The Christ Atonement of Sinners
By
Kidarnath
کیدارناتھ
Published in Nur-i-Afshan Nov 6-12, 1873
نور افشاں مطبوعہ ۶تا ۱۲نومبر۱۸۷۳ ء
۱۔ نبیوں کے کلام میں مسیح جابجا کفارہ کے طور پر بیان ہوا ہے۔ خاص کر یسعیاہ نبی کی کتاب میں دیکھو ۵۳ باب اور اُس کی ۴۔ ۵ ۔ ۶۔ ۸ ۔ آیت اس میں یوں بیان ہے یقیناً اُس نے یعنی مسیح نے ہماری مشقتین اُ ٹھالیں۔ اور ہمارے غموں کا بو جھ اپنے اُوپر چڑھایا ۔ پر ہم نے اس کا یہ حال سمجھا ۔کہ وہ خُدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہوا ہے۔ پر وہ ہمارے گناہوں کے سبب گھائل (زخمی)کیا گیا ۔اور ہماری بدکاریوں کے سبب کچلا گیا ۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اس پر سیاست ہوئی ۔تا کہ اس کے مار کھانے سے ہم چنگے ہو ں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے اور ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ سے پھرا اور خُداوند نے ہم سبھوں کی بدکاری اُس پر لادی ایذاؤ ں کے اور اُس پر حکم کر کے وہ اُسے لے گئے ۔ پر کون اُس کے زمانہ کا بیان کر ے گا کہ وہ زند وں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا ۔میرے گروہ کے گناہوں کے سبب اُس کو مار پڑی۔ اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرا ئی گئی تھی ۔پر اپنے مرنے کے بعد دولت مند وں کے ساتھ وہ ہوا کیونکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا ۔اور اس کے منہ میں کسی طرح کا چھل(فريب۔دھوکا) نہ تھا۔ لیکن خُداوند کو پسند آیا کہ اسے کچلے اُس نے اُسے غمگین کیا ۔جب اُس کی جان گناہ کے لئے گذرانی جائے تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا اور اس کی عمر دراز ہو گی ۔ اور خُدا کی مرضی اس کے ہاتھ کے وسیلے بر آئے گی اپنی جان ہی کا دُکھ اُ ٹھا کے وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنی ہی پہچان سے میرا صادق(سچا) بندہ بہتوں کو راستباز ٹھہرائےگا ۔ کیونکہ وہ ان کی بدکاریاں اپنے اُوپر اُٹھا لے گا۔
اور دانی ا يل نبی ۶ باب میں پیدائش مسیح سے چار سو نوے(۴۹۰) بر س پیشتر یوں کہتا ہے کہ بدکاری کی بابت کفارہ (گناہ دھو دينے والا)کیا جائے گا اور مسیح قتل کیا جائے گا پر نہ اپنے لئے۔
مسیح کےکفارہ ہونے کا ذکر انجیل میں بہت جگہ ہے۔ چنانچہ منجملہ اس کی چند آیتیں بیان کی جاتی ہیں افسیوں کا خط ۵ باب ۲ ۔ آیت جس میں پُولوس رسول یوں لکھتا ہے تم محبت سے چلو جیسا مسیح نے ہم سے محبت کی ۔اور خوشبو کے لئے ہمارے عوض میں اپنے تئیں خُدا کے آگے نذر اور قربان کیا ۔ پہلا کرنتھیوں کا خط ۵ باب ۳ آیت مسیح ہمارے گناہوں کے واسطے موا۔۱ ۔پطرس دُوسرا باب ۲۴ ۔ آیت وہ یعنی مسیح آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بدن پر اُ ٹھا کے صلیب پر چڑھ گیا ۔ تا کہ ہم گناہوں کے حق میں مر کے راستبازی میں چلیں۔ اُن کو ڑوں کے سبب جو اُس پر پڑے تم چنگے ہوئے۔ پہلا خط یوحنا ۲ باب ۲۔ آیت اور وہ یعنی مسیح ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے پر فقط ہمارے گناہوں کا نہیں بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی ۔ ۲ کرنتھیوں کا خط ۵ باب ۲۱ ۔ آیت اُس نے یعنی خُدا نے اُس کو جو گناہ سے نا واقف تھا ۔ ہمارے بدلے گناہ ٹھہرا یا تا کہ ہم اس میں شامل ہو کے الہٰی راستبازی ٹھہریں۔ رومیوں کا خط ۵ باب ۱۰ ۔ آیت خُدا نے اپنے بیٹے کی موت کے سبب ہم سے میل کیا ۔مکاشفات ۵ باب ۹ آیت تو نے اپنے لہو سے ہم کو ہر ایک فرقہ اور اہل ِزبان اور امت اور قوم میں سے مول لیا۔
اور خُداوند یسوع مسیح خود فرماتا ہے۔ کہ میں اپنی جان اپنی بھیڑوں کے لئے دیتا ہوں باپ مجھے اس لئے پیا ر کرتا ہے ۔کہ میں اپنی جان دیتاہوں۔تاکہ میں اسے پھير لُوں کوئی شخص اُسے مجھ سے نہیں لیتا پر میں اُسے آپ دیتا ہوں ۔ میرا اختیار ہے کہ اُسے دُوں ۔ اور میرا اختیار ہے کہ اُسے پھیر لوُ ں یہ حکم میں نے باپ سے پایا ہے۔ اس طرح بائبل میں جابجا ذکر ہے کہ مسیح گناہ کا کفارہ ہے۔
میں تعجب کرتا ہوں کہ باوصف(سليقہ) اس کے ملک شاہ صاحب کس طرح سے فرماتے ہیں کہ بائبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔
ہر ایک شخص ان آیتوں سے معلوم کر سکتا ہے کہ بائبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت ہے اور نیز ان آیتوں کی کسی اور طرح تفسیر نہیں ہو سکتی جس سے اس کے خلاف خیال دوڑ سکے ۔اس لئے مناسب ہے کہ ملک شاہ صاحب ان پر غور فرما کر یہ الزام عیسائیوں پر سے اُٹھالیں ۔کہ بائبل سے مسیح کا کفارہ ہونا ثابت نہیں۔
ملک شاہ صاحب کے واسطے تو اتنے دلائل(ثبوت) کافی ہیں۔ لیکن اس لئے کہ اور لوگوں کو کفارہ کے معنے اور خاصیت معلوم نہیں میں اس کی نسبت بیان کرتا ہوں۔ اور چند اور دلائل دیتا ہوں مسیح کے کفارہ کےمعنے اور خاصیت سمجھنے کے لئے پہلے ان باتوں پر غور کرنا واجب ہے جن کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
۱۔ سارے اِنسان گنہگار ہیں کوئی راستبا ز (سچا۔ايماندار)نہیں ایک بھی نہیں سب گمراہ(بے دين بدعتی۔متکبر) ہیں کوئی نیکو کار نہیں ایک بھی نہیں ۔ اس کلام میں محل اِنسان شامل ہیں ادنی فقیر امیر پیر پیغمبر بنی مرسل غرض کہ یہ کلام ہر فردِ بشر پر محیط (گھيرا)ہے۔
اور یاد رہے کہ گناہ دو قسم کے ہیں ایک عملی دُوسرا خیالی عملی گناہ تو وہ ہیں جو ظاہر ی عمل اور کام و کاج میں ہوتے ہیں۔ اور جس کو ہر ایک اِنسان دیکھ سکتا ہے۔اور خیالی وہ ہیں جو صرف خیال سے تعلق رکھتے ہیں ۔اور صرف اِنسان کے دل میں و سوسہ (انديشہ۔ڈر۔شک)انداز ہوتے ہیں جیسا کہ لالچ، غصہ ،طمع (حرص۔خواہش) خیالات ،فاسد(ناقص۔برباد۔تباہ) اور دیگر امورات مذموم(بُرا۔خراب) معلوم رہے کہ خُدا دل اور گُردوں کا جانچنے والا ہے۔ اور اس کے سامنے خیالی گناہ بھی ويسا ہی ہے جیسا کہ عملی۔ اور یہ دونوں اس کے حضور ہم پلہ(برابر) ہیں۔ اگر ان معنوں کو انسا ن مدنظر رکھے تو کسی کو اس سے یا رائے انکار نہیں ۔کہ کوئی شخص گناہ سے بری ہے کیونکہ اگر ظاہر ی گناہ سے احتراز(پرہيز۔کنارہ کشی) بھی کیا جائے ۔ تاہم ایسا کوئی فردِ بشر نہیں جو خیالی گناہ سے بچ جائے۔ پس انجیل کا وہ کلام کہ سارے اِنسان گنہگار ہیں عین سچ ہے۔
۲۔ خُدا ہمارا خالق مالک اور پروردگار ہے۔ اس نے ہمیں بنایا اور پیدا کیا اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اس کا ہے۔ اس واسطے ہم پر فرض ہے کہ ہم اس کی بندگی اور فرمانبرداری کریں ۔اور اس کی تابعداری بجا لا ئیں۔ اور اُس سے دل و جان سے محبت رکھیں۔ اور اس کی مرضی پورا کرنے کے لئے کوشش کریں۔ اگر ہم یہ فرض ادا نہ کریں تو ہم اس کے قصور و اراور گنہگار اور فرض کے قرض دار ٹھہرتے ہیں۔ اور سزا کے لائق ہوتے ہیں اس واسطے ہر ایک گنہگار اس کے حضور فرض اور فرمانبرداری کا دیندار ہے اور سزا کا سزا وار ہے۔
۳۔ یہ فرض کا دین اِنسان تو بہ کے وسیلے سے ادا نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ تو بہ ہماری طرف سے خُدا کی طرف واجب ہے۔ اگر واجب کو ادا کریں تو پچھلا دین ساقط(نکما۔گرا ہوا۔مسترد) نہیں ہوتا تو یہ پچھلی چیزوں پر اثر نہیں کر سکتی ۔ یہ صرف آئندہ سے تعلق رکھتی ہے مثلاً ایک قرضدار قرض اُٹھانے سے توبہ کرے۔ اور آیندہ [1]بلکہ قائم رہتا ہے۔ ہاں آیندہ کو وہ اس بوجھ سےسبکدوش(جس پر کوئی بوجھ نہ ہو) رہتا ہے ۔ایسا ہی اگر کوئی شخص بیوقوفی سے اپنے کسی عضو(بدن کا ٹکڑا۔جسم) کو کاٹ ڈالے اور آیندہ کو ایسے کام کر نے سے توبہ کرے ۔اور احتیاط عمل میں لائے۔ تو اس تو ہم کرنے سے وہ اُس کا عضو درست نہیں ہو جائے گا ۔گو آیندہ کو اُس کے دوسرے عضو سلامت اور محفوظ رہیں۔ اسی طرح اِنسان گنہگار جب اپنے گناہوں سے پشیما ن(شرمندہ) ہو کے توبہ کرتا ہے۔ اور گناہوں سے پرہیز اور کفارہ کرکے خُدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ تو اس سے اُس کے گناہ سابقہ زائل (دور۔کم) نہیں ہوجاتے۔ ہاں اس کی توبہ کا اثر اُس کی آیندہ زندگی پر ضرور پہنچتا ہے اس کے سابقہ گناہوں کی معافی کے لئے کوئی اور طریق یا کوئی اور وسیلہ ضرور ہے لیکن تو بہ علاج ناکارہ ہے۔
۴۔ ایک اور سبب ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گناہ توبہ سے معاف نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ ہے کہ خُدا عادل(انصاف کرنے والا) اور منصف ہے۔ اور اس کی عدالت اس کے ہر ایک کام میں ظاہر ہوتی ہے عدالت اس کی ذات کا ایک حصہ ہے اور اس کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ اور ہر ایک امر (کام۔فعل)میں اس کو ملحوظ (خيال۔لحاظ رکھنا)رکھتا ہے ۔عدالت اس امر کی مقتضی(خيال۔تقاضا کرنے والا) ہے ۔کہ ہر ایک گنہگار گناہ کے عوض میں سزا پائے ۔ اور ہر ایک خطا (غلطی)اور غفلت (لاپرواہی)کے عوض میں اس پر سزا کا فتویٰ صادر(نافذ) کیا جائے ۔اور وہ کسی شخص کو بری الذمہ نہیں کرتے۔ جب تک کہ وہ فرمانبرداری اور اطاعت ( جو اُس پر واجب ہے خُدا کی طرف ادا نہ ہوئی ہو البتہ یہ ضرور ہے کہ خُدا بڑا رحیم ہے اور رحیمی کی صفت اس میں موجود ہے۔ لیکن یہ رحم اُس کا عدل(انصاف۔برابری) کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اور جب تک اُس کی عدالت کا حق پور ا نہ ہو تب تک وہ رحم گنہگار وں کی بخشش اور نجات میں ظاہر نہیں ہوتا ۔ پس پھر کیونکر توبہ گناہوں کی معافی کا وسیلہ ہو سکتی ہے۔
۵۔ بصور ت ہائے مسبوق الذکر یعنی جب کہ خُدا کی بندگی اور فرمانبرداری اور اُس کے احکام اور شریعت کی اطاعت ہم پر [2]
فرض اور واجب (لازمی)ہے۔ اور ہم بالخلقت گنہگار اور مصیبت پر ور دہ ہیں۔ اور کسی صورت سے ہم اُس کے فرض کو ادا نہیں کر سکتے ۔اور توبہ ہماری نجات کا وسیلہ نہیں ہو سکتی اور نہ ہمارے پچھلے گناہوں کو معدوم (مٹايا گيا۔فنا)کر سکتی ہے ۔اور اُس کی عدالت ہماری نسبت سزا کا فتویٰ صادر(نافذ) کرتی ہے۔ اور ہمارے لئے کوئی صورت برتيت کی نہیں۔ اور ہم نہایت نااُمیدی اور ياس کی حالت میں ہیں۔ تو ضرور تھا کہ کوئی اور طریقہ ہماری نجات کا ہوتا جس سے خُدا کا رحم بھی ظاہر ہوتا اور اس کا عدل(انصاف) بھی قائم اور برقرار رہتا۔
پس خُدا نے ایسے بے حد رحم کو کام میں لاکر اپنی لاتعداد حکمت سے ہمارے لئے ایک طریقہ نجات کا نکالا۔ جس سے اُس کی عدالت میں بھی کچھ فرق نہیں آیا وہ یہ ہے ۔کہ خُداوند یسوع مسیح کو ( جو ابن اللہ تھا ) اس دُنیا میں بھیجا اور اُس نے پیرا يہ اِنسانيت میں آکر ۳۳ برس تک دُنیا میں زندگانی بسر کی اور آخر کو اُس نے گنہگار وں کا ضامن بن کے اور اُن کے عوض میں آپ سزا اُٹھا کے خُدا کی شریعت کو پورا کیا اور سار ا حق اُس کی عدالت کا پہنچایا ۔ یعنی وہ پوری اور کامل فرمانبرداری جو اِنسان پر خُدا کی طرف واجب (لازمی)تھی ۔ یسوع مسیح نے اِنسان کا ضامن(ضمانت دينے والا) ہو کر پوری کی۔ اور آخر ش (انجام کار)اُس نے اپنی جان اِنسان کے عوض میں صلیب پردی ۔اور آپ بے گناہ ہو کر اُ س نے گنہگار وں کی سزا اپنے سر پر اُٹھائی۔
اور یہی امر یعنی ( یسوع کا اِنسان کے عوض میں خُدا کی فرمانبرداری اُٹھانا اور گناہ کی سزا کا اپنے اُوپر برداشت کرنا) کفارہ کہلاتا ہے جو شخص اس کفارہ پر ایمان لاتا ہے وہ گناہ کی سزا سے بچ جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ سزا اور سیاست جو اُس پر لازم تھی اُس نے پوری کی۔
اب عدالت بھی برقرار رہی۔ اور اُس کا رحم بھی با ظہور (ظاہر ہونا)آگیا ۔اور اِنسان کو نجات کی اُمید ہو گئی۔ یہی ایک طریقہ نجات کا ہے جس کا ذکر اُوپر ہوا اور جو انجیل سے ظاہر ہے۔
اب واضح رائے زرین ناظرین ہو کہ اس طریقہ نجات ( یعنی کفارہ پر ) دو اعتراض لازم آتے ہیں۔
( اوّل یہ ) کہ ایک آدمی کی موت سے کس طرح بہتوں کی معافی ہو سکتی ہے۔ خُداوند یسوع مسیح اکیلا گنہگار وں کے عوض میں صلیبی موت اُٹھا کر کفارہ ہو ا۔ اس ایک کفارہ سے ساری دُنیا کی نجات کس طرح ہو سکتی ہے ایک آدمی کے عوض میں ایک ہی بچ سکتا ہے نہ کہ کل دنُیا۔
اس کا جو اب یہ ہے ۔ کہ خُداوند یسوع مسیح عام اِنسانوں کے موافق اِنسان نہیں تھا ۔بلکہ اس میں الوہیت تھی ( یعنی ذات و صفات خُدا کے ) موجود تھی۔ اور اس الوہیت کے سبب جو کچھ کام و کاج اُس نے جامہ اِنسانی میں کیا ۔اُس میں الوہیت کا اثر پہنچا اور اُ س کے درجہ اور صفت نے اُس میں تاثر کیا ۔اس لئے جب مسیح نے اِنسان کے عوض میں فرمانبرداری اور موت اُٹھائی۔ تب اس کے احکام میں بھی درجہ الوہیت کا پہنچا ۔ اس لئے مسیح کی راستبازی بے حد راستبازی تھی ۔اُس کی موت کا اثر بھی بے حد ہے وہ پورا اور کامل اور بے نقص اور سب سے بڑھ کر انسا ن تھا یا یہ کہیں کہ وہ ایک بڑی قدر و منزلت کا اِنسان تھا۔ اور اُس میں الوہیت بھی موجود تھی ۔اس لئے اُس کی جان گرامی ساری دُنیا کا کفارہ ہو سکتی ہے۔ اور اُس کی ایک جان تما م جہان کے عوض کافی خیال کی جا سکتی ہے بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ اُس کی قیمت اُس سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ اُس کا مرتبہ بے حد ہے۔
( دُوسرا اعتراض ) اس بیان سے بے انصافی ظاہر ہوتی ہے کہ گناہ اور اِنسانوں نے کیا اور سزا مسیح نے اُٹھائی اس سے خُدا کا انصاف قائم نہیں رہتا کہ کرے کوئی اور بھر ے کوئی۔
اس کا پہلا جواب یوں ہے اس سے خُدا کی بے انصافی ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ مسیح نے اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے یہ سزا بعوض گنہگار وں کے اپنے اُوپر اُٹھائی ۔دیکھو یوحنا کی انجیل جس میں مسیح خُداوند خود فرماتا ہے کہ میں اپنی جان بھیڑوں کے لئے دیتا ہوں میں اپنی خوشی سے اُسے دیتا ہوں کوئی اُسے مجھ سے نہیں لیتا مجھ کو اختیار ہے ۔کہ میں اُسے دُوں یا پھیر لُو ں وہ آپ اِنسان پر رحم کھا کر گنہگار وں کا ضامن بنا ۔ اور اُن کے عوض میں اُس نے خود گناہ کی سزا اپنے سر پر اُٹھائی اس حال میں کیونکر خُدا بے انصاف ہو سکتا ہے ۔
( ۲ جواب ) یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کے عوض میں دُوسرا سزا کا سزا وار ہو ۔دیکھو دُنیا کا عام و طيرہ (دستور)ہے کہ ضامن اپنے اصل مجرم کے عوض میں ماخوذ (اخذ کرنا)کیا جاتا ہے۔ اور خُدا کے انتظام میں تو یہ عام ہے اور اُس کی پروردگاری کے کام میں ہم اکثر دیکھتے ہیں۔ کہ ایک شخص دوسرے کے عوض جس سے اُس کا کچھ تعلق ہو سزا اُٹھاتا ہے۔ دیکھو باپ حرامکاری کرتا ہے اور اُس کی بیماری کا اثر بیٹے پر پہنچتا ہے اور وہ آتشک(ايک جنسی بيماری) کی بیماری سے مرتا اور جلتا ہے ۔باپ بدکاری میں اپنے جسم کو کمزور کرتا ہے اور اُس کا عذاب اُس کی نسل پر پڑتا ہے ۔ دیکھو گناہ آدم سے بظہور آیا اُس کے عوض میں اُس کی تمام نسل کو بہشت سے محروم رکھا گیا ۔تاہم ہم خُدا کو بے انصاف نہیں کہہ سکتے ۔ یہ سب پروردگاری کے انتظام ہیں اُس میں ہم نقص نہیں نکال سکتے۔ پس جب اس میں نقص نہیں نکال سکتے تو ہم پر واجب ہے۔کہ ہم نجات کے کام میں بھی نقص نہ نکالیں بلکہ ہمیں واجب ہے کہ ہم اس کے مطابق پروردگار ی کے کاموں کو قبول کر لیں۔