Slumbering Of Death
By
Anayat Ullah Nasir
عنایت اللہ ناصر
Published in Noor-e-Afshan Feb 15, 1895
نور افشاں مطبوعہ ۱۵فرورفروی ۱۸۹۵ ء بروز جمعہ
بائبل نے دُنیا میں الفاظ کا ایک عجیب سلسلہ قائم کر دیا ہے۔ ہمارے معمولی الفاظ کو لے کر کیسے پاکیزہ معانی اور مطالب ان سے نکالے ہیں۔ جس مذہب میں موت انسان کی اندرونی زندگی کا خاتمہ نہیں کرتی ۔ بلکہ حیات کا دروازہ ہی ہے۔ اس میں ضرور تھا کہ ایسے محاورات ہوں۔ جو سادہ طور پر انسان کی زندگی کی اس منزل کو واضح کریں۔ کتاب مقدس کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ توریت اور زبور اور صحائف انبیا کا مقصد مکاشفہ بتدریج (درجہ بدرجہ)تھا۔ لیکن انجیل میں مکاشفہ کا کمال مندرج ہے۔ اسی باعث سے ان ہر دو عہد ناموں میں یکسا ں الفاظ کے معنوں میں وہ فرق پایا جاتاہے۔ جو قدرتی طور پر ابتدائی اور پختہ خیالات میں ہونا چاہیے۔ چنانچہ ’’ سو گیا‘‘ مر گیا کے معنوں میں کتابِ مقدس کی ابتدا سے انتہا تک پایا جاتا ہے۔ سلاطین کی کتب میں شاہان یہودا ہ کی وفات کے لیے’’ باپ دادوں کے ساتھ‘‘ سو جانا ایک محاورہ ہے۔ ان مقامات میں سوجانا غالباً بلحاظ ایک قدرتی تشبیہ کے استعمال کیا گیا ہے۔ خفتہ انسان آنکھیں بند کر کے دنیا اور مافیا سے بے خبر اپنے دست وپا کو پھیلا کر خاموش پڑا رہتا ہے۔ ظاہراً مُردہ انسان کی بھی یہی صورت ہوتی ہے۔ دنیا کے نظاروں کو الفاظ کی رنگینی سے منقش کرنے والے اس شباہت کو اپنی اپنی طرز پر خوبصورتی کے ساتھ باندھ گئے ہیں۔ چنانچہ ایک شاعر کا قول ہے۔
اور اسی باعث سے گورستان (قبرستان)کو شہر ِخاموشاں کہتے ہیں اسی مشابہت کے خیال سے شکسپیر نیند کو ’’ ہر روز زندگی کی موت‘‘ سے نامزد کرتاہے۔ اور دوسرے مقام پر رات کے سناٹے میں میکبیھ کایہ کہنا کہ’’ نصف عالم پر نیچر مردہ پڑی ہے‘‘۔ سوچنے والے کے خیالات کو کہاں اُڑ ا لے جاتاہے ۔ خیر اس منزل سے گزر کر ہم ایوب کی کتاب اور بعض مزامیر میں اس محاورہ کو کسی قدر وسیع معنوں میں مروج دیکھتے ہیں۔ چنانچہ ان مقامات میں نیند سے بیدار ہونے کا خیال بھی پایا جاتاہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر دانی ایل نبی اپنی بلند پروازی میں اس وقت کو صا ف صاف دیکھ رہا ہے۔ جب ’’ بہتیر ے جو زمین کی خاک میں سو رہے ہیں جاگ اُٹھیں گے۔ بعض حیات ابدی کے لیے۔ اور بعض رسوائی اور ذلت ابدی کے لیے‘‘ (دانی ایل ۱۲: ۲)
اگر آسمانی فضا کے ان ہنوز منور ستاروں سے بڑھ کر ہمارے پاس کوئی نور نہ ہوتا۔تو’’ موت کی نیند ‘‘ ایک خاص درجہ تک سر بمہر محاورہ سے زیادہ نہ ہوتی۔ لیکن جس نور نے حیات و بقا کو روشن کر دیا ہے۔ اسی نے موت وقبر کی تاریکی پر ایسی کرنیں ڈالیں ہیں۔ کہ اب ایماندار اسی اطمینان قلبی کے ساتھ دینا سے رخصت ہوتاہے ۔ جس سے ہر شب کو نرم تکیہ پر سر رکھے ہوئے چین سے سو جاتا کرتاہے۔ اس وقت ہم خیالات کے اس سلسلہ پر غور کریں گے جس سے واضح ہو گا کہ موت مسیحی کے لیے کیوں کر حقیقت میں ایک میٹھی نیند ہے۔
اولاً ۔نیند میں کاروبار سے فارغ ہونے کا خیال پایا جاتاہے ۔ ہر ایک انسان کے لیے کوئی خاص کا م مقرر ہے۔ جس کی تکمیل کی مقررہ میعاد منقضی(گُزرا ہوا) ہونے پر وہ انسان سو جاتاہے۔ بد آدمی بلا ارادہ خدا کی مشیت (مرضی)کو پورا کر کے اپنی دوڑکو ختم کرتا ہے ۔لیکن مسیحی خو شی سے اپنے فرائض ادا کر کے خدا کی بزرگی اپنی زندگی سے ظاہر کرتا ہے ۔ اور آخر بزرگ شمعون کی طرح خدا کی طرف سے رُخصت کامنتظر رہتا ہے(لوقا ۲: ۲۹) ۔اور آخری مرتبہ آنکھیں بند کرنے سے پیشتر ہے اس شیریں اور نرم آواز کو اپنے دلی کانوں سے سنتا ہے کہ ’’ شاباش اے اچھے اور دیانت دار نوکر‘‘ ( متی ۲۵: ۲۱) لیکن ہم ان غنچوں کی نسبت کیا سمجھیں جو ’’بن کھلے مرجھا گئے‘‘۔ انہوں نے کونسی بہار جانفرادکھائی؟ انہوں نے اپنی چند روز زندگی میں کس مقصد کو انجام دیا ہوگا۔ کہ وہ گویا زبر دستی ڈالی سے توڑے گئے؟ شاید دنیا کے رنج وغم کے سایہ سے محفوظ رہ کر خدا کے باغ میں شگفتہ ہونے کے لیے وہ ہماری چھوٹی کیاریوں سے لیے گئے ہیں۔ یقیناً ہم انہیں ایک نہ ایک روز لہلاتے اور تازہ دیکھیں گے ۔ اگر کوئی ہم سے سوا ل کرے۔ کہ وہ کس دوڑ کو ختم کر کے سو گئے ہیں؟تو ہم اس کا مفصل جواب اس وقت نہیں دے سکتے کیونکہ ہماری نگاہ دور تک کام نہیں دیتی ۔ لیکن ہم کو یقین ہے کہ آسمان کی بادشاہت میں ایسو ں کی خاص جگہ ہے۔
ثانیاً۔جو شخص سوتا ہے وہ آرا م میں ہوتا ہے۔ اس آرام کے خیال کو ہم نیند سے جدا نہیں کر سکتے ۔ قدرتی طور پر انسان کاروبار سے فارغ ہو کر آرام کرتا ہے۔ اور جو محنت نہیں کرتا۔ آرام اس کا حق بھی نہیں۔ بیمار کے لیے نیند ایک عمد ہ نشان سمجھا جاتاہے۔ ایوب ہر قسم کی مصیبت سے محصور ہر کر بار بار اس آرام کےلیے آہیں بھرتا ہے معلوم ہوتاہے ۔ کہ سلاطین کی کتاب کا مصنف بھی اس آرام کے خیال کو مد نظر رکھ کر اس محاورہ کا استعمال کرتاہے۔ جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں۔ چنانچہ جن شاہانِ یہوواہ کا انجام کسی غیر طبعی بھاری صد مہ سے ہوا۔ ان کا گذر جانا ایک بے آرامی کی حالت سمجھا گیا۔ مثلاً یو آؔس ،امصیاہ ، عمون اور یوسیاہ کے لیے یہ محاورہ استعمال نہیں کیا گیا۔ سوائے مسیحی کے اس آرامی کی شیر ینی کو کون سمجھ سکتا ہے؟ وہ ہر وقت آرزو رکھتا ہے کہ ’’ کا ش کہ کبوتر کے سے میرے پنکھ ہوتے ۔ تو میں اُڑ جاتا۔ اور آرام پاتا‘‘ (زبور ۵۵: ۶) ۔
اس کی روح خدا وند کی بارگاہوں کے لیے آرزو مند بلکہ گداز ہوتی ہے۔ ا س کا تن اور من زندہ خدا کے لیے پکارتاہے (زبور ۸۴: ۶) ۔کیونکہ جہاں ا س کا خزانہ ہے۔ وہیں ا س کا دل بھی لگا رہے گا ( متی ۶: ۲۲)۔ پولوس رسول کیسا مشتاق تھا کہ چھٹکارا پا کر مسیح کے ساتھ رہے (فلپیوں ۱:۲۳) ۔ہاں ’’ کیا ہی مبارک ہیں وہ مُرد ے جو خداوند میں ہو کر مرتے ہیں۔ وہ اپنی محنتوں سے آرام پاتے ہیں‘‘ (مکاشفہ ۱۴: ۱۳)۔
ثالثاً۔ اگر دل میں قرارو اطمینان نہ ہو۔ تو نیند کہاں؟ جس وقت دانی ایل نبی رات کے وقت شیروں کی ماند میں پڑاتھا۔ اس کے دشمن شاید عیش و عشرت میں شب بسر کر رہے ہوں گے۔ لیکن وہ کمزور طبع دار امادی جس نے طوعاً و کر ہاً(چاروناچار، جبراً)’’ حکم نامہ پر دستخط کرکے اس مرد ِخدا کو غار میں ڈلوایا تھا اپنے کئے کی پشیمانی ۔ اور دانی ایل کی خطر ناک حالت کا خیال کرکے دم بھر کے لیے نہیں ہو سکتا ۔ دنیوی تواریخ میں اس کی عمر تطیر شکسپیر کے شاہ ہنؔری چہارم کے ناٹک میں پائی جاتی ہے۔ یہ بادشاہ رات کے وقت اپنے محل میں بیٹھے بیٹھے سوچتا ہے۔ کہ کیوں نیند میرے پلکوں کو ملنے نہیں دیتی۔ اور میرے حواس کو فراموشی کے دریا میں غوطہ نہیں لگانے دیتی ؟ بعد ازاں وہ کیسے سوز سے اپنی حالت کا مقابلہ جہاز کے ایک خلاصی لڑکے سے کرتاہے۔ جس کو سمندر کے طوفان اورموجوں کے شورمیں مستول کی چوٹی پر خواب نصیب ہوتاہے۔ اور آخروہ مشہور الفاظ اس کی زبان سے نکلتے ہیں جو انگریزی لیڑیچر میں زبان زد ہو گئے ہیں ۔ کہ ’’تاجدار سر بے آرام پڑا رہتاہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ جس کے سرپر بوجھ ہوگا اس کو نیند کا کیا لطف حاصل ہو سکتا ہے؟ یہی باعث ہے ۔ کہ جس انسان کے سر پر سے بار عصیاں(گناہوں کا بوجھ) اتارا گیا ہو اس کی نیند ضرور میٹھی ہو گی۔ مسیحی کی موت کےلیے ’’ سو گیا‘‘ کیسا موزوں اور زیبا معلوم ہوتاہے۔
رابعاً۔ جب کوئی شخص سوتا ہے۔ تو یقین کیا جاتاہے کہ وہ ضرور بیدار ہوگا۔ ذرا غور کرنے سے اس کی مناسبت بھی مسیحی کی موت کے ساتھ واضح ہوگی۔ جب کوئی شخص صبح کے وقت پھانسی کا منتظر ہے۔ اس کے خواب اور بیداری کا حال اسی سے پوچھنا چاہیے۔ اور جو شخص ابدی مایوسی کی دہلیز پر ہو۔ اس کی دلی حالت کو کون جان سکتاہے؟ وہ گویا بد ہضمی کے ساتھ سو گیا۔ اور طبیعت پر ایک بوجھ لے کر بیدار ہوا۔ ذرا دوسرے پہلو پر غور کرو کہ داؤد خدا کی صورت پر ہو کر جاگنے کا منتظر تھا( زبور ۱۷: ۱۵) جب دنیا یاس(نااُمیدی) کی حالت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ضرور تھا کہ جس نے لؔعزر کو جگایا خود بھی تیسرے روز خفتگانِ لحد(قبر میں سویا ہوا) سے بیدار ہو اور مایوس دنیا کو بیدار ہونے کا مژدہ(خوشخبری) دے۔ مسیحی کی حیات مسیح کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہے۔ چونکہ اس کا خداوند جو اس کا سر ہے۔ موت پر غالب ہوا۔ اس لیے وہ بھی ضرور غالب ہوگا۔ اور اگرچہ ہنوز ظاہر نہیں ہوا۔ کہ وہ کیا کچھ ہوگا۔ لیکن اس کو یقین ہے۔ کہ جب مسیح ظاہر ہوگا۔ تو میں اس کی مانند ہوں گا ( یوحنا ۳: ۲)۔
خامساً۔ نیند ایک خاص تیاری کا وقت ہے۔ ہم اب تک عالمِ فطری میں نیند سے موت کی تشبیہ قائم کرتے آئے ہیں۔ اور اب اس آخری خیال تک اس تشبیہ کو وسعت دنیا ہمارے لیے خاص خوشی کا باعث ہے۔ علم فزیالوجی کے رو سے نیند زندگی کی وہ حالت ہے ۔ جس میں جسم کے اجزادوران ِ خون کے ذریعہ اپنے زہر یلے مادہ سے سکبدوش ہو کر تازگی بخش آکسیجن جمع کرتے ہیں۔ اور اس طرح آئندہ محنت کےلیے تیار ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ مسیحی جوابدلاآباد زمانوں میں اپنے خداوند کے ساتھ بادشاہی کرنے کے منتظر ہیں (مکاشفہ ۲۰: ۴)۔ بعد از مرگ ۔ اور تاروز قیامت ایسی حالت میں رہیں۔ جہاں ان کے قواء(قوت) گویا آئندہ زمانوں کے لیے تیار کئے جائیں۔ ان کی کمزوریوں سے ان کو مبرا کیا جائے ۔ اور اپنے خداوند کے ساتھ (مکاشفہ۳: ۲۱) تخت پر بیٹھنے کے لائق بنایا جائے؟ یہ بحث ہمارے مضمون سے خارج ہے کہ وہ کون مخلوقات ہوں گے۔ جن پر مسیح کے پیرو سلطنت کریں گے۔ لیکن اس درمیانی حالت کو ابراہام کی گود( دیکھولوقا۱۶: ۲۳) کے محاورہ سے ادا کرنا آرام کی حالت پر دلالت کرتاہے ۔ نہ کہ محنت کی زندگی پر ۔
اب اے ناظرین !رات آتی ہے۔ اور کوئی اس وقت کا کام نہیں کر سکتا (یوحنا ۹: ۴)۔ جب تک زندگی کا دن ہے اس روز عظیم کے لیےتیاری کرو۔ تاکہ جب تم موت کی نیند سے بیدار ہوا اپنے بادشاہ اور خداوند کی خوشی میں شریک ہونے سے محروم نہ رہ جاؤ۔