سر سیّد احمد خان بہادر کی غلطیاں چند قابل اعتراض

Eastern View of Jerusalem

Some Offensive Objections of Sir Syed Ahamd Khan

By

Allama Abdullah Athim Masih

علامہ عبداللہ آتھم مسیح

Published in Nur-i-Afshan April 16, 1891

نور افشاں مطبوعہ۱۶ اپریل۱۸۹۱ ء

۱۔  یہ کہ فقرہ کا حد ممنوع مندرجہ باب ۳ آیت ۲۲ کتاب مسمی بہ پیدائش موسوی میں جملہ ممنوع کے داخل کلمہ نو کے معنی اُس یعنی ضمیر واحد غائب کے بھی ہو سکتے حسب فرمانے آنجناب کے ہم کو تسلیم ہیں الا بموجب کتب لغات اور صرف و نحو عبرانی کے بمعنی ہم یعنی جمع متکلم جناب کو بھی تسلیم ہونے چاہیں ۔ باقی رہا یہ سوال کو متن کلام بموجب انسب اورو  اضح معنی کو ن سے ہیں۔ وہ پورا فقرہ کو جس میں کلمہ متنازعہ واقع ہے سو یہ ہے کہ یہوے الوہیم نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ( بقول مسیحییانِ تثلیثی ) ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا ( اور بقول سر سیّد صاحب ) ا ن سا یکتا ہو گیا ۔ یہاں پر مرجوع (رُجوع کیا گیا)اسم ضمیر جمع متکلم ہم کاتو یہوے الوہیم متن میں ظاہر ہے لیکن اسم ضمیر واحد غائب اُس کا متن کلام میں تو کہیں نہیں تاہم سیّد صاحب فرماتے ہیں کہ اُس کا مرجوع (رُجوع کیا گیا)وہ آدم ہیں جو آدم معروف سے پہلے گناہ کر کے گذر گئے ۔ اب یہ تاویل (تشریح)بھی آنجناب (عالی قدر)کی نہ تو کہیں کلام بائبل سے فروغ (روشنی)پاتی ہے نہ جیالجی (جیالوجی)سے اور نہ کہیں اور کسی واقع معقولی یا منقولی (منطقی اور نقل کیا گیا)سے تو کس قدر خیالی اور بےجا ہے کہ جس کا کچھ حد ٹھکانا نہیں ۔ یہودی جو کہتے ہیں کہ یہاں جمع متکلم میں مقرب فرشتے بھی داخل ہیں اگرچہ بوجہ اُس کے کہ فرشتے بھی مخلوق اور محتاج با لغیر ہر امر میں ہو کر ذاتی علم بدی کا نہیں رکھ سکتے اور کسبی علم رکھیں تو لائق صحبت اقدس خالق کے نہیں رہ سکتے لہذا غلط ہی ہیں تاہم گستاخی معاف سر سیّد صاحب سے کچھ بہتر ہیں۔

۲۔  الوہیم میں کلمہ یم جمع تعدادیہ کا سیّد صاحب نہیں مانتے مگر تعظیمہ کا مانتے ہیں اور حجت (بحث)اپنی اسماء (اسم کی جمع )بعلیم و اشتراثیم سے  قائم فرماتے ہماری نظر میں اسماء خاص میں جمع تعظیمیہ نہ تو کبھی اور کہیں واقع ہوئی اور نہ ایسا سبھاوک (ممکن)ہے کلمہ الہ کہ جس کی جمع الوہیم ہے اسم خاص ہی ہے موقع متنازعہ پر تو بعلاقہ یہوے خاص یہ کلمہ آیا ہے جو بالخصیص نام خدا کا ہے مگر جہان بمعنی  قضات مستعمل ہوا ہے وہاں بھی تعدادیہ ہی ہے نہ تعظیمیہ اور اشتراث فرضی دیوتا   تھے اور زمانہ سلف (اگلا زمانہ)میں صرف اُن کی مورتوں ہی میں پوجے جاتے تھے لہذا بلحاظ کثرت مورتوں کے اُن کی جمع بعلیم اور اشتراثیم بنی ہے ورنہ نبی خدا کے بتوں کو تعظیم کیونکر دیتے یا موقع نقل یا مزاح کا کون سا تھا۔

۳۔  سر سیّد صاحب الہام کو القاء فطرتی (خدا کی طرف سے بات)اس لئے قرار دیتے کہ وہ ایسے معجزہ کے قائل نہیں جو بدون دخل علم یا قدرت بے حد کے بو قوع نہ آسکے۔ اسی لئے قدرت خالقہ کے بھی وہ منکر ہیں۔ہاں البتہ قدرت ترکیب دہندہ حکیم مطلق و کامل کے وہ قائل ہیں مگر خدا کو خالق اشیاء محدود الوجود کا نہیں مانتے۔ ہمارے نزدیک کوئی شے قدیم نہیں ہو سکتی جب تک کہ صفت ضرورت مطلقہ اُس  کی بنیاد ہستی کی نہ ہو جو ضرورت محتاج یا مغلوب غیر باقی نفسہ (ذات)تغیر پذیر(تبدیلی ہونے والی) نہیں ہو سکتی اور کہ نہ تو وہ خود ارادہ ہے اور نہ شخص صاحب ارادہ لہذا حد مکانی یا زمانی اُس کو کوئی  نہیں لگا سکتا معہذا جو شے محدود فی المکان باز مان ہے وہ لابدً (بدی سے پاک)حادث بھی ہے کیونکہ جس نے ایک حد اُس کو لگا دی وہ عدم میں بھی اُسے پہنچا سکتا ہے اور جو عدم میں جا سکتی وہ عدم ہی سے بالضرور آئی بھی ہے۔ عدم کو سامان وجود کسی شے کا تو ہم بھی نہیں مانتے مگر ایسی قدرت کا انکار بھی درست نہیں جانتے جو بغیر سامان کچھ بنا سکے گو ہمارے علم و طاقت سے وہ باہر ہو۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کثافت کثافت کو جگہ نہیں دیتی اور مساوی لطیف اشیاء ایک جاجمع ہو کر علیٰحدہ علیٰحدہ نہیں رہ سکتی لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ایک ایسا لطیف کہ جس کی لطافت بضد مطلق کثافت کے ہو نہ بہ نسبت کسی کثیف تر شئے کے جو کہ بغیر چھید کے بندھ سکے ہمہ جاکیوں نہ ہو سکے اور بینظیر مطلق میں کوئی شے  کیونکر ایک ہو سکے ضرورت ایسے خالق کی حد وجود ی اشیاء میں ظاہر ہے۔

۴۔  سرسیّد صاحب کا یہ گمان بھی غلط ہے کہ ارادہ کی تحریک کے لئے سبب فایق کی ضرورت ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ جہاں دو کششیں مساوی اور ضدفی الحال درآن واحد ہوں تھاں رویا قبول احدے کے لئے سبب فایق کو ن سا ہو سکتا ہے اور چنچل ان ہر دو میں آرام کیونکر پا سکتا ۔ اگر کہہ دو کا مساوی ہی ہونا محال ہے تو کیا شے مانع ایسے امکان کی ہے یا بتاؤ کہ تب آزادی اور ندامت کا  مخروج کو ن سا ہے۔

۵۔  وہ جو سیّد صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن میں ایمان بالجبر کی تعلیم مطلقاً نہیں مگر یہ کہ یا مانو یا مرو یاجزیہ گزار ہو کر جیو۔ ہم پوچھتے ہیں کہ شرط جزیہ بخبر خاص اہل کتاب کے عام کے لئے کہاں ہے۔ سورہ توبہ کے ع ۴ میں جہاں صرف یہ شرط بیان ہوئی ہے۔ اگر کلمہ من جملہ     من الذين میں فاصل اور مستثنٰی اہل کتاب کا نہیں توذکر اہل کتاب کا کیا معنی رکھتا ہے۔ لا اکراہ فی الدین کے معنی بروئے قرآن کراہت ایمان با لجبر کی نہیں مگر ممانعت باہمی لُوٹ مچائی کی ہے جو بہ بہانہ نافہمی کے مسلمان مسلمان کو لوٹ لیتا تھا اور لکم وینکم ولیدین میں ذکر امر واقعی کا ہی ہے نہ کسی امر دہنی کا ۔ انتقا م اور انتظام کے جہاد بھی قرآن میں البتہ ہیں مگر سورہ توبہ کے ع ۴ میں ا س لئے بھی قتل کا حکم ہے کہ جو خدا اور قیامت کو نہ       مانے اور اللہ و رسول کی حرام ٹھہرائی شے کو حرام نہ جانیں۔ مامنہ گھر ا سیر کا نہیں مگر وہ جگہ جہاں اس پر کوئی ظلم نہ کرے اور وہ پھر دین سے نہ پھر جائے۔

۶۔  غلامی جب کہ خریدارِ اسیران جنگ کی قرآن میں جائز ہے تو رقیت مستقبلہ کا جوا ز مفہوم در قرآن رکھنا پہلے جو از ہی سے نا جائز ہے تاوقتیکہ ایسی رقبت آئندہ صاف صاف منع نہ لکھی ہو۔

فائدہ

تورات میں قتل کرنے بعض گروہ ِکفار کا حکم ديا نشان تو لاشک لکھا ہے مگر شرط ایمان پر آمان وہاں کچھ نہیں جیسا کہ قرآن میں ہیں۔ غلامی اور کثرت از دواجی مجوزہ تورات میں حق تلفی کے بجائے محض رحم اور رفاہت محتا جگان کی صورت ہی ہے اوروہ بھی زمان و مکان محدود و خاص کے اندر برخلاف قرآن کے کہ جس میں حق تلفی کا خیال خیال میں بھی نہيں  اور دعویٰ ابد یت اور ہمہ جا ہونے اُس کی شریعت کا موجود ہے سب سےبڑا فرق بائبل اور قرآن میں یہ ہے کہ بائبل تو رحم بلا مباد لہ جائز نہیں رکھتی جب کہ قرآن جا ئز رکھتا ہے۔

Leave a Comment