خاطر جمع رکھو

Eastern View of Jerusalem

Take Courage

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Oct 8,1891

نور افشاں مطبوعہ۸اکتوبر ۱۸۹۱ ء

’’خاطر جمع رکھو کیوں میں دُنیا پر غالب آیا ہوں‘‘(یوحنا ۱۶ :۳۳ )

یہ کون ہے جس کے منہ سے ایسی عجیب بات نکلی جو دُنیا کے شروع سے ہر گز کسی خاک کے پتلے سےسننے میں نہ آئی ؟کون ایسا ہوا جس نے آپ کودُنیا سے بے داغ بچارکھا اورہرچند اس دنیا کے سردار نے اُس کی ساری شان وشوکت اور بادشاہتیں اُس کو دکھلائیں اور صرف اپنےآگے ایک لمحہ سرِتسلیم خم (سر جھکانا)کرنےپر سب کچھ دنیے کا وعدہ کیا ۔بگر اُس غنی(آسودہ) ولاپر واشخص نے استغنا (بے فکری)سے اُس پر تف(بخارات،گرمی) نہ کیا ۔ اوراس کی ساری شان وشوکت اوردولت وحشمت کو حقیر جانا؟یہ ابن آدم تھا جس نے کہا کہ ’’لومڑیوں کے لئے ماندیں اورہوا کے پرندوں کے لیے بسیرے ہیں پر ابن آدم کے لیے جگہ نہیں جہاں پر وہ اپنا سردھرے ‘‘۔جب سے دُنیا کی تاریخ شروع ہوئی بہت سے لوگوں کاذکر جو دُنیا میں نامور ہوگزرے ہیں آج تک بطور یادگار اُس کے صفحوں پر پایاجاتا ہے ۔کہ اُ ن کی مانند دوسرا کوئی پیدانہ ہوا ۔ بابؔل اوراسوؔر کے شاہان ذوی ا لاقتدار کا صرف نام ہی صفحہ روزگار پر یادگار رہے گا۔مگر اُن میں سے کب کسی کو یہ کہنے کی جرات ہوئی کہ ‘‘میں دنیا میں پرغالب آیاہوں ‘‘مصؔر کے فرعؔون جو اس دنیا؛ میں بے اُمید اوربے خدا ہوکر گزرگئے ۔ ہر چند سمجھتے اورکہتے رہے ’’کو ن خدا وند ہے ‘‘مگر آخر کودُنیا اورموت کے مغلوب ہوکر ۔نا اُمید ی اور تاریکی کے عالم میں کوچ کرگئے۔ سکندر فتاح اعظم نےمرنے سے پہلے وصیت کی کہ

’’ میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر رکھ کےیوں مجھے دفنانے کےلیے جانا۔ تاکہ عوام جانیں کہ سکندراپنے ساتھ کچھ نہیں لے چلا ‘‘۔

محمود غزنوی جب مرنے لگا تو رویا

 محمودغزنوی جب مرنے لگا اموال غنیمت (لوٹ کامال)کواپنےسامنے منگوا کے بچشم حسرت اُس کو دیکھ کر رویا۔ کیا ا ن نامورفتاحوں کے منہ سے دم نزع (جان نکلتے وقت،جان کنی کی حالت)یہ الفاظ نکل سکتے تھے ’’ہم دُنیا پر غالب آئے ہیں؟‘‘۔بڑے بڑے حکیموں اورفلاسفروں کےنام اورکام تواریخ دُنیا میں ہمیں ملتے ہیں ۔ مگر یہ دُنیا اُن کے لیے ایک راز سربستہ (ایساراز جو ابھی ظاہر نہ ہوا ہو)تھا۔ جس کا عقدہ (مشکل بات،بھید)کسی علم وحکمت سے دانہ کرسکے ۔ اورخداکی ہستی بھی اعتقاد میں اکثر بحالت تذبذب (شک وشبہ،بے چینی)رہے ۔اور بالاآخر دُنیا اورموت کےآگے سِپر(ڈھال)ڈال دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’انسان اپنا وقت بھی نہیں پہچانتا جس طرح مچھلیاں جو بڑے جال میں گرفتار ہوتی ہیں اور جس طرح چڑئیں پھندے میں  پھنسائی جاتی ہیں ۔ اُسی طرح بنی آدم بھی بدوقتی میں جب اچانک جال ان پر پڑتا ہے پھنس جاتے ہیں‘‘(واعظ۹ :۱۲)۔پس کون کہہ سکتاتھا یااب کہہ سکتا ہے ۔کہ ‘‘میں دُنیا پر غالب آیا ہوں ‘‘۔جب اس بات پر غور اورفکر کیاجاتا ہے کہ اگرچہ خدا کی تمام مخلوقات میں جو لاکھوں اقسام کے جاندار مخلوق پائے جاتے ہیں ۔اُن سب میں ایک انسان ہی ایسا مخلوق ہے جو ابدی زندگی کی خواہش مند روح پاکے اور علم وعقل کے جوہر سے آراستہ ہوکے ۔ اشرف المخلوقات کہلانے  کے لائق ہے ۔لیکن دُنیا میں اُس موجود ہ حالت ایس پُر رنج وصعوبت (تکلیف،مصیبت)ومبتلا ئے فکر وترددنظرآتی ہے ۔کہ شاید وحوش وطیور(طیر کی جمع ،پرندے )توکیا ۔حشرات الارض (زمینی کیڑے مکوڑے)بھی اپنی قسمت وحصہ کو اُس کے ساتھ بدل لینے پر رضامند نہ ہوں گے ۔ اور یہ حالت کیوں ہے؟اس لیے کہ آدم دُنیا اور گنا ہ ۔اور بہ نتیجہ اُس کے موت  کامغلوب ہوگیا۔ اوریوں وہ جو سراور سردار تھا ۔ دنیا اورگناہ کا تابعداراور غلام بن گیا ۔ہم اس بات کے قائل نہیں کہ کوئی انسان جو دم بھر کے لیے بھی اپنی عمر کے کسی وقت میں گنا ہ کا مغلو ب ہواہو دم آخر اپنی ذاتی لیا قت اور خاصیت کو جانچتے ہوئے کہہ سکے کہ ’’میں دُنیا پر غالب آیا ہوں‘‘ خود فریبی وغلطی میں مبتلا ہوکر ایسا کہہ دینا دوسری بات ہے ۔ سچ تویوں ہے کہ سارے بنی آدم اس عفر یت(بھوت،پریت) دُنیا کے آگے پچھڑ(ہار )گئے ۔ اورمغلوب ہوئے’’ سبھوں نے گنا ہ کیا اورخداا کے جلال سے محروم ہوگئے‘‘ ۔ ہم سب بھٹیروں کی مانند بھٹک گئے بلکہ اُن بھیڑوں کی مانند ہوگئے جن کا کوئی گڈریانہ ہو ۔ ایسی لیے پٹمس کارویا دیکھنے والا کہتاکہ ’’میں بہت رویا کہ کوئی (بنی آدم میں )اس لائق نہ ٹھہرا کہ کتاب کوکھولے اور پڑھے یا اسے دیکھے تب اُن بزرگوں میں سے ایک نے مجھے کہا مت رو۔ دیکھ وہ ببر جو فرقہ یہوداسے ہے ۔ اور داؤد کی اصل ہی غالب ہواہے ۔ کہ اُس کتاب کوکھولے اور اُس کی ساتوں مہروں کو توڑے ۔اور یہ وعوی کرنے کا مستحق ٹھہرے کہ ’’خاطر جمع رکھو کہ میں دنیا پر غالب آیا ہو ں ‘‘ پس اب ہی ایک تدبیر ہے کہ ہم اُس آدم ثانی میں ہوکے ۔ جو بنفس نفیس اس دُنیا میں اُس کے سردار(شیطان )اور گناہ ۔ وہ موت پر فتح مند ہو ا ۔ غلبہ پائیں اور وہ ہ ہمیں’’زندگی کے درخت سے جو خدا کے فردوس کے بیچوں بیچ ہے پھل کھانے کو دے گا‘‘۔ تب ہم یہ کہہ سکنے کے قابل ہوں گے کہ ’’ہم ان چیزوں میں اُس کے وسیلے جس نے ہم سے محبت کی ہر غالب پر غالب ہیں ‘‘۔کیا قیمتی اور مسرت بخش یہ وعدہ ہے ۔ جو اُس نے اپنے ایماندار وں کےساتھ یہ کہہ کے کیا۔کہ ’’ جو غالب ہوتا ہے اُسے اپنے تخت پراپنے ساتھ بیٹھنے دوں گا۔ چنا نچہ میں بھی غالب ہوااور اپنے باپ کے ساتھ اُس کے پر بیٹھا ہوں‘‘(مکاشفہ ۳ :۲۱ )

Leave a Comment