کتابِ مقدس اور قرآن

Eastern View of Jerusalem

The Bible and Quran

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan January 15, 1891

نور افشاں مطبوعہ۱۵ جنوری۱۸۹۱ ء

کُتب ِمقدسہ سابقہ اور قرآن میں تاریخی واقعات کا اختلاف کہاں تک بیان کیا جائے۔ اگر کوئی حق جو مقدس بائبل اور قرآن میں اگلے نبیوں کے حالات و واقعات بغور اوّل سے آخر تک پڑھے تو وہ ضرور یہی نتیجہ نکالے گا۔ کہ اگر مقدمہ الذکر( جس پر  دعویٰ   پيش کيا ہو)  کُتب الہامی ہیں تو موخر الذکر (جس کا ذکر بعد ميں آ يا) کتا ب ہر گز الہامی( خدا  کی طرف سے)  نہیں ٹھہر سکتی چنانچہ یوحنّا (یحٰیی ) کی پیدایش کا بیان جو لوقا کی انجیل کے پہلے باب میں لکھا گیا ہے۔ یوں ہے کہ جب جبرائیل فرشتے نے یوحنّا کی پیدایش کی خبر زکریاہ کو دی اور ’’ میں اس کو کس طرح جانوں ؟کیوں کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بيوی   عمر رسیدہ ہے ۔ فرشتے نے جواب دیا کہ میں جبرائیل ہوں جو خدا کے حضور کھڑا رہتا اور بھیجا گیا ہوں کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے ان باتوں کی  خوشخبری  دُوں اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہو لیں تو چپکارہے گا اوربول نہ سکےگا۔ اس لئے کہ تو میری باتوں کاجو اپنے وقت پر پوری ہوں گی یقین نہ کیا ‘‘( دیکھو لوقا۱۸:۱۔۲۰ )پس زکریاہ اُس وقت سے گونگا ہو گیا اور جب کہ یوحنّا پیدا ہو ا اور زکریاہ نے اُس کا نام تختی پر لکھ دیا تب اُس کی زبان کھلی اور وہ بولنے اور خدا کی ستائش کرنے لگا۔ لیکن قرآن میں لکھا ہے کہ جب زکریاہ نے کہا کہ ’’ اے رب کر دے کوئی نشانی خدا نے کہا نشانی تیری یہ ہے لا تکلم الناس لیال سویا یعنی تو تین دن رات لوگوں سے بات نہ کر سکے گا ( دیکھو سور ہ مریم ) دیکھئے الہامی کلام اور انسانی سُنی سنُائی بات میں آسمان و زمین کا فرق ہے ۔ معلوم نہیں کہ زمانہ حال کی نئی تعلیم و روشنی والے محمدی جو کتب مقدسہ اور قرآن کی نئی نئی خیالی تفسیریں کر رہے ہیں ان دو بیانوں کو کیونکر مطلب کریں گے۔

Leave a Comment