Thanks Giving
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-e-Afshan Feb 8, 1895
نور افشاں مطبوعہ ۸فرورفروی ۱۸۹۵ ء بروز جمعہ
’’کسی سے کوئی چیز پا کر عوض میں چند الفاظ مقررہ زبا ن سے بولنا ۔ اور اس چیز کو اسی
غرض میں جس کے لیے دی گئی استعمال میں لانا میری رائے میں شکرگزاری کہلاتی ہے‘‘۔
اگرچہ اہلِ یورپ مثل دیگر علوم و فنون و صفات میں شکر گزاری میں بھی ہم سے ہزار ہا فرسنگ بڑ ھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ وہ لوگ جن کو کبھی انگریزوں سے ملنے جلنے کا اتفاق پڑا ہے بخوبی واقف ہیں۔ کہ ان کی زبان میں مقررہ ’’ تھینک یو Thank You ‘‘ یا ’’ تھینکس Thanks ‘‘ یا ’’ مینی مینی تھینکسMany Many Thanks ‘‘ اس قدر تکیہ کلام (گفتگو میں عادت کے طور پر زبان سے نکلنے والے الفاظ)ہے کہ ہم کو حیرت ہوتی ہے۔ پر ساتھ ہی اس کے جب ہم اپنے اہل ِوطن اور اہل ِملک پر غور کرتے ہیں۔ تو ہم کو نہایت افسوس کے ساتھ مان لینا پڑتا ہے۔ کہ ابھی تک باستثنائے چند(مختصر) انگریزی دان ۔یا خاص تعلیم یا فتگان علم مجلس عام طور پر شکر گزاری کا پتہ تک نہیں ہے۔ اگر درحقیقت شکر گزاری دنیا کے کاموں میں نہایت مفید اور مستحسن مانی جائے۔ تو خیال کرنے کا مقام ہے۔ کہ دینی معاملات میں کہاں تک اس کی ضرورت نہ ہو گی۔ جو کوئی زبور کی کتاب کا ملاحظہ کرے ۔ تو اس پر روشن ہوگا۔ کہ جس طرح ہر ایک لذیذ سے لذیذ کھانا بغیر نمک کے بے فائدہ ہے۔ اسی طرح وہ امورات جو کہ مذہب سےعلاقہ رکھتے ہیں۔ بغیر شکر گزاری کے بے مزہ ہیں۔ اور ان میں کچھ نہیں ہے۔ ناظرین کو معلوم ہوگا کہ ہر ایک شے کی قبولیت اوّل ہے۔ اور شکر گزاری دوئم ، مطلب یہ کہ جب تک کسی عنایت شدہ چیز کو قبول نہ کریں۔ تب تک شکر گزاری کس بات کی ہو سکتی ہے؟ مسیحی مذہب کے سوائے اور کسی مذہب میں ہم کو اس اعلیٰ درجہ کی تعلیم کا پتہ نہیں ملتا۔ اس کا سبب سوائے اس کے اور کچھ نظر نہیں آتا کہ ہمارے ہندو بھائی ہر ایک نعمت کے حاصل ہونے کا طریقہ اپنے ہی گزشتہ جنم کا بدلا قرار دیتے ہیں پس وہ کیونکہ خدا کی شکر گزاری کر سکتے ہیں۔ کیونکہ خدا آپ ہی اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ ’’ مزدوری مزور کا حق ہے‘‘۔ اور یہی سبب ہے کہ ہندو کے کل صیغوں سے شکر گزاری ندا رد(خالی) ہے۔ اور محمدی بھائی اگرچہ تناسخ(روح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں جانا) کے قائل نہیں ۔ پر تو بھی ایک نعمت اخروی (آخری)کا حصول اس جہان گذران کے بعد اپنے ہی اعمال ِحسنہ کا بدلہ قرار دیتے ہیں۔
پس یہاں بھی وہی نتیجہ ہے جو ہندو مذہب میں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ دونوں شکرگزاری کی منزل سے دور ہیں۔ لیکن مسیحی مذہب سکھاتا ہے کہ سب کچھ خداوند خدا نے ہم کو بخشش کے طور پر عنایت فرمایا ہے ۔ اور بتا دیا کہ انسان کسی نعمت کا مستحق نہیں۔ پس جب انسان نے یہ سکھایا ۔ کہ میں محض نکما ہوں۔ اور اس پر بھی پرور دگا عالم اپنے فضل و کرم سے اس دنیا میں انواع اقسام کی نعمتیں عطا فرماتاہے۔ تب اس کا ضمیر اسے قائل اور شکر گذاری پر مائل کرتاہے۔ اے ہمارے ہندو مسلم بھائیو! اگر ہم خدا کی نعمتوں کی قدر و قیمت کو ذرا بھی پہچانیں تو ہم کو قائل ہو کر یہ کہنا پڑے گا۔ کہ بارالہٰی ہمارے پاس تو کوئی ایسی نقد ی نہیں ۔ جس کو ہم تیری ادنی ٰ سے ادنی ٰ دی ہوئی نعمت کا معاوضہ قرار دیں۔ دنیا میں ایک روپیہ کے (۱۲) سیر گیہوں ملیں تو ملیں۔ پر ساری دنیا کی دولت دینے پر بھی امساک (خُشک سالی)بار ان میں ایک بوند پانی کی نہیں مل سکتی ۔ سر کا ایک بال بھی جب سفید ہوجاتاہے سب کچھ دے کر بھی سیاہ ہو نہیں سکتا۔
زندگی ، سانس ، بدن ، ہاتھ ، پاؤں، آنکھ، ناک ، کان ، خوراک ، پوشاک ، زمین ، چاند ، سورج ، ہوا وغیرہ ۔ کیسی کیسی خد اکی نعمتیں ہم کو ملتی ہیں۔اب ہم افسوس کے ساتھ خدا کی بڑی بخشش کا بیان کرتے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اگرچہ آپ لوگ ہزارہا نعمتیں خدا سے پاکر اور اپنے استعمال میں لاکر شکر گزاری ہے نہیں کرتے ۔ بلکہ اس نعمت عظمیٰ کو قبول بھی نہیں کرتے اگر ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی بخشی ہوئی شے کو قبول نہ کرنا کسی فرد بشر کے لیے موجب خرابی ہے۔ تو فرمائے بادشاہوں کے بادشاہ ۔ سلطان کے سلطان کی بخشش کو رد کرنا کتنا زیادہ سبب بربادی کا ہوگا۔ دیکھئے خدا اپنے کلام میں کیا فرماتا ہے۔ ’’ خدا نے جہان کو ایسا پیار کیا کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا۔ تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘۔ لیکن آپ لوگ جب اس نعمت اور بخشش کا ذکر سنتے ناراض ہو کر کہتے کہ ’’ہم اس کو قبول نہ کریں گے‘‘۔ فرمائے اس کا نتیجہ سوائے خرابی کے اور کیا ہے؟ براہ عنایت تعصب (بے جا حمایت) کو دل سے ہٹا کر سوچئے۔ جناب آ ہی کا فائدہ ہے مسیح کو قبول کرو اور شکر گزاری بجا لاؤ۔