Summary of Troubles
By
G.L.Thakur Dass
علامہ جی ایل ٹھاکرداس
Published in Nur-i-Afshan Feb 12, 1891
نور افشاں مطبوعہ ۱۲فروری ۱۸۹۱ ء
خلاصۃ المصائیب ميں روايت ہے کہ ايک روز محمّد صاحب حسين کے گلے کے بوسے ليتے تھے تواُنھوں نے پُوچھا اے نانا کیا باعث ہے آپ میرے گلے کو چومتے ہيں۔ حضرت روئےاور فرمایا اے فرزند میں اس لیے چومتا ہوں کہ ایک دن یہ گلا خنجر ظلم وستم سے کاٹا جائے گا حسین نےعرض کی اے نانا کس جرم وگناہ پر مجھے قتل کريں گے؟ حضرت محمّد بولے تو معصوم ہے جرم وخطا سے لیکن شفاعت میری اُمت کی تیر ی شہادت پرموقوف ( ٹھہرايا گيا) ہے ضروری نہیں کہ ہم اس وقت اس پر کچھ لکھیں کہ حسین جرم وخطا سے واقعی معصوم تھے یا نہیں کیونکہ ہم یہ دکھانا چاہتےہیں کہ کفارہ کی ضرورت حضرتؐ کو معلوم تھی اگرچہ اُنہوں نے قرآن میں اس بھاری ضرورت کاکچھ ذکر نہیں کیا ۔ اور اُمت ِمحمدی کی نجات صرف ان اعمال ِحسنہ (اچھے کام) پر موقوف رکھی گئی ہے تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اہل ِاسلام بالا تفا ق شہادت حسين کو رفاہِ اُمت ( امت کی بھلا ئی) پر منسوب کرتے ہیں اورجو جحتی (جھگڑالو اور لڑاکا) اورکج بحث (اُلٹی سيدھی بحث کرنے والے) اشخاص مسیح کی صلیبی موت اور اُس کے کفارہ گناہا ن ِمومنین (مومنوں کے گناہوں کا کفارہ) ہونے پر اعتراض کیاکرتے اور کہاکرتے ہیں کہ گنا ہ توکرے دوسر ا اورا ُس کے بدلے میں مار ا جائے کوئی دوسرا یہ کہاں کا انصاف و عدالت ہے وہ اس پرغور کریں کہ حضرت نے بھی نجا ت اُمت ِمحمد یہ کو قتل ِحسین پر موقوف ومنحصر(وابستہ ہونا) ٹھہرايا ہے البتہ یہ ضرورہے کہ کفارہ گزارننے والا عوضی گنا ہانِ کبیرہ وصغیرہ (بڑے اورچھوٹے گناہ) سے عقلاًونقلاً (از روۓ عقل اور دوسروں کی نقل) پاک اورمعصوم ہو ۔ اب ہم اہل انصاف کی توجہ و غور اس فیصلہ پر رجو ع کراتے ہیں کہ فی الحقیقت کون ایساہے ۔ کیا وہ شخص جس نے مخالفوں کے روبرو دعوٰ ی کیا ا ور کہاکہ ‘‘کون تم میں سے مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے’’(یوحنا ۴۶:۸) اور جس کے حق میں کلام الہی میں لفظ قدوس لکھا اورکہا گیا دیکھو (لو قا۳۵:۱ ،اعمال ۳۔۱۴ )اور اعمال ۳۰:۴ )یا وہ شخص جس نے کہا ہو ‘‘طاعتی قلیل ومعصیتی کثیر اًیعنی میری عبادت تھوڑی اور میرے گناہ بہت ہیں ؟ احکام الائمہ ۔