بعض خیالات محمدی پر سرسری ریماکس

Eastern View of Jerusalem

Short Remarks on some thoughts of Muhammad

By

Bahadur Masih

بہادر مسیح

Published in Nur-i-Afshan Sep 14, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۱۴ستمبر  ۱۸۹۴ ء

 (۹)(فرض حج ) قرآن میں لکھا ہے ’’ تحقیق صفا اور مروہ نشانياں اللہ کی  سےہیں۔ پس جو کوئی حج کرے گھر کا یا عمرہ کرے پس نہیں گناہ اُوپر  اس کے یہ کہ طواف کرے بیچ اُن دونوں کے اور جو کوئی خوشی سے بھلائی کرے پس تحقیق اللہ قدردان ہے جاننے والا ‘‘( سورہ البقرر کوع ۹)

ہندوؤں میں بھی کئی ایک تیرتھ مشہور ہیں۔ مثلاً بدری ناتھ ۔ کدارناتھ ۔  دوار کا ۔ بنارس ۔ وپراگ وغیرہ جہاں  بعض ہندو جانا  اور مورتوں کے درشن کرنا  اور بعض رسمی باتوں کا ادا کرنا ضرور ی اور موجب ثواب خیال کرتے ہیں۔

 اس فرض حج محمدی کے عبادتی دستورات عجیب خیالات سے مرکب ہیں اور بہت کچھ ہندوؤں کے خیالات کے موافق معلوم ہوتے ہیں۔ جن کا درج کرنا بہ سبب طوالت چھوڑا گیا ۔ چنانچہ اُن کی پوری کیفیت کتاب عقائد اسلامیہ ترجمہ مولوی محمد شفقت اللہ حمیدی صفحہ ۲۴۷ سے  ۲۵۵ تک اور کتاب تحقیق الا یمان مصنفۂ پادری مولوی عمادالدین صاحب اعتراض چہارم صفحہ ۱۱۲ میں درج ہے۔

مگر تعلیم ِانجیل  کسی خاص  جگہ کو عبادت الہٰی  کے واسطے مخصوص نہیں ٹھہراتی  بلکہ ہر جگہ جہاں انسان اُس کی مرضی کے موافق عمل کرے قربتِ الہٰی  حاصل کر سکتا ہے ۔ چنانچہ انجیل یوحنا ۴: ۱۹۔ ۲۴ تک مذکور ہے ’’ عورت نے اس سے ( مسیح سے ) کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آپ  نبی ہيں ہمارے باپ دادوں نے اس پہاڑ پر پرستش  کی اور تم ( یہودی ) کہتےہو  کہ وہ جگہ جہاں پرستش کرنی چاہیے ۔ یروشلیم  میں ہے یسوع نے اُس سے کہا۔ کہ اے عورت میری بات کو یقین رکھ  کہ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نہ تو اس پہاڑ پر  اور نہ یروشلیم میں باپ کی پرستش کرو گے تم اس کی جسے نہیں  جانتے ہو پرستش کرتے ہو۔ ہم اُس کی جسے جانتے ہیں پرستش کرتے ہیں کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ پر وہ گھڑی آتی  بلکہ  ابھی ہے۔ کہ جس میں سچے پرستار روح و راستی سے باپ کی پرستش کریں گے۔ کیونکہ باپ بھی اپنے پرستاروں کو چاہتا ہے کہ ایسے ہوئیں ۔ خدا روح ہے اور اُس کے پرستاروں کو فرض ہے ۔ کہ روح و راستی سے پرستش کریں ‘‘۔

پس یاد کرو اللہ کو کھڑے یا بیٹھے

پس اب اُس روحانی طریقہ عبادتِ الہٰی کو چھوڑ کر جو اُس کی عین مرضی اور صفات کے موافق ہے۔ جس کی تشبیہ و علامتیں احکاماتِ توریت میں قوم يہود پرظاہر کی گئیں ۔ جو صرف جسمانی خیالات پر مبنی تھیں کون فرض خیال کر سکتا ہے؟ مگر صرف وہی جو جسمانی  طبیعت  رکھتا ہو اور روحانی تعلیمِ انجیل سے اپنی آنکھیں بند کرلے۔ جیسا لکھا ہے  ’’ مگر نفسانی آدمی خدا کی روح کی باتیں قبول کرتا  کہ وہ اُس کے آگے بیوقوفیاں ہیں اور نہ انہیں جان سکتا ہے۔ کیونکہ وہ روحانی طور پر بوجھی جاتی ہیں‘‘( ۱۔کرنتھیوں ۲: ۱۵)۔

(۱۰) (جھوٹ بولنا ) کتاب ہدایت المسلمین  کے صفحہ ۳۱ میں یوں درج ہے ’’ کہ یہ لوگ ( محمدی )  خُدا کی راہ میں جھوٹ بولنا ثواب جانتے ہیں ۔ چنانچہ سورہ صافات رکوع ۳ کی آیت  قَنَظَر نَظَرۃ فی النُجوم کے نیچے  عبدالقادر کے ساتویں فائدہ میں لکھا ہے کہ اللہ کی راہ میں جھوٹ بولنا عذاب نہیں  بلکہ ثواب ہے‘‘۔

ہندو بھی ’’ دیدہ و دانستہ(    جان بوجھ کر)رحم کی نظر سے جھوٹ بولنے میں سورگ(جنت) سے نہیں گرتا ۔ اور اس کی بانی منو وغیرہ دیوتا کی بانی کے برابر سمجھتے ہیں۔ جہاں سچ بولنے  سے برہمن ، کشتری ، دیش ، شودرقتل ہوتا ہو ۔ وہاں جھوٹ بولنا  سچ سے بھی اچھا ہے‘‘۔ شاستر منوادھیا ء  ۸۔  اشلوک ۱۰۳، ۱۰۴ ۔

مگر تعلیم  بائبل دیدہ و دانستہ (جان بوجھ کر)کسی حالت  میں جھوٹ بولنے کی مطلق پر واہ (اجازت،حکم)  نہیں دیتی ہے  بلکہ ہر حالت میں جھوٹ بولنے پر مندرجہ ذیل فتویٰ(شرعی حکم) ظاہر کرتی ہے  یعنی ’’ وہ جو دغا باز ہے میرے گھر میں ہر گز نہ رہ سکے گا  اور جھوٹ  بولنے والا میری نظر میں نہ ٹھہرے گا ‘‘(  زبور ۱۰۱: ۷)۔ ’’ جھوٹے لبوں سے خُداوند کو نفرت ہے۔ پروہ جو راستی سے کام رکھتے ہیں اس کی خوشی ہیں‘‘( امثال ۱۲: ۲۲)۔ ’’ سارے جھوٹوں کا حصہ اُسی جھیل میں ہو گا جو آگ اور گندھک سے جلتی ہے‘‘(  مکاشفہ ۲۱: ۸)۔ ’’ اے خُدا وند تیرے خیمہ میں کون رہے گا  اور تیرے کوہ مقدِس پر کون سکونت کرے گا ۔ وہ جو سیدھی چال چلتا ۔ اور صداقت کے کام کرتا ہے۔ اور دل سے سچ بولتا ہے‘‘( زبور ۱۵: ۱، ۲)۔

 (۱۱ )۔ ( نماز کی بابت ) قُرآن میں مذکور ہے ’’  محافظت کرو اُوپر  نمازوں کے  او ر نماز بیچ والی پر  یعنی عصر  اور کھڑے ہو واسطے اللہ کے چپکے ‘‘ )سورہ البقر رکوع ۳۱(۔ ’’ پس جب تمام کر چکو نماز کو ۔ پس یاد کرو اللہ کو کھڑے یا بیٹھے  اور اُوپر کروٹوں اپنی کے ۔ پس جب آرام پاؤ پس تم سیدھی کرو نماز کو ۔ تحقیق نماز ہے اُوپر مسلمانوں کے لگے ہوئے وقت مقرر کئے ہو ئے) سورہ النساء رکوع ۱۵(۔

ہندو بھی بعض وقت سندھیا ( پو جا) کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ شاستر منو میں مذکور ہے ’’ پر اتھ کال (فجر ) گائتری کا جپ کرتا رہے جب ایک سورج کا درشن نہ ہو اور اسی طرح سائین کال (شام ) میں جب تک تارے نہ دکھلائی دیں۔ پر اتھ کال (فجر)کی سندھیا کرنے سے رات کا پاپ چھوٹ جاتا ہے۔ اور سائیں کال کی سندھیا کرنے سے دن کا پاپ چھوٹ جاتا ہے۔ جو آدمی دونوں وقت کی سندھیا نہیں کرتا وہ شودر کی طرح دوج کرم سے باہر ہو جاتا ہے‘‘( ادہیا ء ۲۔ اشلوک ۱۰۱ سے ۱۰۳ تک )۔

کلامِ خُدا بائبل سے ظاہر ہے  کہ نماز کرنے کا دستور قدیم سے چلا آتا ہے۔ یہودی بھی نماز کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ چنانچہ زبور ۹۵: ۶ میں مذکور ہے ’’ آؤ ہم سجدہ کریں اور جھکیں  اور اپنے پیدا کرنے والے خُداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں ‘‘ انجیلِ مُقدس میں بھی مذکور ہےکہ ’’ اور جب تو دُعا مانگے ریاکاروں کی مانند مت ہو ۔ کیونکہ وہ عبادت خانوں میں اور راستوں کے کونوں پر کھڑے ہو کے دُعا مانگنے  کو دوست رکھتے ہیں ۔ تاکہ لوگ انہیں دیکھیں ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا بدلا پا چکے ۔ لیکن جب تو دُعا مانگے اپنی کوٹھری  میں جا اور اپنا دروازہ  بند کر کے اپنے باپ سے جو پوشیدگی میں ہے دُعا مانگ ۔ اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے ظاہر میں تجھے بدلا دے گا اور جب دُعا مانگتے ہو غیر قوموں کی مانند بے فائدہ بک بک مت کرو۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ گوئی(بہت بولنا) سے ان کی سُنی جائے گی ‘‘ ( متی ۶: ۵۔ ۷ )۔پھر رسول فرماتا ہے ’’ دُعا مانگنے میں مشغول اور اس میں شکر گزاری کے ساتھ ہوشیا ر رہو ‘‘( کلیسیوں ۴: ۲)۔ پس اس لئے مسیحی لوگ بھی دعاؤں  ( نمازوں ) میں اکثر مشغول رہتے ہیں کیونکہ ضروری بات ہے۔

سارے جھوٹوں کا حصہ اُسی جھیل میں ہو گا

بے شک محمدی نماز کا یہ قاعدہ کہ جماعت کے بہت سے لوگ فراہم ہو کر دُعا یا نماز کرتے ہیں ۔ ایک عمدہ اور اہل کتاب کے موافق قاعدہ ہے۔ مگر اُن کی نماز کا منشاء  وہی ہے جو ہندوؤں کا ہے یعنی نمازوں کے ذریعہ آدمی نیک بنےاور گناہ (پاپ )  سےچھوٹ جائے یا ثواب حاصل کرے پر مسیحی نمازوں کا یہ منشاء نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہ آدمی پہلے نیک ہو یا بنے تا کہ خدا کی شکر گذاری ادا کر سکے اور اُس کے ساتھ دُعا میں ہم کلام ہو کر خوشی حاصل کرے۔  پس محمدی ہندوؤں کی نمازیں انسان کے پاک ہونے اور ثواب پانے کا ایک ذریعہ خیال کی جاتی ہیں۔ مگر مسیحی نمازیں نجات یافتہ لوگوں کی شکر گزاری سمجھی جاتی ہیں۔ جو ضروری ہے۔

 ۱۲۔ (بہشت کی بابت) قرآن میں مذکور ہے ’’ اور خوشخبری دے اُن لوگوں کو کہ ایمان لائے اور کام کئے اچھے ۔ یہ کہ واسطے اُن کے بہشت  میں چلتی میں نیچے اُن کے  لئے نہریں‘‘( سورہ البقر رکوع ۳)۔ مگر بندے اللہ کے خالص کئے گئے یہ  لوگ واسطے اُن کے رزق ہے معلوم میوے اور وہ عزت دیئے جائیں گے بیچ باغوں نعمت کے اُوپر تختوں کے آمنے سامنے پھرایا جائے گا اُوپر اُن کے پیالہ شراب لطیف(پاکيزہ،لذيذ) کا ۔ سفیدمزہ دینے والی پینے والوں کو ۔ نہ بیچ اس کے خرابی ہے اور نہ وہ اس  سےبے ہودہ کہیں گے  اور نزدیک ان کے بیٹھی ہو ں گی نیچے رکھنے والیاں خوبصورت آنکھوں والیاں گویا کہ وہ انڈے ہیں چھپائے ہوئے ‘‘( سورہ والصافات رکوع ۲)۔

پس بہشت کی بابت ایسا ہے کم و بیش ذکر قریباً  ۲۸ یا ۲۹ جگہ قُرآن میں مذکور ہے۔ مگر کسی آیات بہشتی میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ بہشت میں  خُدا اُن کے ساتھ ہو گا  اور مومنین اس کے چہرہ پر نظر کریں گے  اور اس کی ستائش و تعریف میں ابد الآباد مشغول(مصروف) رہ کر لاثانی خوشی حاصل کریں گے ۔

ہنددؤں کے خیال کےموافق پر لوک کا آنند(شادمانی،راحت) صرف یہ ہے  کہ آدمی اپنی بھول و بھرم سے چھوٹ کر جس کا نیتجہ  کرم کے سمان آواگون میں حاصل کرتا رہتا ہے۔ گیان (علم ،دانش)حاصل کر کے ’’ سب جانداروں میں آتما کے وسیلہ سے آتما کو دیکھتا ہے اور سمدرشی  ہو کر بڑی برہم پددتی کو پاتا ہے‘‘۔  ( شاستر منو ا دہیا  ء ۱۲ ۔ اسلوک ۱۲۵)  یعنی پر میشور میں لین (وصل ) ہو جاتا ہے اور بس۔

مگر انجیلِ مُقدس میں اس پاک بہشت  اور اُس کی لاثانی خوشی کی بابت لکھا ہے کہ خُدا نے اپنے محبتوں(محبت کرنے والے،دوست) کے لئے وہ چیزیں تیار کیں ۔’’ جو نہ آنکھوں نے دیکھی ۔ نہ کانوں نے سُنی ۔ اور نہ آدمی کے دل میں آئی ۔ بلکہ خُدا نے اپنی رُوح کے وسیلے ہم پر ظاہر کیا‘‘( ۱۔کرنتھیوں ۲: ۹ )۔جس کی خواہش میں اس کے سچے مومنین مرنے تک مستعد رہتے ہیں ( مکاشفہ ۴: ۱۰) یوں ظاہر کیا ۔’’ یسو ع نے جواب میں ان سے کہا تم نوشتوں اور خُدا کی قدرت کو نہ جان کر غلطی کرتے ہو کیونکہ قیامت میں لوگ نہ بیاہ کرتے نہ بیاہے جاتے ہیں۔ بلکہ آسمان پر خُدا کے فرشتوں کی مانند ہیں ‘‘( متی ۲۳: ۲۹، ۳۰)۔

۱۔  بہشت میں خُدا اپنے مُقدسوں کے ساتھ سکونت کرے گا ( مکاشفہ ۲۱: ۳)۔

۲۔  بہشتیوں کی خوشی (مکاشفہ ۷: ۱۶۔ ۱۷۔ اور ۲۱: ۴، ۲۵)۔

۳۔  بہشتیوں کا کاروبار ۔اس کے چہرہ پر نگاہ رکھنا (مکاشفہ ۲۲: ۴) اور ابدالآباد اس کی ستائش  و تعریف کرتا ) مکاشفہ ۴: ۱۰، ۱۱ ۔ اور ۱۹ : ۶)۔

ہرسہ مذاہب کی تعلیم بہشتی مذکورہ بالا کی بابت ناظرین خود انصاف کریں۔ کہ کون سی تعلیم عقلاً  و نقلاً انسانی درجہ اور خُدا کی شان کے موافق ظاہرہوتی ہے۔ کیا وہ جس میں صرف نفسانی خیالات موجود ہیں۔ جو بغیر  جسم اُس قدوس کے حضور میں محض بے مطلب اور اس کی قدوسیت کے خلاف ہیں۔ یا وہ جس میں اپنے خالق قادر مطلق کے اندر وصل (ملاقات،ہجر کی ضد، معشوق سے ملنا)ہو جانا ۔ جو انسان کے لئے محال بلکہ ان ہونا ہے ’’ چہ نسبت خاک رابعالم پاک ‘‘ مگر ہاں وہ جس میں ہمیشہ اس کے حضور حاضر رہ کر ابدالآباد اس کی تعریف کرنا اصلی و سچی  خوشی ظاہر ہوتی ہے۔

Leave a Comment