا تھا جلال دے( مکاشفہ پہلا باب   ۱۷۔ ۱۸ آیت) خُداوند یوں فرماتا ہے کہ میں الفا اور اومیگا  اوّل  اور آخر ہوں میں مُوا تھا   اور زندہ ہوں میں ابدتک زندہ ہوں۔

 ۲۔ بے تبدیلی ۔( عبرانیوں  کا خط  پہلا  باب ۱۱۔۱۲ آیت) وہ  نیست ہو جائیں گے  پر تو باقی ہے اور وہ سب پوشاک  (لباس۔کپڑے)کی مانند پُرانے ہوں گے اور وہ جل جائیں گے پر تو وہی ہے اور تیرے برس جاتے نہ رہیں گے  پچھلا کلام  مسیح کی نسبت۔

 ۱۳ باب ۸ آیت یسوع  مسیح کل اور آج ابد تک یکساں ہے۔

 ۳۔ ہر جامو جود ہونا۔ (یوحنا  کی انجیل  ۳ باب ۱۳ آیت) اور کوئی آسمان پر نہیں گیا سوائے  اس شخص  کے جو آسمان سے اُترا یعنی  ابن آدم  جو آسمان پر ہے ۔(متی کی انجیل ۲۸ باب ۲۰ آیت) مسیح نے اپنے رسولوں کو کہا دیکھو  میں زمانہ کے تمام ہونے تک ہر روز  تمہارے  ساتھ ہوں۔( ۱۸ باب ۲۰ آیت)جہاں دو یا تین  میرے نام  پر اکٹھے  ہوں وہاں میں ان کے بیچ ہوں۔

 ۴۔ سب کچھ جاننا ۔( یوحنا  کی انجیل ۲ باب ۲۳ سے ۲۵  آیت)  لیکن یسوع  نے اپنے تئیں  لوگوں پر چھوڑا اس لئے کہ وہ سب کو جانتا  تھا اور محتاج(حاجت مند۔ضرورت مند) نہ تھا کہ کوئی انسان  کے حق میں گواہی  دے کیونکہ وہ آپ جو کچھ اِنسان  میں ہے جانتا  ہے۔( مکاشفہ ۲ باب  ۲۳ آیت) ساری  کلیسیاؤں  کو معلوم  ہو گا کہ میں وہی  ہوں جو دلوں  اور گردوں  کا جا نچنےوالا ہے ۔ اور میں تم  ہر ایک کو تمہارے  کاموں کے موافق  بدلہ دُوں گا۔

 ۵۔  قادر مطلق  ہونا ۔ (مکاشفہ  پہلا  باب ۸  آیت) خُداوند  یوں فرماتا ہے کہ میں قادر  مطلق  ہوں( عبرانیوں  کا خط  ۱ باب ۱۲ آیت) اور وہ یعنی یسوع  مسیح خُدا کے جلال  کی رونق  اور اُس کی ماہیت(اصل۔حقيقت) کا نقش  ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت کے کلام  سے سبنھالتا ہے۔

 (۳ )قسم کی دلیلوں  سے یہ ظاہر  ہے کہ الوہیت  (شانِ خُداوندی)کے کام مسیح  میں اور مسیح  کے وسیلے  سے ظاہر ہوئے۔

 ۱۔ پیدائش  یوحنا کی انجیل  ۱ باب ۲ آیت  سب چیزیں  اُس سے موجود  ہوئیں ۔ اورکوئی چیز موجود  نہ تھی  جو بغیر  اس کے ہوئی ( ۱۰ آیت  اور ۱۷  آیت) کیونکہ اس سے ساری  چیزیں  جو آسمان  اور زمین پر ہیں دیکھی  اور اندیکھی۔  کیا تخت  کیا حکومتیں  کیا ریاستیں  کیا مختاریاں  پیدا کی گئیں ۔اور ساری چیزیں اس سے اور اس  کے لئے  پیدا ہوئیں۔ اور وہ سب سے آگے ہے اور اس سے ساری چیزیں بحال رہتی ہیں۔

 ۲۔ پر وردگاری کا کام مسیح کی نسبت بیان ہوا ۔ (عبرانیوں کا خط پہلا باب ۱۲ آیت )وہ یعنی  مسیح اس کے جلال کی رونق  اور ا س کی ماہیت(اصل۔جوہر)  کا نقش  ہو کے سب کچھ اپنی  ہی قدرت  سے سبنھالتا ہے۔( کلیسوں کا خط پہلا باب ۱۷ آیت )اور وہ یعنی  مسیح سب سے آگے ہے اور اس سے  ساری چیزيں بحال  رہتی  ہیں( متی کی انجیل ۲۸  باب  ۱۸  آیت )اور  یسوع  نے اُن سے کہا کہ آسمان اور زمین  کا سارا اختیار  مجھے  دیا گیا ۔

 ۳ ۔ موت و زندگی  پر اختیار ( یوحنا  کی انجیل  ۵  باب ۲ آیت)  جس طرح باپ مُردوں کو اُٹھا تا ہے اور جلاتا  ہے بیٹا  بھی جنہیں  چاہتا  ہے جِلاتاہے۔

 ۴ ۔ اختیار  قیامت ۔ (دُوسرا  کرنتھیوں کا خط  ۵  باب ۱۰ آیت  ) ہم سب کو ضرور ہے کہ مسیح کی مسند(تخت) عدالت  کے آگے  حاضر ہوں   تاکہ ہر ایک جو کچھ  ہم نے کیا ہے کیا  بھلا یا  بُر ا  موافق اس کے  پائیں۔  (متی کی انجیل ۲۵۔ ۳۱۔۳۲ آیت) جب  ابن ِآدم  اپنے جلال  سے آئے گا۔ اور سب پاک  فرشتے  اس کے ساتھ  تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا ۔ اور سب قومیں اس کے آگے  حاضر  کی جائیں گی۔ اور جس طرح گڈریا    بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا  کرتا ہے وہ ایک کو دوسرے سے جُد ا  کرے  گا  وغیرہ ۔

 ۴۔ دلیل (گواہی۔ثبوت)مسیح کی الوہیت  کی وہ  ہے جس سے یہ ظاہر  ہے۔ کہ خُدا کی بندگی  اور عبادت مسیح کو دینی  واجب ہے اور وہی گئی ہے۔

(یوحنا کی انجیل ۸ باب ۲۳  آیت )سب بیٹے کی عزت کریں جس طرح سے باپ کی عزت کرتے ہیں جو بیٹے  کی عزت نہیں کرتا باپ کی جسے اُس نے بھیجا  ہے عزت نہیں کرتا (فلپیوں  کا خط ۲ باب  ۹ اور ۱۰ آیت) اس واسطے خُدا ہی نے اسے  بہت سرفراز(سر بلند۔معزز) کیا اور اُس ایسا نام جو سب ناموں سے بزرگ ہے بخشا تا کہ یسوع کا نام لے آسمانی  کیا زمینی  کیا وہ جو زمین کے تلے ہیں گھٹنے ٹيکيں ۔(عبرانیوں کا خط پہلا باب ۶ آیت )اور جب پلوٹھے  کو یعنی یسوع  مسیح کو دنیا  میں پھر لایا تو کہا کہ خُدا کے سب فرشتے اُس کو سجدہ کریں ۔

(متی کی انجیل ۲۸ باب ۱۹آیت)تم سب قوموں کو شاگرد کرو اور  انہیں  باپ  اور بیٹے  اور روح القدس  کے نام سے بپتسمہ دو اور اس حکم  سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ  بیٹا  رُوح القدس   برابر ہیں (اعمال  کی کتاب ۷ باب ۵۹ اور ۶۰ آیت )ستفنس یہ کہہ کے دعا مانگتا تھا کہ اے خُداوند یسوع  میری (روح کو قبول  کر اے خُداوند  یہ گناہ  ان کے حساب  میں مت رکھ دُوسرا  کرنتھیوں  کا ۱۲ باب ۱۴ آیت خُداوند  یسوع مسیح  کا فضل اور خُدا کی محبت  اورروح قدس  کی رفاقت تم سبھوں کے ساتھ  ہو اس جگہ یسوع اور رُوح القدس اور خُدا سے برابر دُعا مانگی گئی۔

ان چار قسموں  کی دلیلوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خُداوند یسوع مسیح  کو انجیل میں خُدا  کہا گیا ہے۔ اور خُدا  کی صفتیں  اُس میں موجود  تھیں اور الوہیت   کا کام و کاج اس سے ظاہر  ہے۔ کہ خُدا  کی عبادت   اُس کو  دی گئی  البتہ  پہلی قسم کی دلیل  قطعی نہیں۔ کیونکہ  خُدا کا لفظ  سوائے یسوع  کے اور نبیوں  اور نیز حکام اور بعض  دیگر انسانوں کی نسبت  بھی بائبل میں مستعمل  ہوا ہے۔ دیکھو( یوحنا  کی انجیل ۱۰ باب ۳۵ آیت) جب کہ  اُس  نے  انہیں جن کے  پاس خُدا کا کلام آیا خُدا کہا  اور ممکن نہیں کہ کتاب  باطل  (جھوٹ)ہو۔( خروج  کی کتاب ۷ باب ۱ آیت ) خُدا نے موسیٰ  سے کہا کہ دیکھ میں نے تجھے فرعون کا سا بنا یا۔( ۸۲ زبور ۶ آیت)  میں نے تو کہا کہ تم الہٰ ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔ یہ کلام شیطان  کی نسبت  بھی مستعمل ہو۔( دُوسرا  کرنتھیوں  کا خط  ۴ باب۴ آیت)  اس جہاں کے خُدا نے  اُن کی عقلوں  کو جو بے ایمان  ہیں تاریک  کر دیا  ۔اگر  صرف یہی   دلیل  مسیح کی الوہیت   کی بائبل  میں ہوتی  ۔تو ہم کبھی اس کو  خُدا نہ کہتے  بلکہ ہم سمجھتے  کہ جیسا  اگلے زمانہ میں اُن لوگوں کو خُدا کہا گیا  جن کے پاس خُدا کا کلام آیا  اُسی طرح  خُدا وند  یسوع  مسیح کو رسولِ  خُدا ہو نے کے سبب خُدا کہا گیا ۔ لیکن مسیح  کی الوہیت  صرف  اسی ایک  کے اُوپر منحصر (انحصار )نہیں۔ اور  نہ اُس  کی الوہیت کی یہی خاص دلیل ہے بلکہ  یہ ایک چوتھا حصّہ اس کی الوہیت کی دلیلوں کا ہے۔ اور ان کے ساتھ ملکر  قطعی ہو جاتا ہے ہم نے بیان کیا کہ بائبل میں خُداوند  یسوع مسیح کو نہ صرف خُداکہا گیا  ہے۔ بلکہ خُدا کی صفات  اس میں ظاہر  ہوئیں۔ یہ کسی انسان  میں کسی  پیغمبر  میں کبھی ظاہر نہیں ہوئیں۔ اور یہ بھی بیان ہوا کہ خُدا کے کام یعنی وہ کام صرف خُدا  کر سکتا ہے جیسا  پیدائش اور پروردگاری موت و زندگی پر اختیار  اور قیامت  پر اقتدار اُسے  حاصل  تھا ۔اور سب  سے پیچھے  یہ بیان ہوا کہ وہ بندگی  اور عبادت جو صرف  خُدا کو دی گئی  اور جو اُسی  کو دینی  واجب تھی مسیح  کو دی گئی۔  اور اس کی نسبت  واجب  بیان ہوئی اب اس حال میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں سوائے اس  کے کہ بائبل میں جگہ جگہ  اُس کی الوہیت  کا بیان ہے ۔اور اس لئے ہر ایک شخص  پر جو انجیل کو الہامی  کتاب  جانتا ہے۔ اس کی الوہیت کا اقرار کرنا واجب ہے۔

 اس لئے مناسب ہے کہ ملک شاہ صاحب یا  اور کوئی ہمارا محمدی  دوست جو انجیل کے الہامی  ہونے کا قائل ہے۔ پیشتر  اس کے کہ مسیح کی الوہیت  سے انکار  کرے ان آیتوں کا ملاحظہ فرمائے یا اس کے  اُوپر  ثبوت  دے کہ یہ آیتیں  جو پیش ہوئیں اصل  انجیل میں مندرج  نہیں ہیں ۔ اگر ایسا  نہ کر سکے تو اُن کا الزام  جھوٹا اور باطل ہے اور ان کو یہ کہنا مناسب  نہیں کہ مسیح کی الوہیت  انجیل سے ثابت نہیں ہوتی۔

اب میں مسیح  کی الوہیت  کی گواہی  پیش کرتا ہوں۔ جو کہ ان لوگوں  پر بھی اثر  کرتی ہے جو کہ انجیل کے الہامی ہونے کے قائل (ماننا) نہیں اور صرف اس کو تواريخی   کتابوں کے موافق  سمجھتے   ہیں ۔وہ یہ ہے کہ مسیح خُداوند نے الوہیت  کا دعویٰ  کیا اور اپنے  کلام کے ثبوت  میں معجزہ ديکھايا۔  الوہیت  کا بیان پیشترمتفصل  ہو چکا  اب صرف بطور  یا داشت  کے ایک دو آیتیں  بیان کی جاتی ہیں ۔( مرقس کی انجیل  ۲ باب  ۵ آیت) یسوع نے کہا اے بیٹے تیرے گناہ معاف ہوئے یہ بات سن کر لوگ کُڑکُڑائے (زور سے بڑ بڑائے)اور بولے کہ خُدا کے سوا  کون گناہ معاف کر سکتا ہے۔

مسیح نے کہا (  ۱۰ آیت سے  ۱۲  )تک تا کہ تم  جانو کہ ابن آدم  زمین پر گناہوں  کے معاف کرنے کا اختیار  رکھتا ہے۔ میں تجھے  کہتا ہوں اے مفلوج  (فالج کا مريض)کہ اُٹھ اور کھٹولا اُٹھا کے اپنے گھر کو جا اور فی الفور(فوراً) وہ اُٹھا  اور اپنا کھٹولا  اُٹھا کے سب کے سامنے چلا گیا  سب دیکھ  کر دنگ(حيران)  ہو گئے۔( متی  کی انجیل ۱۸ باب ۲۰ آیت )کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر  اکٹھے ہو ں وہا ں   میں ان کے بیچ  میں ہوں  ۔(یوحنا کی انجیل ۱۸ باب ۵،۸ آیت )پیشتر  اس کے کہ ابراہیم ہو میں ہوں(ميں ہی ہوں) ۔ ( ۱۷ باب ۵  آیت) اے  باپ اب  تو مجھے اپنے ساتھ اس جلال سے جو میں دُنیا کی  پیدائش  سے پیشتر   رکھتا تھا  بزرگی دے۔( تیسرا باب ۱۳  آیت) کوئی  شخص  آسمان  پر نہیں گیا  سوائے اس کے جو آسمان  پر سے اُتر ا  یعنی  ابن آدم  جو آسمان  پر ہے ۔(یوحنا  کی انجیل ۱۰ باب ۲۵  آیت) میں نے تو تمہیں  کہا اور تم نے یقین نہ کیا ۔جو کام  یعنی  معجزہ  کہ میں اپنے باپ کے نام سے  کرتا ہوں یہ میرے گواہ  ہیں( ۵ باب ۲۶ آیت)  یہ کام جو میں کرتا ہوں یہ میرے گواہ ہیں کہ باپ نے مجھے  بھیجا  ہے۔( یوحنا  کی انجیل  ۱۰باب ۲۰ آیت) میں اور باپ ایک ہیں یہ سن کے یہودیوں نے کہا  کہ تو کُفر (خدا کو نہ ماننا۔بے دينی)کہتا  ہے ۔اور انسان  ہو کے اپنے تئیں  خُدا بناتا  ہے۔ ۳۳ آیت   ان آیتوں   سے صاف معلوم ہوتا ہے ۔کہ مسیح   نے الوہیت   اور اس کی صفات  کا دعویٰ  کیا۔  اور اس   کے ثبوت   میں معجزہ  دکھایا اب ہم جانتے ہیں   ۔کہ خُدا کسی  جھوٹے  یا فریبی   آدمی کو معجزہ   کر نے کی طاقت   نہیں دیتا  ۔اس لئے ضرور خُداوند  یسوع مسیح کے معجزے  صاف اس امر کو ظاہر  کرتے ہیں۔ کہ اس میں الوہیت  موجود تھی اور وہ الوہیت (خُدائی۔شانِ خُداوندی)کی صفات رکھتا تھا۔  اگر کوئی کہے  کہ وہ معجزہ  شیطان  کی مدد سے کرتا تھا تو یہ نہایت  ان کی  سمجھ کی غلطی  ہے کیونکہ  شیطان  کبھی   کسی  کو اپنی بادشاہت   دُور  کرنے کے لئے مدد  نہیں دیتا ۔اور مسیح  کے معجزے  اس قسم کے تھے کہ شیطان کی بادشاہیت  کو نیست  و نابود (فنا کر دينا) کرتے تھے ۔اس لئے ہر صورت سے خواہ انجیل کو الہامی مانو  یا اُس کو تواریخی  کتا ب  سمجھو۔ ثابت  ہے کہ خُداوند   یسوع  مسیح میں ذات و صفات  خُدا کی موجود تھیں  اب اگر  زندگی  باقی ہے تو آیندہ  اخبار میں اُن آیتوں کا ملاحظہ  کیا جائے گا جو بائبل میں ظاہر  اً مسیح کی الوہیت  کے خلاف معلوم ہوتی ہیں۔

Leave a Comment