Strange effect of the Holy Bible
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan July 27,1894
نور افشاں مطبوعہ۲۷جولائی ۱۸۹۴ ء
راقم بفضلہ تعالیٰ معہ بھائی کو انکسن منجانب میتھوڈسٹ مشن بریلی سے تبدیل ہو کر ۱۳ مارچ ۹۴ء سے قصبہ بيتیا میں آ کر جہاں چمپارن کا راجہ رہتا ہے۔ انجیل سنُانے لگا ۔ قبل اس کے اس قصبہ میں کبھی منادی نہ ہوئی تھی۔ چند عرصہ میں علاوہ واقفیت ہر فرد بشر کے گردو نواح میں مسیح کی جلالی انجیل کا اثر پھیل گیا ۔ اکثر لوگ مسیحی مذہب کو قبول کر نا ذلت جانتے ہیں۔ تاہم جو مولوی یا پنڈت مسیح کی بابت سُنتے ہیں قائل ہو گئے ہیں۔ مگر چند ذ ی اقتدار ہندو و محمدی صاحبان کوشش کرتے ہیں۔ کہ ہم لوگ بيتيا سے چلے جائيں ۔ طرفہ يہ ہے کہ ۲ مئی ۹۴کو مولانا شاہ ابو صالح صاحب مُضطر بنارسی مقیمی لکھنو برائے سیا حت بيتیا میں تشریف لائے ۔ یہاں کے باشندے تو منتظر ہی تھے۔ کہ اس وقت میں کوئی آ کر ان کی مد د کرے ۔ مولانا مذکور کی تشریف آوری سے بہت خوش ہوئے اور خاص و عام محمدی و ہندوؤں نے ان کی پیروی(پيچھے چلنے والے) اختیار کی ۔ ۵ مئی ۹۴ء کو مولانا ممدوح معہ چند مولوی صاحبان و ذی لیا قت ملازمان راج کے لال بازار میں جہاں ہم لوگ منادی کرتے تھے۔ تشریف لائے اور آتے ہی مسیح خُداوند کے ابنِ اللہ ہونے پر معترض(اعتراض کرنا) ہوئے۔ ان کو بديں لحاظ ۔ کہ بازار میں مباحثہ کرنا ضرور نہیں۔ یہ مختصر جواب دیا گیا۔ کہ ذاتِ الہٰی ہر سہ اقانیم یا تعینات ازلیہ کے ساتھ قائم ہے۔ نہ محض واحد ہے۔ لہذا اقنوم ثانی یا تعین اولیٰ کو ۔ جس نےبطن مریم صدیقہ میں انسانیت سے علاقہ پکڑا با عتبار صدور یا خروج من الذات ابن ِ اللہ کہتے ہیں۔ اور اس کا نام باعتبار مرتبہ المسیح و بالحضوص نجات دہندہ ہونے سے یسوع ہے ۔ اور علاقہ(تعلق) انسانیت کے باعث اسی کا نام ابنِ آدم ہے۔
بعدہ مولانا صاحب تھوڑی دیر سخت تکرار لفظی کر کے معہ ہمر ا ہیان چلے گئے۔ بھائی کو انکن ۷ مئی ۹۴ء کو حسبِ طلب بزرگ استاد ڈاکٹر جے اسکاٹ صاحب پرنسپل تھیولا جیکل سکول بریلی کو چلے گئے۔ اور میں نے قصبہ کے ہر چہا ر بازار میں صداقت نبوت و کلام ربانی پر منادی کرنی شروع کردی ۔ مولانا صاحب ہر روز معہ تین سو محمدی ہمراہیان کے مقابل ہو کر بڑے جوش و خروش سے گفتگو کرتے رہے ۔ جب کچھ بس نہ چلا ۔ ۱۱ مئی ۹۴ ء کی شام کو جیسا کہ مولانا صاحب فرماتے ہیں۔ قاضی حکیم عبدالغفور صاحب کے مکان پر تمام ذی اقتدار محمدیوں ۔
مولوی دین محمد ، و نور محمد آ نریری مجسٹریٹ ، و منشی عبدالقادر صاحب منشی ریاست ، و عزیز الرحمان انسپکڑ پولیس نے باہم مشور ہ کر کے اولا ّ۔ ٹی ۔ ايم ۔ گبن صاحب منیجر ریاست سے شکایت کی۔ بعدہ بذریہ منیجر صاحب ریاست مجھ پر الزام توہین مذہب اسلام لگا کر مجسٹریٹی بیتیا میں نالش (الزام لگانا )کر دی۔ ۱۲ مئی ۹۴ء کو مجسٹریٹ نے معرفت انسپکٹر پولیس طلب کر کے سراجلاس سو روپیہ مچلکہ مجھ سے لکھو الیا۔ اور ۱۴ مئی ۹۴ء تاریخ پیشی مقدمہ ٹھہرائی ۔ اور میری عرض و معروض کی مطلق(بالکل) پروانہ کی۔ میں عجیب حیرت میں گرفتار تھا۔ پر دل میں مطلق گھبراہٹ نہ تھی۔ بلکہ المسیح کے احکام کی یاد سے ۔ جو اس نے ایسے وقت کی نسبت فرمائے میں خوش تھا۔ دور دور تک پولیس افسران نے ستانے کے لئے چند حملے کئے۔ اور ہر امر میں قائل ہو کر نیچا دیکھا۔ ۱۴ مئی ۹۴ء کو بزرگ ایچ جیکسن صاحب پریزانڈنگ ایلڈر میتھوڈ سٹ کلیسیاء مقیمی مظفر پور تشر یف لائے۔ تخمیناً ۳ گھنٹہ باہم مجسٹريٹ و مينجر ریاست و پادری ایچ جیکسن صاحب و نیز ذی اقتدار محمد یان بیتیا تقرير ہوتی رہی۔ آخر اس بات پر کہ ایک دوسرے کے مذہب کی توہین نہ کرے ۔ صلح نامہ ہو گیا ۔ اور مجسٹریٹ نے مجھ سے اور مولانا ممدوح سے دستخط کرا لئے۔ تین چار روز کے بعد خُدا نے بصفائی میرے دل میں ڈالا ۔ کہ خُدائے حی ّمولانا کو بچانا چاہتا ہے۔ میں چار پانچ مرتبہ دُعا کرنے کے بعد مولوی محمد اسحاق صاحب رجسٹر ار و آنريری مجسٹریٹ بیتیا کے مکان جائے قیام مولانا صاحب پر گیا ۔ یکم جون ۹۴ء کو مولانا صاحب بمعہ دیگر تین چار مولوی صاحبان ُ خداوند مسیح پر ایمان لانے کو مستعد (تيار)ہو گئے۔ اور ۲ جون سنہ الیہ کو میرے ہمراہ مظفر پور تشریف لے گئے۔ اور بدست پادری ایچ جیکسن صاحب مسیح میں بپتسمہ پا کر مشرف بہ مسیحیت ہوئے۔
مولانا حکیم شاہ ابو صالح صاحب کی عمر پچیس سال کی ہے۔ زبان انگریزی و فارسی و عربی سے بخوبی واقف ہیں۔ اور علم قرآن و حدیث و اصول و فقہ سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ اور آپ شاعر ہیں۔ مُضطر تخلص ہے۔ اور ممالک ایشیا میں عرب و عجم و شہرات ہند کے سیا ح (ملکوں کی سيريں کرنے والا)ہیں۔ اور مذہبی غیر تمندی و سرگرمی سے پُر ہیں۔ اور آپ مولانا فضل رحمان صاحب گنج مراد آبادی کے خلیفہ ہیں ۔ طُرّہ (خوبی،انوکھی بات)یہ ہے کہ آپ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی تعلیم سے بھی فیض یاب ہیں۔ اور آپ کے والد مولانا حکیم مولوی نصیر الدین احمد صاحب مظفر پور گورنمنٹ ہائی سکول کے ہیڈ مولوی ہیں۔ اور آپ دین محمدی کےمعز ز مولوی و اعظوں میں مستند (تصديق کيا ہوا)شمار کئے جاتے تھے۔ آپ نے مظفر پور ، دور بہنگہ موبنہاری ، و بیتیا میں اپنے واقف کاروں و عزیزوں کے درمیان چند ليکچر دین مسیحی کی صداقت کو قبول کر لینے کی نسبت دیئے ۔ جس سے اکثر علماء کو حیرت ہے کہ مولوی صاحب کو کیا ہو گیا ۔ کہ پندرہ رو ز کے عرصہ میں عیسائی ہو گئے۔ پر سوائے افسوس کے کچھ چارہ نہیں ۔ بخیال دلشکنی محمدیان مجسٹریٹ بيتیا نے مولانا ممدوح کو دو ہفتہ کے لئے ۲۱ جون ۹۴ ء تک منادی کرنے سے منع کر رکھا تھا۔ ۲۲ جون سنہ الیہ سے بفضل خُداوند وہ ساتھ منادی کرتے ہیں۔ غرضکہ چمپارن بہر میں اب انجیل کی اس عجیب تاثیر(عمل۔اثر) کی پکار ہے۔ ۲۲ جون کو تین وہ ۲ رکو ۳ رد ۲۸۔ کو ۵۶ ۔ یعنی ۱۳ مارچ ۹۴ء سے انتک کل ۶۸ ( اڑ سٹھ ) اشخاص نے بپتسمہ پایا ہے۔ جن میں ہر قوم کے لوگ شامل ہیں۔ اور ساٹھ شخص تو بتیاہی میں موجود ہیں۔ اور وہ تین چار مولوی جو مولانا صاحب کے ہمراہ مظفر پور جانے سے رک گئے تھے۔ قصبہ کے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے ان سے مسیحی نہ ہونے کے لئے قرآن اُٹھوالئے ہیں۔ اور نو مرید عیسائیوں کو مسیح کی پیروی سے باز رکھنے کے لئے عجیب عجیب قسم کی تر غیبیں(لالچ) دیتے ہیں۔ اب خُدا ہی ہے۔ جو غیر مسیحی ریاست میں مجھ کو ۔ اور نومریدوں کو سنبھال لے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ اگر فی الحال کام رک جائے۔ تو عجب نہیں۔ پر امید ہے کہ آخر بڑے زور سے خُدا کا کام چلے گا۔ اور خُدا بہر طور اپنا جلال ظاہر فرمائے گا۔ شرط یہ ہے کہ خادم الدین تیز ہتھیار کی مانند زندہ خُداوند کے ہاتھ میں قائم رہے۔ عجیب بات یہ ہے۔ کہ قصبہ بتیا کے ہندو ومحمدی معہ پولیس و افسران ریاست کے ہمارے سخت مخالف ہو رہے ہیں۔ جس سے اکثر ہماری جانوں کو خطرہ ہے۔ چاہیے کہ مسیحی بھائی دُعا کریں کہ مخالفت کم ہو جائے اور خُدا کا کام چل نکلے ۔
اگر خُدا نے بتیا میں ایک گرجا گھر اور قبرستان اور بورڈ نگ ہاؤس کا لڑکوں و لڑکیوں کے لئے سر انجام کر دیا ۔ تو امید ِواثق (مضبوط اُميد)ہے۔ کہ جس قدر وسیع گر جابنے گا ۔ خُدا اپنے لوگوں سے بھر دے گا۔