Testimony
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published In Noor i Afshan 26 April,1895 Bajwa
نور افشاں مطبوعہ ۲۶ اپریل ۱۸۹۵ء باجوہ
پُرانے زمانے کے مسیحیوں کی قبروں پر جو کتبے کُندہ ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحیوں نے شروع ہی سے پولُس رسول کی تعلیم کو قبول کر لیا تھا۔جو اُس نے تھسلنیکیوں کو لکھی تھی وغیرہ۔ اور قوموں کی مانند نا اُمیدی میں غم نہ کریں ۔بلکہ یاد رکھیں کہ جیسے یسوع مر گیا اور جی اُٹھا ویسے ہی خُدا اُن کو جو مسیح میں سو گئے ہیں جِلائے(دوبارہ زندہ کرنا) گا ۔کیونکہ پُرانی قبروں پر حسبِ ذیل کتبے پائے گئے ۔
سلامتی میں ۔وہ سلامتی میں سوتا ہے ۔خُدا میں زندہ۔مسیح میں زندہ۔ہمیشہ تک جیتا ۔خُوب آرام کرتا ہے ۔خُدا تیری روح کو جِلائے۔اَے میرے لڑکے مت رو موت ابدی نہیں ہے۔سکندر مُردہ نہیں بلکہ ستاروں کے اُوپر زندہ ہے۔
بر خلاف اس کے پُرانے زمانہ اور حال کے زمانہ کے بُت پرست کسی کے مر جانے پر نا اُمیدی ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ موت ابدی نیند ہے ۔اور قبر آخری گھر ہے۔مگر پُرانے زمانہ اور حال کے زمانہ کے مسیحی گواہی دیتے ہیں کہ دیندار مُردے ابھی سلامتی کی خوشی میں ہیں وہ اپنے خُداوند کے اُس وعدہ کو یاد رکھتے ہیں جو اُس نے تائب (توبہ کرنے والا )چور سے کہا تھا کہ ’’آج ہی تو میرے ساتھ بہشت(جنت) میں ہو گا‘‘ ۔یہی وجہ ہے کہ پولُس رسول آرزو کرتا ہے کہ یہ بہت بہتر ہے کہ میں رخصت پاؤں اور مسیح کے ساتھ جا رہوں ۔بہت مسیحیوں نے ایذا رسانی کے دنوں میں اور اکثر معمولی موت کے وقت اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے جس سے یہ سنجیدہ سوال قابلِ غور ہر ایک انسان کے واسطے ہے۔کہ آیا غیر مسیحیوں کو بعد موت کے خوشی کی اُمید ہے اور اگر ہے تو اس کا عملی ثبوت بکار ہے۔جیسا کہ مسیحیوں کی حالت سے ظاہر ہے۔اگر کوئی شخص موت کے لئے تیار نہیں ہے تو بے شک وہ خطرہ میں ہے اور اُس کے واسطہ موقع ہے کہ اپنے آپ کو اس خطرہ سے نکالے۔اور اُس کا صرف یہ ہی طریقہ اور علاج ہے کہ اپنے آپ کو مسیح خُداوند کے آگے ڈال دے تاکہ جو کہتا ہے کہ ’’راہ ، حق اور زندگی میں ہوں ‘‘اور اپنے اس دعویٰ پر اس طرح سے وہ مہر کرتا ہے کہ’’ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے پر میری باتیں نہ ٹلیں گی‘‘۔کیا یہ کم قدر گوا ہی ہے کہ اُس نے دُنیاوی کمزوری اور ناتوانی کی حالت میں (جب کہ وہ کہتا ہے کہ چڑیوں کے واسطے بسیرہ ہے پر میرے واسطے سر رکھنے کو جگہ نہیں )حکم دیا کہ اس کلام کی منادی زمین کی حدوں تک کرو (جس کی تعمیل ہو رہی ہے)ایسا ہی اُس کا یہ قول ہے کہ ’’جو مجھ پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُس کی ہے‘‘ ۔پس جو کوئی اس ظاہری موت کے بعد زندگی چاہتا ہے اُس کے واسطے یہ ہی مناسب ہے کہ وہ اُس پر ایمان لائے۔جو اُس پر ایمان نہیں لاتا وہ اگرچہ جیتا ہے پر مُردہ ہے اور اس ظاہری موت کے بعد فی الحقیقت مُردہ ہو گا ۔مگر جو مسیح پر ایمان لاکر زندگی پا چُکا ہے وہ ہی موت کے وقت کہہ سکتا ہے ’’اَے موت تیرا ڈھنگ کہاں اَے قبر تیری فتح کہاں ‘‘۔