میں اِ س لیے آیا ہوں

Eastern View of Jerusalem

That’s why I came

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Noor-e-Afshan Feb 15, 1895

نور افشاں مطبوعہ ۲۲فرورفروی  ۱۸۹۵ ء بروز جمع

’’میں آیا ہوں تاکہ وہ زندگی پائیں اور کثرت کی زندگی پائیں‘‘۔

 ( یوحنا ۱۰: ۱۰)

کتابِ مُقدس سے معلوم ہوتاہے کہ خدائے حی القیوم نے آدم اوّل کو زمین کی خاک سے بنایا ۔ اور اس کے نتھنوں  میں زندگی کا دم پھونکا ۔ اور وہ جیتی جان ہوگیا۔ ’’ یہ خزانہ مٹی کے با سن میں رکھا گیا ۔ تاکہ ظاہر ہو کہ قدرت کی بزرگی انسان کی طرف سے نہیں۔ بلکہ خدا کی طرف سے ہے‘‘۔  اس نے اس کو زمین پر اپنا نائب ہونے کےلیے  اپنی صورت پر پیدا کیا۔ تاکہ وہ اس کا مطیع فرمان رہ کر سمندر کی مچھلیوں پر ۔ اور آسمان کے پرندوں پر ۔اور مویشیوں پر اور تمام زمین پر اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں سردار ی کرے ۔ خدا نے اس کو برکت دی۔ اور کہا کہ پھلو، اور بڑھو، اور زمین کو معمور کرو۔ اور اس کو محکوم کرو۔  خدا نے اس کو بے شغلی، سستی و کاہلی میں چند روزہ زندگی  بسر کرنے  اور پھر خاک میں خا  ک ہوجانے کے لیے نہیں۔ بلکہ الہٰی اطاعت و عبادت میں اوقات بسری کرنے ۔ اور زندگانی جادوانی(ازلی) سے متمتع (مستفید)ہو کر باغ عدن میں رہنے ۔ اور اس کی باغبانی و نگہبانی کرنے کے لیے خلق کیا۔ اور حکم دیا کہ ’’ توباغ کے ہر درخت کا پھل کھا لینا ۔ لیکن نیک و بد  کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا ۔ کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا ۔ تو ضرور مرے گا‘‘۔ مگر افسوس کہ آدم نے  اس الہٰی حکم کی پاسداری نہ کی  ۔ اور درخت ممنوعہ کے پھل کو کھا کر لعنت اور موت کے تحت میں آگیا۔ زندگی و خوشحالی رخصت ہوئی۔ اور موت و پریشانی نے اس پر قبضہ پایا۔ کیونکہ ’’ گناہ جب تمام تک پہنچا ۔ موت کو جنم دیتاہے‘‘۔ پس جس طرح ایک آدمی کے وسیلہ  گناہ دنیا میں آیا۔ اور گناہ کے سبب موت آئی۔ اسی طرح موت سب آدمیوں میں پھیلی ۔ اس لیے کہ سب نے گناہ کیا‘‘۔

چونکہ یہ ایک قدرتی امر ہے۔  کہ ’’ گندم از گندم بروید جوز جو‘‘۔ ابو البشر آدم کی گناہ آلودہ طبیعت و طینت اس کی  تمام  اولاد  میں ساری و جاری ہوگئی۔ جس کو خواہ کیسی ہے دینوی نعمتیں اور سامان عیش و نشاط حاصل ہوں۔ موت کے خیال سے ہمیشہ لرزاں اور ترساں رہتی ہے۔ اور انسانیت موجودہ حالت میں گویا زبان حال سے پکار رہی ۔ ’’آہ اس موت کے بدن سے مجھے کون چھوڑائے گا‘‘۔

آہ موت ! تیرا نام کیسا خوفناک ۔ اور تیرا خیال کیسا بھیانک ( خوفناک)  ہے۔ تونے بنی آدم کے ارمانوں کو خاک میں ملا دیا۔ اور حسرت بھرے دلوں کے ساتھ کُنج لحد میں اُتارا۔               سلاطین زمین کے مرصع و مزین محلات  میں تیرے دم قدم کی بدولت کہرام برپا ہو گیا۔ اور ان کے عشرت کدوں میں صف ماتم بچھوا دی ۔ غاروں اور جھونپڑیوں میں داخل  ہو کر وحشی اور دہقان آدم زاد تیرے  دستبراد سے جان بر نہ ہو سکے ۔  اور ان میں سے بھی نوحہ و شیون(ماتم) کی آواز سنائی دیتی ہے۔ تیری یورش (حملہ)سے مستحکم قلعوں اور محصور حصاروں میں جزلان صف شکن ۔ اور سپہ سالار ان شیر افگن محفوظ  و مصئون نہ رہ سکے۔ اور تیرے دانوں پیچوں سے فیل تن وروئین بدن پہلو انان مشہور زمان بچھڑ گئے۔ تونے تمام حکما و عقلا کو جو تیرے دستِ تعدی سے بچنے کی حکمت و تدبیریں میں تفحص کناں اور جویاں رہےنیچا دکھایا اور بے وقوف بنایا۔ اور جہلا و احمقا (بیوقوف)کی طرح سب کو اپنے جال میں پھنسا یا۔ تودولتمندوں  سے رشوت کی طالب نہیں۔ ورنہ وہ تھوڑے سے وقفہ کے لیے بہت کچھ  تجھ کو دے سکتے ۔ افسوس کہ تو کسی کو نہیں بخشتی۔  تجھ کو بوڑھوں اور بزرگوں کا ذرا پاس ِادب نہیں۔ تونہ  نوجوانوں کے عالم شباب کا لحاظ کرتی ۔ اور نہ شیر خوار منتہیٰ  بچوں کی لاچاری اور آہ وزاری پر ترس کھاتی ہے۔ غرض یہ کہ  تیرے دست ِظلم سے ’’ ساری خلقت مل کر اب تک چیخیں مارتی ‘‘۔ اور ایسی حالت پر ملالت میں عجب نہیں۔ کہ راقم زبور کے منہ سے بے ساختہ یہ کلمہ شکایت نکل گیا ہے۔  کہ ’’ تونے کیوں سب بنی آدم کو عبث پیدا کیا؟ کونسا انسان ہے۔ جو موت کو نہ دیکھے گا؟ کیا وہ پاتال کے قبضہ سے اپنی جان بچائے گا‘‘؟ لیکن ہم کیوں کر تیرے دعوے کی تردید کر سکتے ہیں؟ جبکہ ہمیں الہٰام سے یہ آواز آرہی ہے کہ ’’ گناہ کی مزدوری ہی موت ہے‘‘ْ۔ ’’ جو جان گناہ کرتی  ہے  سو مرے گی‘‘۔ لیکن جب کہ ہم داؤد کی مانند پہاڑوں کی طرف اپنی آنکھیں اُٹھاتے ہیں کہ ’’ کہاں سے ہماری مدد آئے گی‘‘۔  اور پورب، پچھم، اُتر اور دکھن کی طرف تاکتے ہیں۔ اور نا اُمیدی کے عالم میں چلاتے ہیں  اور کہتے ہیں ۔ آہ! ہم تو سخت مصیبت میں ہیں۔ اس موت  کے بدن سے ہمیں کون چھڑا دے گا۔ تو آسمان کی طرف سے  یہ آواز آتی ’’ دیکھ میں آتا ہوں‘‘ ۔’’ کم زور ہاتھوں کو زور  دو۔ اور ناتواں گھٹنوں کو پائیداری بخشو۔ ان کو  کو جو کج دلی ہیں۔ کہو، ہمت باندھو ۔ مت ڈرو۔ دیکھو تمہارا خدجزالور سزا ساتھ لیے ہوئے آتا ہے‘‘ اور اگرچہ بنی آدم کو یہ وعدہ  دیا گیا تھا کہ خدا ہی آئے گا۔ اور تمہیں بچائے گا۔ تاہم وہ دریافت کرتے ہیں۔ ’’ یہ کون ہے جو ا دوم سے ۔ اور سرخ پوشاک پہنے ہوئے بصرہ سے آتے ہے؟ یہ جس کا لباس درخشاں  (چمک دار)ہے اور اپنی توانائی کی بزرگی سے خرام (آہستہ چلنا)کرتاہے‘‘۔ اور وہ جواب دیتا۔ ’’ یہ میں ہوں ۔ جو راستبازی کی شہرت دیتاہوں۔ اور نجات دینے پر قادر ہوں‘‘ْ۔

اے لوگوں ! تم جو تاریکی اور موت کے سایہ میں بیٹھے ہو اس جہان کے نور اور زندگی کے مالک کے پاس آؤ جوفرماتا ہے: ’’ میں آیا ہوں۔ تاکہ وہ زندگی پائیں‘‘۔  وہ تمہیں جو گناہوں ۔ اور اپنے جسم کی نا مختونی  سے مردہ تھے۔ زندہ کر سکتا۔ اور تمہارے گناہ بخش سکتا ہے۔ وہ قیامت اور  زندگی ہے ۔ اور عالم ارواح اور موت کی کنجیاں اس کے قبضہ میں ہیں۔ اور وہی اکیلا ابن آدم ہے جو موت اور قبر کے قبضے سے مظفر و منصور ہو کے نکلا۔ اور یہ کہنے کے  قابل ٹھہرا’’ اے موت تیرا ڈنک کہاں؟ اے قبر تیری فتح کہاں ‘‘؟ تمام بنی نوع انسان  میں صرف وہی انسان تھا۔  جس نے موت کو نیست کیا۔ اور زندگی اور بقا کو انجیل  سے روشن کر دیا۔ اور بس۔

Leave a Comment