Statement of Faith in Christ
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Nov 2, 1876
نور افشاں مطبوعہ۲نومبر ۱۸۷۶ ء
ایمان کی خاصیت اور اُس کی حد پاک کلام کے ہر ایک ورق میں عمدہ علامات ایمان کی بیان کی گئی ہیں ۔ اور جو تاثیرات اُ س کی گرو ہاگر و ہ خلقت نے بیان کی ہیں وہ سب بجا ہیں ۔ لیکن جب بیان بائبل کے جب تک مسیح پر ایمان نہ ہو تب تک فی الحقیقت اِنسان خُدا کے غضب میں مبتلا رہتا ہے۔ اسی واسطے ہر ایک آدمی کو مناسب ہے کہ پاک کلام میں تلاش کرے کہ ایمان کی خاصیت کیا ہے اور حد اُس کی کہاں تک ہے ۔ اس کی خاصیت کا بیان اس طرح پر ہے کہ انجیل ِمقدس میں خُداوند مسیح نے بعض شخصوں کے ایمان کی تعریف کی اور بعضوں کو بے ایمانی پر تنبیہہ (تاکيد۔نصيحت) ۔ جب یہ دونوں باتیں اِنسان کی سمجھ میں بخوبی آجائیں ۔ تو ایمان کی خاصیت اور بے ایمانیوں کی غلطیوں سے بخوبی آگاہ ہو جائے گا۔ اور بہت سےتردد(سوچ۔فکر) اور بدعات(مذہب ميں نئی بات نکالنا)( جن کی بابت جھگڑے واقع ہوتے ہیں بالکل دفع ہو جائیں گے ۔ پہلی مثل جو ہم اس وقت انجیل میں سے تمہارے فائدے کے لئے ذکر کرتے ہیں۔ وہ صوبہ دار کی حکایت (کہانی۔داستان) متی کے آٹھویں باب میں سے ہے ۔ اس صوبہ دار کے گھر میں اُس کے نوکروں میں سے ایک شخص بیمار تھا اُس نے اُس کی بیماری پر رحم کر کے بطور غم خواری مسیح کی خدمت میں آ کے التجا (درخواست)کی کہ آپ میرے نوکر پر رحم کریں۔ اور میں اُس کو ادھرنگ کی بیماری میں تڑپتا چھوڑ کر آیا ہوں۔ اس صوبہ دار کے دل میں مسیح کی قوتِ شفا ء بخشی اور رحم پر ایسا ایمان تھا ۔ جس سے محروم ہونے کا شک بالکل دل میں نہیں تھا۔ اور مسیح کے ہم نشین بالکل ان باتوں سے ناواقف تھے۔ خُداوند مسیح نے اُ س کو فرمایا کہ چل میں آکر اُسے آرام دیتا ہوں اس ایماندار کے لحاظ نے منظور نہ کیا کہ ایسا بڑا آدمی اُس کے غریب خانہ میں آئے ۔ اور ایسی تکلیف فضول اپنے آپ پر اُٹھائے۔ اس واسطے عرض کی کہ اے خُداوند یہیں پر ذرا زبان سے کہہ دے کہ میرا نوکر اچھا ہو جائے اور مجھ کو تیری قوت شفاء بخشی پر اس قدر یقین ہے ۔جس قدر اپنے سپاہیوں پر حکم کر کے اپنے کام بے روک ٹوک لينے کا اختیار ہے۔ جب یسوع نے اس کی یہ باتیں سنیں تو متعجب(حيران) ہو کر اس رومی صوبہ دار کے ایمان کی تعریف کی۔ باوجود یکہ وہ یہودیوں کی نظر میں نہایت حقیر(ادنیٰ۔چھوٹا) تھا۔ اس کے ایمان کی بڑائی سب لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اور نجات کے مقدمہ میں اس فضل کو قیام بخشنے کے لئے یسوع نے اپنے شاگردوں کی طرف متوجہ ہو کے کہا ۔کہ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایسا بڑا ایمان میں نے اسرائیلیوں میں بھی نہیں پایا۔ میں تمہیں کہتا ہوں کہ بہت لوگ پورب اور پچھم سے ایسے ہی ایمان کے ذریعہ سے آئیں گے ۔ اور ابرہام اور اضحاق اور یعقوب کی گود میں آسمانی بادشاہت میں بیٹھیں گے ۔ اب خیال کرو کہ اس صوبہ دار کے ایمان کی خاصیت کیا تھی ۔ اصل میں اتنی ہی بات ہے کہ اُس نے اپنے دل میں یقین کیا کہ قوت اور بھلائی مسیح کی ایسی بے حد ہے جس پر توکّل (بھروسہ)کرنے سے ہر کام میں امداد اور ہر بلاسے رہائی حاصل ہوتی ہے۔ پس سچے ایمان کے بھی معنے ہیں کہ مسیح کی قدرت اور اس کے منصب(عہدہ)پر واسطے مدد اور نجات روحانی موت کے بھروسہ رکھے۔ یہی مسئلہ ایک دوسری مثل سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ کہ ایک عورت ذات کی کنعانی اپنے گردو نواح میں مسیح کے آنے کی خبر سُن کر دوڑ کر اُ س کے پاس آئی اور چلا ّ کے بولی کہ اے خُداوند داؤد کے بیٹے مجھ پر رحم کر میری بیٹی دیو کے آسیب سے تکلیف ِشدید میں پڑی ہے۔ مسیح نے اُس کے چلا نے پر جواب نہ دیا بلکہ کہا ۔کہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی چھین کر کتوں کو ڈالوں ۔کیونکہ سارے یہودی لو گ بُت پرستوں کو خُدا کی نظر میں ناپاک جان کر کتے سے بھی حقیر (ذليل خوار۔بے قدر)سمجھتے تھے۔ اُس عورت نے تس پر(اس کے باوجود ) بھی مسیح کا کہنا قبول کیا اور کہا کہ ہاں خُداوند سچ ہے لیکن کتا بھی جو اُس کے مالک کے دستر خوان سے ٹکڑے گرتے ہیں کھاتا ہے مجھ پر تو ویسا ہی رحم کر جیسے کتے اپنے مالک کے ہاتھ سے دیکھتے ہیں ۔ فیاضی کے ہزاروں معجزے تو یہودیوں میں دکھلائے ہیں ۔اسی میں سے مجھ کمترین پر بھی ذراعنایت فرما ۔ تب مسیح نے جواب دیا کہ اے عورت تیرا ایمان بڑا ہے جیسا تو چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو گا۔ یہ حال متی کے پندرھویں باب میں لکھا ہے۔ اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ تو کل(بھروسہ) میں پائيداری اور مدد رہائی کے واسطے مسیح پر پکا بھروسہ ہی کامیاب ہے۔ دیکھئے کس قدر یاس اور نا اُمیدی کی حالت اُس عورت پر گذری تسپر بھی صبر کر کے اپنی درخواست سے باز نہ آئی بلکہ رہائی کی اُمید کو قائم رکھا ۔کیونکہ اپنے دل میں جانتی تھی کہ مسیح میں قوت اور رحم کثرت سے ہے۔ غرض جیسے پہلی حکایت (کہانی)سے مسیح پر ایمان رکھنے کی خاصیت معلوم ہوئی ۔ایسے ہی اس ماجرا سے ظاہر ہوتا کہ واسطے مددا ور رہائی کے اُسی پر توکّل بھی ہو۔ یہی ایمان اور یہی سچائی اچھی طرح اُن نقصوں سے ثابت ہوتی ہے جو مسیح نے اُن لوگوں کو جن کے ایمان میں قصور پایا دکھلائے اور تنبیہ دی ۔
۲۔پہلے ایمان کی تعریف بیان ہوئی تھی۔ اب بے ایمانی کی تنبیہ کا ذکر ہے۔ لوقا کے آٹھویں باب میں مرقوم ہے کہ ایک وقت خُداوند مسیح کشتی رواں میں سو گئے۔ اسی عرصہ میں یکایک آندھی آئی شاگرد حتی القدر و حکمتیں استعمال میں لائے تا کہ کشتی کو سنبھالیں پر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ موج کا پانی کشتی میں آنے لگا اور ڈوبنے لگی ۔ وہ سب بحالت ناُمیدی چلاتے ہوئے مسیح کے پاس آئے کہ اُستاد اُستاد ہم ہلاک ہوتے ہیں ۔ اُن کی آہٹ نے اُس کو جگا دیا اُسی وقت آندھی کو ڈانٹا اور دریا میں چین ہو گيا۔ مسیح نے شاگرد وں کی طرف متوجہ ہو کے اُن کو تنبیہ کی ۔کہ کیوں تم ایسے ڈرے اور کس واسطے تم میں ایمان نہیں۔ اس مقدمہ سے تم کو معلوم ہو گا کہ اُن کے دلوں میں قلت(کمی) اُس توکّل کی تھی جس کی تعریف وہ آگے کر چکا تھا ایمانداروں کو چاہیے۔ کہ جب کوئی صدمہ یا بلائے عظیم یہاں تک بھی غلبہ پائے کہ اپنے بچنے کی اُ مید باقی نہ دیکھیں تو بھی خُدا کی قدرت اور رحم سے ہرگز نا امید نہ ہوں۔ ایسی نااُمید ی بے ایمانداروں کا پھل ہے۔ حقیقت میں یہ بے ایمانی ان شاگردوں میں تھی کیونکہ اُنھوں نے مسیح کے معجزے بھی بہت دیکھے تھے۔ اور اس کی قوت اور بھلائی سے بھی واقف تھے یہ کونسی بڑی بلا تھی جس سے مسیح کے اُسی کشتی ميں ہونے کے باوجود اُنھوں نے اس پر بچاؤ کا اعتماد نہ کيا۔تمھاری ملالت (رنج۔اداسی)کے خوف سے میں صرف ایک ہی اور مثال لاتا ہوں۔ جو مرقس کے نویں باب میں لکھی ہے۔ کسی لڑکے کا باپ اپنے بیٹے کو بیماری کی شدت میں لے کر مسیح کے شاگردوں کے پاس آیا اور وہ اُس کو اچھا نہ کر سکے تب وہ دل میں نا اُمید ہو کر بحالت شک کے مسیح کے پاس آکر یوں کہنے لگا کہ اگر تجھ سے ہو سکے تو ہم پر رحم کر ۔ مسیح نے کہا کہ اگر تو ایمان لا سکے تو کامل ایمان سے سب کچھ ہو سکتا ہے یعنی اگر تیرے دل میں میری قدرت اور رحم پر مستقل تو کل ہو تو تیرا بیٹا اچھا ہو سکتا ہے ۔اسی وقت اس شخص نے چلا کر کہا کہ میں ایمان لاتا ہوں میری بے ایمانیوں کو معاف کر ۔ بہت مثالیں اس قسم کی انجیل میں موجود ہیں لیکن جن چار کو ہم نے دونوں باتوں میں بیان کیا ہے اُن سے صاف معلوم ہوگا کہ مسیح کی قوت پر توکّل کرنا ایمان ہے۔ اگر کوئی کہے کہ وہ صوبہ دار اور کنعانی عورت واسطے دُنیاوی فوائد کے ایمان رکھتے تھے۔ اور نجات روحانی چیز ہے ان دونوں کا مقابلہ ہرگز نہیں ہو سکتا تو غور سے معلوم کرے ۔کہ اگرچہ فوائد روحانی اور جسمانی الگ الگ ہیں پر دونوں کے لئے ایمان کی حد اور خاصیت ایک ہی ہے۔ اسی قسم کے ایمان سے نوح نے کشتی بنائی ابراہیم اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے آمادہ ہوا اور موسیٰ نے مصر کی دولت اور حشمت سے خُدا کے لوگوں کے ساتھ مفلس(غريب۔محتاج) رہنا بہتر سمجھا ۔ اگرچہ نتیجے اُن کے الگ الگ ہیں دراصل ایمان ایک ہی ہے ۔خواہ مسیح پر اس نيت سے توکّل رکھیں کہ دُنیاوی بلّيات(بلائيں۔مصيبتيں) سے مخلصی(رہائی) بخشے خواہ بدیں مراد کہ روحانی اعداد بمعنے شیطان دُنیا نفس دوزخ غضب الہٰی سے نجات دے۔ فی الحقیقت حد ایمان کی ہماری حاجت(ضرورت)پر موقوف ہے۔ جس قدر ہماری حاجات ہوں اسی قدر ایمان کی کثرت ہمارے دلوں میں ہونی چاہیے ۔ پہلے ہم اپنے اعمال کو ساتھ قانون فرض کے معلوم کریں اور ہر ایک حکم کو جو روحانی طرح پر ہے سمجھ لیں جیسے کہ مسیح نے متی کے پانچویں باب اور چھٹے اور ساتویں باب میں تشریح کی ہے ۔ خُدا ہمارے دلوں میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ گناہ صرف نسیان (بھولنا)سے ہی نہیں بلکہ بہتیرے گناہ ہم جان بوجھ کے اور بہتیر ے روشنی باطن کے برخلاف مغرور ہو کے ا زروئے سر کشی کے برعکس خُدا کے کرنے ہیں۔ ان گناہوں سے رہائی پانے کی اُمید میں مسیح پر توکّل واجب ہے۔ جیسے کہ پہلے بیان ہوا ۔ اُس کے کفارہ کے خون پر جسے خُدا نے ہماری مغفرت (نجات۔بخشش)کے واسطے معین(مقرر کيا گيا) کیا بالکل بھروسا کرنا اور ایسی استعمال تو کل کفارہ کی عدل کی گرفتاری اور قادر مطلق کےغضب سے ہم کو چھڑا سکتی ہے۔ جب کبھی ہمارا دل گناہوں کے ڈر سے گھبرائے تو مسیح کے کفارہ پر غمگینی کے ساتھ توکّل کرنا واجب ہے۔ اپنی نیکی سے آنکھیں بند کر کے اُسی کی راستبازی سے مدد کا خواہاں ہونا چاہیے۔
ہماری سمجھ بھی بگڑ گئی جس سے شریعت کا سمجھنا ہمارے لئے مشکل ہوا۔ کیونکہ دل تاریک ہے اُس تاریکی کو ہٹانے اور سخت دل کو نادانی اور سر کشی سے باز لانے کے واسطے روشنی الہٰی درکار ہے ۔اس کے لئے بھی خُداوند مسیح پر اُسی طرح توکّل ضرور ہے کیونکہ اس میں طاقت ہے اور وہ چاہتا بھی ہے ۔کہ ایمان دارروں کے دلوں کو روشن کرے اور ان کو روحانی سمجھ بخشے اور ان غلطیوں کو جو خیالی ہیں اور بنیاد اُن کی خُدا کے کلام میں نہیں اور صرف اِنسان نے اپنے خام خيالوں سے پیدا کی ہیں صحیح کرے۔ تمہیں چاہیے کہ اسی طرح متوکّل ہو کر اس سے درخواست کرو کہ موت کی ملالت اور گناہ کی جہالت سے تمہیں رہائی عطا کرے۔ لڑکے کی طرح اس کے قدموں کے تلے بیٹھ کر سیکھنے کی التجا رکھو۔ اور اس کی پرور دگاری اور بندوبست سے بے دل نہ ہو۔
نجات کی واسطے جو کچھ مسیح نے سکھلا یا اور جو روح القدس کی ہدایت سے تمہیں معلوم ہوا بالکل اسی پر بھروسہ رکھ کے یہ دعُا کروکہ تم کو قوت اور استعداد(لياقت۔قابليت) سیکھنے کی بخشے ۔ جیسا اچھا طالب علم اپنے اُستاد کی نصیحتوں کو سیکھتا ہے اعتراض نہیں کرتا تم بھی ویسا ہی کرو ۔ تم اپنے دل سے جانتے ہو کہ تم کمزور ہو فرمان برداری کی طاقت تم میں بالکل نہیں۔ تمہاری جسمانی خاصیت ہمیشہ بُرائی کی طرف راغب(خواہش مند) اور دل کی خواہش ہمیشہ گناہ اور دُنیا کی طرف متوجہ ہے۔ ہزاروں امتحان اس دُنیا میں موجود ہیں جو تمہیں خُدا کی طرف سے ہٹانے پر مستعد (تيار۔موجود)ہیں اور مایوس کرنے کو ہمیشہ آمادہ(تيار۔راضی) ۔ اس حالت میں اسی کی امداد کے شائق(شوقين) ہو کے روحانی احکام کے ماننے میں توکّل رکھو ۔ جتنی اخلاقی اور روحانی خوبیاں تم میں تھیں اور جس قدر خُدا اور عاقبت (آخرت)سے جُدا ہو کر دُنیا اور نفس اور شیطان کی طرف پھر گئی ہیں۔ اُن سب کو پھر لوٹا کے خُدا کی راہ پر لانا اپنی خوشی اور بہبودی کے لئے نہایت مطلوب (طلب کيا گيا)ہے۔ پر اپنی طاقت سے تم یہ کام نہیں کر سکتے اور گناہوں سے پاکیزگی کی طرف وہ دلی باز گشت(واپسی) جو خُدا چاہتا ہے تمہاری طاقت سے بعید (دور۔عليحدہ)اور خُدا کے فضل سے ممکن ۔ اس نعمت کےواسطے بھی تو کل ہی درکار ہے۔ غرض ایمان لانا مسیح پر یہی ہے کہ سب روحانی برکتوں کے لئے جیسا کہ خُدا نے مقرر کیا ہے اسی پر مدار (گردش کی جگہ)چاہیے اور ہر وقت اُس کی عادت ڈالنی واجب ہے یعنی ہر دم اپنے نفس کا انکار کرنا اور اپنی طبیعت کے برخلاف چلنا اور خُدا کے فرمان کے مطابق عمل کرنا اور امداد صرف مسیح کی کامل تصور کرنی لازم ہے۔ ان کے استعمال میں سُست ہونا نہ چاہیے کیونکہ فوج دشمنوں کی غالب ہے۔ اور تم میں جرات نہیں۔ اگر ثابت قدم رہو گے تو وہ قادر مطلق تمہیں طاقت اور فتح دونوں بخشے گا۔
۳۔ میں نے خاصیت اور حد ایمان کی بیان کر دی کہ واسطے بخشش گناہ کے توکّل مسیح اور اس کی امداد پر ہے۔ جس سے تم گناہ کی پابند ی سے چھُوٹو ۔ لیکن ایک امر باقی ہے کہ سکونت(مسکن۔رہنے کی جگہ) ہماری اس دُنیا میں چند روز ہ ہے یہ زندگی جلدی سے ختم ہونے والی ہے اور ایک نئی فی الفور شروع ہونے کو جس کی انتہا کوئی نہیں جانتا۔ اس میں نامعاف گناہوں کی سزا ہمیشہ کے لئے سہنی پڑے گی ۔ اور ضروری خوشیوں اور خُدا کی محبت کو دل میں دخل نہ ہوگا۔ پس حد ایمان کی گویا یہاں تک پہنچتی ہے اور بڑا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ ابد تک پہنچتی ہے اور ہمیشہ کی خوشی اسی ایمان اور توکّل پر موقوف ہے۔ یہ ہمیشہ کی خوشی اور قوت اور خُدا کی محبت اس وقت میں بھی تمہیں تسلی اور تشفی بخشے گی۔ جس وقت اس دُنیا کی چیزیں اور اس جہاں کی مدد تمھارے لئے کام نہ آئے گی ۔ جو کہ صاحب ایمان خُدا کے کلام پر بھی توکّل(يقين) رکھتا ہے اور یقین جانتا ہے کہ ارواح ہرگز مجرد (تنہا)نہیں چھوڑی جائے گی ۔ اور اعضا اگرچہ قبر میں مٹی ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ بھی پھر کسی وقت دوبارہ قائم کئے جائیں گے ۔ اور جلالی بدن میں جی اُٹھیں گے۔ اور اُس مبارک بادشاہت میں جو حکیم برحق اور قادر مطلق نے خوشی و دوام خواص اپنی کے لئے مہیا کی ہے دخل پائیں گے۔ اس دائمی زندگی کی اُمید پر بھی توکّل کرنا اسی ایمان کا پھل ہے جس سے ہم جانتے ہیں۔ کہ خُداوند یسوع مسیح آپ آسمان پر عروج کر کے ہمارے لئے رہنما ہوا ہے۔ اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے جانے والے ہیں۔ یہ تشریح ایمان کی جو ہم نے اس وقت بیان کی اور جس کا منشاء(مقصد۔ارادہ) توکّل ہے واسطے نجات اور افضال متعلقہ اس کے ليے کافی ہے۔ اس کا سمجھنا بہت آسان بلکہ اس قدر بیان ہے کہ جاہل مطلق جن کو ذرہ بھی علم نہ ہو سمجھ لیں گے ۔ کیونکہ ایمان کی بابت علما میں بہت تکرار پہلے بھی ہوتے آئے ہیں اور اب بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ ایسا صاف اور سید ھا مسئلہ ہے کہ ایمانداروں کو اچھی طرح معلوم ہے اور ساری تسلی اسی پر موقوف ہے۔ اور لازم ہے کہ یہ مسئلہ سب مسائل میں سے صاف ہو کیونکہ جس پر رُوح کی نجات موقوف ہو اس کا سمجھنا عام اور خاص کو ضروری ہوتا ہے۔ بھلا اُس کو کون نہیں سمجھتا کہ ایمان ان چیزوں پر توکّل ہے یعنی دانائی راستبازی یسوع مسیح کی نجات ۔ کیا اس دنیا میں مفلس(محتاج۔غريب) اور جاہل مدد مال اور علم کے لئے اُن تو نگروں(دولتمندوں) اور عالموں پر توکّل نہیں کرتے جن کی دولت اور علم پر اُن کو اعتبار ہے۔ یہ کسی آدمی کی سمجھ یا دانائی اُس سے کیا کم ہو گی کہ وہ اپنے اُستاد کے کہنے پر ایمان نہ رکھے ۔خصوصاً جب اُستا د سب طرح کی دانائی اور راستی میں مشہور ہو۔ اگر ایسا اعتقاد(يقين) نہ رکھیں تو استفادہ (فائدہ)کب ہو سکتا ہے اور بڑوں سے امداد کب مل سکتی ہے۔ قرضدار جب آئے قرض کی اپنے آپ میں طاقت نہیں دیکھتا تو ضرور ضامن(ضمانت دينے والا) کا آسرا تکتا ہے پھر یہ کیا مشکل ہے کہ آدمی جو جاہل اور ناچا ر اور گناہوں کے قرض سے دبا ہوا ہے شیطان سے دشمن کے ظلم اور اپنی بد طبعی کیسے مغوی (اغوا کرنے والا)کے اغواء سے رہائی پانے کے لئے مسیح پر توکّل رکھے۔ پس اگر ان باتوں کو جو روز مرّہ اِنسان کے جسم میں ہو رہی ہیں فوائد روحانی کے لئے ایک مسیح پر ہی ڈالیں تو نہایت آسانی ہے۔ اور اس سے روز بروز اعتبار واسطے مدد کے اور شکر واسطے فوائد کے بڑھتا ہے۔
۴۔ ہم ایمان کی خاصیت اور اس کی حد کے مطابق مندرجہ کتبِ مقدس جن میں کثرتِ ایمان کی تعریف اور قلت(کمی) کی سرزنش(ملامت۔بُرا بھلا کہنا) ہوئی ہے۔ بیان کر چکے کہ اس کی مراد دانائی اور راستبازی اور پاکیز گی اور نجات کا مسیح پر پختہ تو کل (يقين)ہے ۔ اب ہم اس کے فوائد کا ذکر کرتے ہیں بسبب ناواقفی تاثیرات ایمان کے کئی بدعات(بُرائياں) اور خرابیاں واقع ہوئی ہیں۔ اور اِنسان نے با عث خود پسندی کے جھوٹھے ایمان کا لباس پہن کر اپنے آپ کو ایماندار تصور کر لیا اور اپنے آپ کو فریب دیا ۔اور دوسروں کو بھی غلطی میں ڈالا ۔ مثلاً خواندہ (پڑھے لکھے)آدمیوں نے اُن پیشن گوئیاں کو جو نبیوں کی کتابوں میں بحق مسیح مندرج ہیں پڑھ کے اور جیسے کہ وہ ہو بہووقوع میں آئی ہیں اُن پر لحاظ کر کے اور ان معجزات کو جو مسیح نے دکھلائے بطور دلیل (گواہی۔ثبوت)کافی کے سمجھ کے واسطے ہرانے بے ایمانوں کے ایک ہتھیار جانا اور جو لوگ کہ انجیل کے منکر (انکار کرنے والے)تھے۔ اُن کے ساتھ بحث کرنے کےلائق ہوئے اور ایسے علم کو ایمان کی جگہ تصور کر کے اپنے آپ کو ایماندار مشہور کیا ۔اور اپنے ایمان کو کامل جان کر کسی بات کا قصور نہ سمجھے ۔ باوجود یکہ اُن کے عمل اچھی طرح ظاہر کرتے ہیں ۔کہ اُن کے دلوں میں بالکل ایمان کی تاثیر نہیں ایسے لوگوں کو اس بات کے قابل کرنا نہایت مشکل ہے ۔کہ وہ ایماندار نہیں ہیں اور جو ایمان برائے نام رکھتے ہی۔ سو صرف ایک خیالی امر ہے کیونکہ مسیحی مذہب کے مسائل سے واقف ہونا اور مسیح کی تواریخ سے بخوبی آگاہی حاصل کرنی اور قواعد نجات کو جو مسیح کی موت کے ذریعہ سے انجیل میں ظاہر ہوئے ہیں استعمال میں لانا ایمان نہیں ۔نئے امور صرف بحث اور مجلسی گفتگو کے لائق ہیں۔ رُوح کو اُ ن سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا ۔ اور اس قسم کا علم نہ گناہوں سے نفرت دیتا ہے اور نہ اُن کا قائل کرتا ہے اور نہ اُن کو ترک کر سکتا ہے ۔ اور نہ دل میں پاک ہونے کا شوق پیدا کرتا ہے ۔ پہلے پہل غیر قوموں میں بھی جہاں مسیح کی منادی اوّل ہوئی تھی اسی خیال نے رواج پایا اور اُ نھوں نے سمجھا کہ مسیحی مذہب میں راستبازی کی کچھ ضرورت نہیں نجات صرف ایمان ہی سے ہے دل کی تبدیل اور فرماں برداری اور توکّل جو ایمان کے ساتھ متعلق ہیں اُنھوں نے کچھ چیز نہ سمجھی اور وہ اپنے باطل (جھوٹ)بھروسے پر یہ کہتے رہے۔ کہ مسیح کی راستبازی ہماری راستبازی اور مسیح کی پاکیزگی ہماری پاکیزگی ہے۔ اُنھوں نے اعمال کی پیروی کرنی چھوڑ دی اور حکموں کو متروک(ترک کرنا) کر دیا۔ جہاں کہیں سچے ایمان کی خاصیت اور حد نہ پہچانی جائے وہاں ایسی ایسی بدعات ضرور ظہور(ظاہر ہونا) پکڑتی ہیں۔ اس مقدمہ میں پُولوس پطر س یوحنا یعقوب رسولوں کے مکتوبات (خطوط)پڑھنے سے معلو م ہو سکتا ہے۔ کہ ایمان بے عمل نکما ہے بلکہ ایمان کا ہونا ایمانداروں کے نیک عملوں سے ثابت ہوتا ہے۔ انگلستان اور جرمن میں اگلے زمانے کے بہت لوگ یہی خیال رکھتے تھے ۔کہ نجات صرف ایمان ہی سے ہے۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہے پر عمل کو بالکل ناچیز جاننا بڑی غلطی ہے ۔ ایمان ضرور مسیح پر توکّل ہے جیسے کہ بیان ہوا ہے اور یہ توکّل واسطے نجات روح کے آخر ت میں دوزخ سے ہے۔ لیکن ویسا ہی تو کل واسطے نجات کے شوق گناہ اور شہوت اور نفس کی سرکشی سے بھی ضروری ہے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آدمی گناہ کے نتیجے سے نجات چاہے۔ اور گناہ کی پلیدی سے نہ بچے اور تمنا کرے کہ باپ فرشتوں کی صحبت اور زندگی دوام(ہميشہ) کے آرام سے حصہ پاؤں۔ پر جو دلی پاکیزگی اُ س صحبت کے لائق ہے اور جس پر سب فرحتیں عاقبت کی موقوف ہیں زندگی میں حاصل نہ کرے۔ تو کل خود چاہتی ہے کہ شب وروز اُس خُداوند کا خیال دل میں رہے تا کہ مدد اور نجات اُس سے ملے ۔ لیکن جب گناہ کے خیال اور شوق دل میں بھر ے رہیں تو خُدا اور خُداوند مسیح کے خیال نے کب دخل پایا۔ آدمی جس گناہ سے بچنے کے لئے مسیح کے پاس آیا اُسی گناہ کو کس طرح دل سے پیار کرے گا۔ غرض ایسا مُردہ ایمان جس میں پاکیزگی کی زندگی نہ ہو ایمان نہیں ہوتا۔
۵۔ ایک خرابی اور بھی پھیلی ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگ بہ سبب تعلیم خور د سالی کے چند عادات مذہبی اختیار کر لیتے ہیں اور انہیں کو ایمان کی جگہ میں نجات کے لئے کافی سمجھ کر اوقات بسر کرتے ہیں ۔ مثلاً گرجا میں جا کے دعائیں مانگنے اور مذہبی کتابوں کے پڑھنے اور مفلسوں پر سخاوت (بخشش۔خيرات)کرنے اور اپنے مذہب کے مقدمہ میں کمُک (مدد)دینے اور اپنا نام مذہبی لوگوں کے ساتھ لینے اور جہاں کہیں مذہب کے تذکرہ کے لئے جماعت اکٹھی ہو وہاں پر حاضر ہونے کو ایمان تصور کرتے ہیں۔ لیکن سچے ایمان سے جو توکّل مسیح پر واسطے راستبازی اور پاکیزگی اور نجات کے ہے۔ محض بے بہرہ ہیں ایسے ظاہر پرستوں کو مناسب ہے ۔کہ اپنے خیالات اور سچے ایمان سے بے بہرگی(آزادی) کو سمجھ کے معلو م کریں کہ اُن کا ایمان اُس بنیاد پر قائم ہے کہ نہیں جو مواخذہ (گرفت۔ جواب طلبی) میں ہرگز جنبش نہ کرے اور ثابت کریں کہ ایمان صرف خیالی ہے تو نہیں بلکہ تبقن واسطے نجات کے ہے ۔ اگر آدمی ایسی نیک چال بھی رکھیں کہ لوگوں کی نظر میں کبھی بُرے معلوم نہ ہوں اور خد اکی رحمت پر بھی ایسا تکيہ ہو کہ وہ کمزوریوں کی حالت میں مدد کرے تس پر (باوجود اس کے )اگر ایمان انجیل کے مطابق نہ ہو تو وہ ایمان کسی کام کا نہیں۔ ان باتوں سے تصور اقسام ایمان کے بخوبی آسکتے ہیں کہ بجا کونسا ہے اور غلط کون۔
۶۔ ایک اور غلطی یہ ہے کہ بعض آدمی بغیر تلاوتِ کلام ربانی اور بدوں صحت خیال ایمانی کے کہتے ہیں کہ ایمان نے ہمارے دلوں میں ایسا غلبہ کیا ہے کہ سب امور ِمذہبی ہمارے دل پر کھل گئے ہیں اور وجد (ديوانگی)کی حالت میں آ کر اپنے آپ کو سچا ایماندار گنتے ہیں اور گناہ کی مغفرت (معافی) اور پاکیزگی کی بنیاد اسی اندرونی خیال سے تصدیق کر لیتے ہیں ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے گناہ سے توبہ اور مسیح پر توکّل جس پر عفو (معافی) گناہ کے وعدے کئے گئے ہیں اپنے دل کے تجربہ میں پائی ہے یا نہيں ۔ کیونکہ اگر چہ خُدا نے بعض اوقات اپنی کمال رحمت سے بعض اشخاص پر اپنی محبت کا پرتو (روشنی)آسمانی طریقہ سے روشن کیا ہے لیکن نجات اور فضل ِربانی واسطے عفو گناہ (گناہ کی معافی)عوام کے اس طریق پر ظاہر نہیں ہوئے ۔ انبیاء اور شہدائے بحالت وجد(بے خودی ) آگ کے شعلوں میں بھی شکر گزاری کے راگ گائے ہیں اور بہت تکلیف کی موت میں بھی انتقام کی طبع (عادت)پر غالب آ کے اپنے دشمنوں کے لئے دعائیں مانگی ہیں۔ لیکن عوام کو یہ برکات ميسر نہیں ہیں ہر ایک اِنسان کو نہیں چاہیے کہ ایسی آسمانی ناگہانی برکت حاصل کرنے کی گمانی التجا رکھے۔ وجد میں آ کر خُدا کی رحمت پر اس قدر خوش ہونا کہ اپنے ظاہر ی کا موں سے بالکل بے خود ہو جائے اور شے ہے اور مسیح پر واسطے نجات دوزخ اور رہا ئی گناہ اور مخلصی شیطانی امتحان کے توکّل رکھنا اور شے ان دونوں میں زمین اور آسمان کا تفاوت (فرق) ہے بخشش کی گواہی اپنی اپنی طبیعت کے وجد سے سمجھ لینی ایک قول و فعل کا اعتبار کرے اور کوئی رحم دل آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تُرک عیسائی رعایا پر حکمرانی کرنے کے لائق ہیں کیونکہ جیسے جیسے ظلم بہ اعانت(مدد) سلطان روم تُرکوں نے عیسائیوں پر کئے ہیں وہ ظلم کسی سر زمین پر نہیں ہوئے۔ اور کسی مذہب میں ایسے ظلم و ستم روا نہیں رکھے گئے ۔ چنانچہ اس ہفتہ میں ہم نے ایک انگریزی اخبار میں تُرکوں کے ادنی ٰظلم کی ایک تصویر چھپی ہوئی دیکھی جس میں دکھا یا گیا ہے۔ کہ چند عیسائی درختوں سے بندے ہوئے لٹک رہے ہیں اور نیچے اُن کے آگ جل رہی ہے۔ پیر اُن کے جل کر بھسم ہو گئے ہیں چہروں پر مردائی چھا ر ہی ہے۔قریب ہے کہ اس طرح تڑپ تڑپ کر اُن کے دم نکل جائیں۔
اُسی اخبار میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ تُرک اس سے بھی زیادہ زیادہ ظلم عورتوں پر کرتے ہیں ۔اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ نہایت ہی بے رحمی سے پیشی آتے ہیں۔
دیکھو سلطنت روم نے کیسی دھوکے بازی کے ساتھ ہفتہ گذشتہ میں چند شہروں پر قبضہ کر لیا یعنی حسب فہما یش (تلقين۔نصيحت)سلاطین دیگر باغیوں کے ساتھ یہ اقرار کیا کہ ہم کو چھ ماہ کی مہلت دینی چاہیے ۔جس پر روس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ بجائے چھ ماہ کے چھ ہفتہ کی مہلت ہونی واجب ہے۔ سلطان روم نے ۲۸ اکتوبر کو يہ امر قبول کيا مگر ۲۹ ،۳۰ اکتوبر کو باغیوں پر اچانک حملہ کیا گیا اور بڑے بڑے دو شہر اپنے قبضہ میں کر لئے ۔ یہ فعل شہنشاہ روس کو ناگوار ا گزرا فوراً اطلاع دے گئی کہ اگر ۴۸ گھنٹہ کے اندر چھ ہفتہ کی مہلت منظور ہو تو قبول کرو ۔ورنہ تمام تعلقات توڑ دئیے جائیں گے اب اس پر سلطان روم نے پھر اقرار کیا ہے کہ ہم دو ماہ تک جنگ نہیں کریں گے۔
تار برقیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام یورپ کے سفیر روم میں جمع ہو ں گے اور مشرقی معاملات پر غو رکریں گے ۔اب ہم کو یقین کامل ہے کہ اگر سلطان روم نے ان سفیروں کے برخلاف کچھ بھی کیا تو سلطنت روم کی خیر نہیں اور ان کے جمع ہونے سے تُرکوں کے ظلم بھی صاف صاف ظاہر ہو جائیں گے۔
ایک آزاد شخص کہتا ہے کہ سلطنت روم اب بہت بیمار ہوگئی ہے ۔اس کے علاج کے واسطے کئی سلطنتوں سے ڈاکٹر آئیں گے اور بیماری کی تشخیص کریں گے چنانچہ سلطنت انگلنیڈ سے جناب لارڈ سالبری صاحب وزیراعظم بھی بیمار سلطنت کے دیکھنے کے واسطے تشریف لے جائیں گے۔
ہم نے اس معاملہ کو کہ لودیانہ میں فقیر لوگوں کے برتن اُٹھا لے جاتے ہیں۔ اچھے اور معتبر لوگوں سے دریافت کیا بلکہ ہم نے پولیس سے بھی پوچھا یہ ہی جواب پایا ۔کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے اور کوئی شخص جو حکام سے عداوت (دشمنی)رکھتا ہے ایسی باتیں جن کی کچھ بھی بنیاد نہیں ہے اوڑتا ہے اب کا ر سپانڈنٹ کو ہ نور کو جو لودیانہ کے حالات لکھتا ہے مناسب ہے کہ اپنی تصدیق کے واسطے دو چار جگہ کا نام لکھ کر بتلائے کہ فلاں فلاں جگہ سے برتن فقیر اُٹھا لے گئے ہیں۔ اور اگر اس بات کا کچھ ثبوت نہیں ہے تو ضرور اپنے لکھے کی تکذيب(جھٹلانا۔جھوٹ بولنے کا الزام لگانا) کرانی مناسب ہے۔ ورنہ حکام پولیس جن کی اس میں غفلت(لاپرواہی) اور بے انتظامی پائی جاتی ہے دعویٰ کر کے سز ا دلوايں گے۔
واسطے عفو گناہ کے مسیح پر توکّل کر نے کا سبب ۔
اُ س خُدا نے جس نے ابتداء میں طریقہ مغفرت (بخشش۔نجات)کا مسیح پر ایمان لانے سے ظاہر کیا ۔خواص اور جلال اُس بچانے والے کے بھی پاک کتاب میں مندرج کئے جس سے ایماندار وں کے دل میں بنیاد تو کل کے سبب قوی(طاقتور۔زور آور) پیدا ہوں۔ یہی خُدا کی گواہی مسیح کے جلال اور عظمت پر یسوعی ایمان کی بنیاد ہے۔ اور نجات کی باتیں ایسی صاف اور باقاعدہ معلوم ہوتی ہیں کہ کسی جگہ اُن میں اشتباہ(شک۔مشابہ ہونا) کی گنجائش نہیں ۔ جس دن سے گناہ نے دُنیا میں دخل پایا اور اِنسان اپنے خالق کی نظر میں خطا ء کا ر اورغصب کا سزا وار ٹھہرا۔ اُسی دن سے نجا ت کا وسیلہ بھی خُدا نے ایسا ظاہر کیا ۔جس سے آدم اور اُس کی اولاد اُس کی رحمت سے نااُمید اور ہر اساں نہ ہوئے ۔
بائبل کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ خُداوند یسوع مسیح صرف اِنسان ہی نہ تھا بلکہ الوہیت(خُدائی) بھی اُس میں تھی ۔جو کلام ابتداء میں تھا وہ کلام خُدا تھا اور ساری چیزیں اُس سے بنیں۔ اور جو سنیں بغیر اُ س کے ذریعہ کے نہیں بنیں۔ بسبب اس اصلی الوہیت کے جب خُداوند یسوع مسیح زمین پر واسطے فدیہ(خون بہانا) گنہگاروں کے پیدا ہوا۔ اگر چہ وہ اور طفلوں(بچوں ) کی طرح صر ف ایک طفل (بچہ)تھا اور مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا اور بعد پیدائش طویلہ(اصطبل) میں رکھاگیا۔ لیکن اُس وقت خُدا باپ نے فرشتوں کو فرما یا کہ اُس کی پرستش کریں اور سارے فرشتوں نے یوں پکار ا کہ خُدا کو آسمان پر جلال اور زمین پر امن اور اِنسان کو رضا مندی ۔
پھر پیدائش خُداوند مسیح کی خبر چرواہوں کو دی کہ خُدا ہمارے ساتھ ہو اسی واسطے عمانوائيل نام رکھا گیا ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح میں الوہیت بھی تھی ۔اور اسی واسطے نجات کے لئے اُ س پر تو کل سارے تائب (توبہ کرنے والا) ایمانداروں کے دلوں میں مستقیم (درست۔مضبوط)ہے اور سب نبیوں نے مثل ا شعیا اور دانیال کی بابت الوہیت مسیح کے خبر دی۔ اور اُس کے کفارہ میں جان دینے پر یہ بڑائی کی کہ اُس نے گناہ کو ختم کیا اور انسا ن کو رہائی بخشی ۔ اور یسوع مسیح کی الوہیت واسطے کفارہ گناہ کے توکّل کی پکی بنیاد ہے۔ کیونکہ اگر وہ خُدا نہ ہوتا تو گناہ بخشنے کا اقتدار ہر گز نہ رکھتا ۔ اس مقدمہ میں خُدا نے خود فرمایا ہے کہ خُدا نے دُنیا پر ایسا پيار کیا کہ اپنا اکلوتا پیارا بیٹا بخشا ۔ تا کہ جو کوئی اُ س پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے ۔فقط و ہ خُدا کا بّر ہ ہے جو جہان کے گناہ اُٹھا لئے جاتا ہے اُس نے ہمارے گناہ اُٹھا لئے ۔ کیونکہ وہ خُدا بھی اور اِنسان بھی تھا ۔
غور کرو کہ اگر خُدا ایسے شخص کو جیسا مسیح ہے مقرر کر کے صرف آسمان پر رکھ کے گنہگاروں کو اطلاع دیتا۔ کہ اُس پر ایمان لاؤ گے تو تمہارا شفیع(شفاعت کرنے والا) ہو گا ۔اور اُس کی شفاعت گناہ کی مغفرت کے لئے مقبول ہو گی تو بھی ہر ایک کو لازم ہوتا کہ اُس پر ایمان لاؤ۔ خُدا نے اُسے صرف مقرر ہی نہیں کیا بلکہ زمین پر بھیجا اور اپنا رحم اور عدل دونوں ایک جگہ میں ظاہر کئے ۔ اگر مسیح صرف اِنسان ہی ہوتا اُ س کا کفارہ معافی کل جہان کے لئے کافی نہ ہوتا ۔ اور اگر وہ صرف الوہیت میں لوگوں پر خُدا کی جیت ظاہر کر تا تو عدل پورا نہ ہو سکتا ۔ اسی واسطے خُدا اور اِنسان کا متوسط(اوسط درجہ کا۔درميانی) ہوا جیسا کلام میں تذکرہ ہوا ہے کہ خُداوند مسیح میں الوہیت تھی ۔جسے آسمان کے فرشتے پر ستش کرتے تھے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ اِنسان گمراہ کے بچانے کے لئے اُس نے آ کے جان دی ۔
مسیح کی پیدا ئش سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اُس میں ضرور الوہیت تھی کیونکہ اُس میں لکھا ہے کہ اُس نے فرشتہ کی صورت نہ پکڑی بلکہ ابراہیم کی اولاد میں پیدا ہوا تا کہ گنہگاروں کا نجات دہندہ ہو۔ ان دونوں خاصیت کا ہونا مسیح میں ضرور تھا۔ تا کہ وہ خُدا ہو کے خُدا کا حق پہچانے اور اِنسان ہو کے اِنسان کی کمزوری پر رحم لائے ۔ اور یہی دونوں خاصیت واسطے تقویت(قوت۔طاقت) بنیاد تو کل کے پاک کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں ۔ اس جگہ میں لکھنا اُن کا ضرور ی نہیں۔ کلام کے پڑھنے والوں کو آپ ہی معلوم ہوگا کہ مسیح میں یہ دونوں خاصیتيں موجود تھیں۔ اور اسی واسطے وہ ہمارے لئے نجات دہندہ کامل اور واسطے عفو(معافی بخشنا۔بخشش)گناہ کے توکّل اُس پر بخوبی ہو سکتا ہے ۔ یہودیوں نے مسیح کے حق میں یہ غلطی کی کہ وہ اُس کو بادشاہ صاحبِ حلال الوہیت سے پُر اُن کو دشمنوں سے چھڑا نے والا شجاعت(بہادری۔دليری) میں بہادر انتظار کرتےتھے۔ اور مسیح برعکس خیال اُن کے مفلس(حاجت مند) آدمیوں کی صورت میں پیدا ہوا ۔اور ہر ایک قسم کی تکلیف میں اُس نے اپنے آپ کو ڈالا ۔ سامنے پلا طوس کے حاضر ہوا گو ساری دُنیا کا منصف یعنی مسیح اُس بُت پرست حاکم کے سامنے انصاف کے لئے لایا گیا کیونکہ خُدا نے ہمارے گناہ اُس پر ڈالے تھے ۔ جب دوسرے گنہگار واجب القتل نے پلاطوس کے ہاتھ سے رہائی پائی تو اُس نے مسیح کے حق میں صلیب کا فتویٰ دیا۔ یہ سخت سز ا جو مسیح پر وارد ہوئی ۔ ہمارے گناہوں کے سبب تھی ۔ فی الحقیقت عدول حکمی ایسی ہی سزاکا تقاضا کرتی ہے۔ جس سے ساری دُنیا غارت ہو۔ اور یقیناً مسیح نے ایسی ہی سزا اُٹھائی جس سے ساری دنیا کو نجات ملے۔ سزا کا بوجھ جو مسیح نے اُٹھایا ایسا سُبک(ہلکا۔کم وزن) نہیں تھا کہ صرف اِنسانیت اُسے اُٹھا سکتی عدول حکمی کی سزا اُن فرشتوں سے بھی اُٹھائی نہیں گئی۔ جو اِنسان سے طاقت اور لیاقت کئی درجہ زیادہ رکھتے تھے۔ اُسی سزا میں وہ فرشتے عمدہ آرام آسمانی سے شیطان کی طرح دوزخ کے لائق ہوئے ۔ پر خُداوند مسیح نے اپنے جسم میں بسبب سنبھا لنے اور تھا منے الوہیت کے وہ آسمانی غضب اُٹھا یا ۔اور خوشی سے اُس کو سہا۔ لیکن تو بھی بوجھ اس غضب کا اس کے اِنسانی جسم پر بخوبی معلوم ہو ا ۔اور ایک بات سے جو ساری تکلیفوں سے زیادہ تر قو ی تھی وہ گھبرایا ۔ دیکھو اُس نے پلاطوس کے آگے واسطے رحم کے کچھ درخواست نہ کی۔ اور جب یروشلیم کی عورتیں اُ س پر رونے لگیں تو اُس نے حلم (نرمی)سے اُن کو کہا ۔کہ اپنے فرزندوں کے لئے رو ٔمجھ پر نہ رؤ۔ اور پھر بخوشی خود صلیب کو قبول کیا۔ اور جیسے بھیڑ بال کترنے والوں کے آگے چپ رہتی ہے ویسے ہی سارے دُکھ سہتا رہا۔ لیکن جب خُدا کا غضب اُ س پر نازل ہوا اور خُدا نے اپنی الو ہیت کا چہر ہ اُس سے جدا کر لیا تب مسیح چلا یا۔ کہ اے میرے خُدا اے میرے خُدا تو نے مجھے کیوں ترک (چھوڑنا)کیا ۔ اس سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح گنہگار وں کو نجات دینے میں کامل اور توکّل اُس پر بجا اس قدر صاحب ِجلا ل ہو کے ایسا پست بنا اور خُدا کی رحمت سے یہ بھی آشکار ا (واضح۔ظاہر)ہے۔ کہ اُس خُدا نے ہم سے ایسا پیا ر کیا کہ اپنے اکلوتے اور پیارے بیٹے کو بھیجا ۔تا کہ گنہگار اس کے وسیلے سے نجات پائیں۔ پس اُس کلام پر تکیہ(بھروسہ۔پورا اعتماد) نہ کرنا نہایت گناہ ہے اگر چہ تمہارے گناہ شمار میں بے حد ہیں تو بھی مسیح سے بخشش کے اُمیدوار ہو سکتے ہو ۔ کیونکہ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کو اُ س کا خون صاف نہ کر سکے۔ اور کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا بدلہ اُس نے نہ دیا ہو۔ا ور کوئی سزا گناہ کی ایسی نہیں جو اُس نے نہ اُٹھائی ہو اور اس کی نجات خُدا کی مقر ر کی ہوئی ہے۔ پس تو کل کرو کہ اُس نےعدل(انصاف) کو پورا کیا اور شریعت کو عزت دی اور رحم کو ظہور میں لایا۔ اور گناہوں کی سزا اپنے آپ پر اُٹھائی۔
اب ہم وہ مدد جو مسیح سے حاصل ہوتی ہے اور وہ چھٹکار ا جو مسیح بخشتا ہے ۔ اور وہ قہر اور غضب شریعت کا جو اُس نے ہمارے لئے اُٹھایا۔ اور وہ روشنی فہم کی جو اپنے کلام کے ذریعہ سے ہم کو عطا کی ہے بیان کر چکے۔ لیکن ایک اور بات باقی ہے جس کا ذکر اب کرنا چاہتے ہیں اور وہ نجات کے لئے لازم ہے یعنی آدمی بذانہ دُنیا کا غلام ہے اور دُنیاوی شہو تو ں (جنسی خواہش)کالالچ اور عادات طفلا نہ(بچپن کی عادات) اور حسد اور تکبر اُس کے دل میں موجود ہیں یہی نہیں کہ اُن چیزوں کو صرف رغبت(خواہش۔توجہ) سے استعمال ہی میں لاتا ہو بلکہ اُس کے کاموں سے صاف معلوم ہوتا ہے ۔کہ ان شہوتوں کے قبضہ میں ایسا آرہا ہے جس سے چھوٹنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔اور جب تک اپنی طاقت سے چھوٹنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تب تک ہرگز چھوٹ بھی نہیں سکتا۔ ہر ایک امتحان میں جس کا وہ مغلوب(عاجز۔ہارا ہوا) ہوتا ہے یہ بات اُس کو سچ معلوم ہوتی ہے ۔ اگر چہ اپنی نانوانی کا اقرار کرنے میں ظاہراً ندامت(شرمندگی) ہے لیکن بچنے کی راہ کی تلاش نہ کرنی عین حماقت(بے وقوفی) ہے ۔ بعضوں کو بذاتہ اور بعضوں کو تعلیم سے کچھ کچھ نیک عادتیں حاصل بھی ہیں۔ مگر اندرونی بداخلاقی تس پر بھی وقتاًفوقتاً اُن کے علم کے برخلاف غالب ہو جاتی ہے اور طبیعت کو بالکل پراگندہ (پريشان۔حيران)اور تلخ(سخت ۔ناگوار) بناتی ہے۔ یہ غلامی زیادہ تر غم افزاء اور برداشت سے باہر ہوتی ہے۔ جس قدر خُد اکے انصاف اور گناہ کے حالات سے اِنسان واقف ہوتا ہے اُسی قدر اُس غلامی سے چھڑانے پر مسیح قادر ہے۔ اس مخلصی کے لئے بھی خُدا کا یہ حکم ہے کہ مسیح پر توکّل کرو ۔اور اُسی کی قوت پر بھروسا رکھو ۔ اگلے زمانے کے نبیوں نے بھی مسیح کی خاصیت کو اسی طرح بیان کیا ہے ۔کہ وہ گناہ سے چھڑانے پر قادر اور شیطان کی جنگ میں بہادر ہے۔ اور اُس کے قبضہ سے پھر کوئی نہیں چھُڑا سکتا ۔ مسیح کی ظاہر ی پست حالی پر خیال کر کے کوئی یہ نہ سمجھے کہ گناہ کی غلامی سے چھڑانے پر اُس کی قوت کم ہے۔ کیونکہ انجیل کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اُس نے گونگے کو زبان دی اور بہر ے کو کان اور لنگڑے کو پاؤں عطا کئے۔ اور اندھے کو آنکھیں اور مردہ کو زندگی بخشی۔ اور آندھی اور دریا نے اُ س کا حکم مانا اور دریا کی موجیں اُس کے خوف سے تھم گئیں ۔ آندھی میں اگرچہ دوزخ کی قوت ہے اور اِنسان پر وہ غالب ہے۔ لیکن مسیح پر غالب نہیں اُ س کی قدرت ان سب چیز و ں پر فائق (اعلیٰ)ہے۔ ہمارے ایمان اور توکّل اور اُمید کی تقویت (طاقت۔قوت) کے واسطے پاک کلام میں بارہا مذکور ہوا ہے کہ مسیح ہم کو گناہ کی غلامی سے آزاد کرنے والا ہے ۔ خراج لینے والوں کو جو گنہگاروں میں بڑے شمار ہوتے تھے۔ اور زنانِ قحبہ کو جو عورتيں فاحشہ گنی جاتی تھیں مسیح کی قوت نے شہوتوں سے رہائی دی ۔غرض گنہگاروں کو گناہ سے رہائی بخشنے کی قوت جو مسیح میں ہے اُس کا تذکرہ میں کہاں تک کروں سب کلامِ ربانی انہیں باتوں کی تواریخ ہے ۔اور سارے مسیح لوگ اس کلام کے گواہ ہیں دیکھو اُس خونی کو جو مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا تھا مسیح نے کہا کہ توآج ہمارے ساتھ فردوس میں ہو گا ۔یعنی میں تجھے بہشت میں اس امر کی علامت کر کے لے جاؤں گا کہ ہم شیطان پر غالب ہوئے ۔ ایسا ہی جو لوگ کہ مسیح پر ایمان لاتے ہیں اور دُنیا اور نفس اور گناہ پر غالب ہوتے ہیں قوتِ مسیح کی علامت ہیں۔گویا کہ اُس نے اُن کو شیطان کے ہاتھ سے چھڑا دیا ۔اور جل(پانی) نےتنکے کو آگ سے بچا لیا ۔ہر ایک دل جو مسیح کی قوت سے صاف ہوتا ہے اور ہر ایک طبع(طبيعت۔مزاج) جو گناہ سے پھر کے خُدا کی طرف رجوع ہوتی ہے۔ اور ہر ایک گنہگار جو گناہ سے توبہ کر کے شیطان کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے اور مسیح کا سپاہی کہلاتا ہے۔ مسیح کی قوت کا نشان ہے۔ یہ خاصیت مسیح کی بھی بائبل میں اُس کے لقب کے مطابق ہے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ فا تح اور دشمن پر غالب ہو گا۔ جھوٹ کو کچلے گا اور راستی کو قائم کر ے گا ۔ اگر کوئی کہے کہ مسیح کی موت اور قبر اس کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے۔ تو یہ پاک کتابوں کی ناواقفی سے ہے کیونکہ مسیح قبر میں اس واسطے نہیں گیا ۔کہ قبر کا پابند ہو بلکہ فتح مند کی مانند تھا ۔اس واسطے قبر کے بندکو اور موت کی سلطنت کو توڑ کے اُن دونوں پر غالب آیا ۔اور مر کے تیسرے دن جی اُ ٹھا ۔پس اُس پر تو کل کرنا ہمیشہ کی موت سے چھٹکارا ہے۔ یہ مر کے جی اُٹھنا اُس کا قوت الہٰی ہے ۔جس نے نبیوں کے کلام کو پورا کیا اور تمام آدمیوں کی اُمید کا پہلا سبب ہوا ۔اور ظاہر کر دیا کہ ساری خلق مر کے پھر جی اُٹھے گی جیسے کہ لکھا ہے کہ جاگ اور گااے تُو جو خاک میں بستی ہے۔ تيری شبنم اورتيری سبزیاں قائم ہیں کہ زمین اپنے مُردوں کو نکال دے گی باب ۲۶ آیت۹ يسعياہ نبی کی ۔ پس ان کاموں سے مسیح کی قوت صاف ظاہر ہے اور ہماری توکّل کی بنیاد وہ ہم کو صرف گناہ کی سزا ہی سے نہیں چھڑاتا۔ بلکہ گناہ کی قوت سے بھی چھڑاتا ہے پولوس حواری(شاگرد) نے بھی لکھا ہے کہ وہ صاحب ِنجات جو اپنے نام پر توکّل رکھنے والوں کو نجات کے دشمنوں سے رہائی ديتا ہے ہمارا مياں جی (اُستاد۔معلم)منصب ميں یہ اقتدار رکھتا ہے اور ہمارے سارے دشمنوں پر ایسی حکومت کرتا ہے ۔کہ جب تک مخالفت گناہ اور شیطان اور خُدا کی موقوف نہ ہو تب تک اسی مياں جی کے تخت پر بیٹھے گا ۔اور وہ خُدا کے دہنے ہاتھ پر بیٹھا۔ تا کہ تمام قوتیں اور ساری ریاستیں نہ صرف دُنیاوی جو موجود ہیں بلکہ عقبی (پيچھے)کی بھی اس کے قدم تلے کی جائیں اورکلیسیاء کی ساری چیزوں پر مختار(سر پرست) رہے گا۔ امتحان کی تعداد اور قوت کتنی ہے تصور کرو اور اِنسان کی کمزوریوں اور بدعادتوں اور شیطانی فريبوں کو کتنا ہی خیال کرو سب مسیح کی قوت کے نیچے ہیں ۔وہ اپنے لوگوں کو پاک کرے گا اور خاص قوم بنا کر خُدا کے حضور میں پہنچائے گا۔ مسیح ایمانداروں کا بادشاہ ہے کہ سب روحانی ظلموں اور ناپاک شہوتوں سے رہائی بخشتا ہے ۔اگر کوئی شخص حلم اور پائيداری سے مسیح کی قوت پر توکّل کرے تو تجربہ سے معلوم کرے گا کہ یہ سدا ہی خوبیاں اُس میں ہیں۔ اور گناہ کی بلا میں ہرگز گرفتار نہ رہے گا ۔ مسیح پر توکّل کرنے والے گناہ پر ضرور فتح پائیں گے ورنہ اُن کو خُد اکے کلام میں شک ہو گا۔ جس قدر اس بات میں کہا گیا اسی قدر ایمان میں تقویت پیدا کرنے اور مسیح پر توکّل کی بنیاد مضبوط کرنے کو کفایت کرتا ہے۔ کہ وہ بچانے والا واسطے دانائی اور راستبازی اور پاکیزگی کے کافی ہے۔