Salvation is found in no one else
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan March 23,1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۳مارچ ۱۸۹۴ ء
اور کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پاسکیں(اعمال ۱۲:۴)۔
اُنیسویں صدی ہوا آتی ہے کہ یہ کلام کہا گیا ۔ ہزاروں میل ہم سے دور پطرس حواری (شاگرد) کی زبانی اہل ِیہود کی بڑی کچہری میں قیدی کی حالت میں ان کے بڑے بڑے سرداروں اور بزرگوں کے رُو بُر و (آمنے سامنے)یہ الفاظ کہے گئے ۔ زمانوں کو طے کر کر یہ الفاظ سمندر اور خشکی کا سفر کر کے ہمارے کانوں تک پہنچے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ یہ کلام اس قدر مدت مدید(زمانہ دراز) تک قائم رہا؟
اس لئے کہ یہ پطرس کا کلام نہیں پر اس کا ہے جو آج کل اور پرسوں یکساں ہے۔ قدیم الایام ۔ غیر تبدیل ۔ الفا و اُمیگا(ابتدا ۔انتہا)۔ اوّل اور آخر ۔ دیکھو انجیل مرقس ۱۳ : ۱۱۔ ’’ پرجب تمہیں لے جا کے حوالے کریں آگے سے فکر نہ کرو کہ ہم کیا کہیں گے ۔ اور نہ سوچو بلکہ جو کچھ اس گھڑی تمہیں بتایا جائے وہ کہو ۔ کیونکہ کہنے والے تم نہیں ہو بلکہ رُوح القدس ہے ۔
اس کلام میں تین امر ہمارے قابل ِغور ہیں۔
اوّل ۔ آدم زاد کو نجات کی ضرور ت ہے۔
دوئم ۔ یہ نجات منجانب اللہ ہے۔
سوئم۔ یہ نجات مسیح کے سوا مل نہیں سکتی ہے ۔
اوّل ۔ ہم کو نجات کی ضرورت ہے اس واسطے کہ ہم بڑے خطر ے میں ہیں۔ بلکہ واجب الموت ۔ گناہ گار ہو کر غضبِ الہٰی کے سزاوار۔ انجیل ہم کو مسیح کے وسیلہ اس گناہ اور موت سے چھٹکارا کی خبردیتی ہے ۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ ’’ آیا ہے کہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈھے اور بچائے ‘‘۔ ہم کو بہت چیزوں کی ضرورت ہے مگر ہماری اشد ضرورت نجات ہے ۔ بھوکے کی اشد ضرورت روٹی ۔ پیاسے کی پانی ۔ ڈوبتے ہوئے کی نکالا جانا ۔ گنہگار غضب ِالہٰی کے سزا وار کی اشد ضرورت نجات ہے۔
اگر کسی مکان میں آگ لگی ہو اور مالک مکان کھڑے ہو کر کہنے لگے۔ بھئی اس مکان کی کرسی(عمارت کی تہ کی اونچائی) بلند چاہیے ۔ دروازے لمبے روشن دان بڑے ۔ کھڑکیاں آئينہ دار ۔ کمرے وسیع ۔ وغیرہ وغیرہ تو کیا لوگ نہ کہیں گے ۔ میاں عجب بیوقوفی ہے۔ آگ تو بھجا ئیے پانی کی فکر کیجئے ۔ پہلے مکان کو تو بچائیے‘‘۔
اے ناظرین کیا یہ عجیب بیوقوفی ہر روز دیکھنے میں نہیں آتی ۔ کیا آدم زاد اپنی اشد ضرورت سے بے پرواہ ہو کر ان چیزوں پر جو بالمقابل اس ضرورت کے کمتر ضروری ہیں اپنا دل نہیں دیتے۔ اور اس واقعی ضرورت کو قطع نظر(اس کے سوا) کر کےان سے حقیقتِ ضروریات پر اپنا سارا دھیان نہیں لگاتے ہیں۔ کہتے ہیں غریب ہیں ہم کو پیسہ چاہیے بیمار ہیں تندرستی چاہیے ۔ان پڑھ ہیں علم چاہیے یہ چاہیے ، وہ چاہیے ہاں چاہیے ضرور چاہیے ۔ کون کہتا ہے نہیں چاہیے ۔ مگر اے گنہگار غضبِ الہٰی کے سزا وار تیری رُوح کا کیا حال ہے اس کو تو پہلےہلاکت سےبچا تیری اشد ضرورت تونجات ہے۔
۲۔ یہ نجات منجانب اللہ ہے۔
نیچر گواہ ہے کہ اللہ کیسا مہربان ہے۔ ہر عمدہ چیز خُدا سے آتی ہے۔ خورش(خوراک) ۔ پوشش(لباس) ۔ سامانِ آسائش ۔ دوست عزیز و اقارب سب اللہ کے دان(بخشش) ہیں۔ لکھا ہے ۔ ہر ایک اچھی بخشش اور ہر ایک کامل (مکمل)انعام اُوپر ہی سے ہے اور نوروں کےبانی کی طرف سے اُترتا ہے جس میں بدلنے اور پھر جانے کا سایہ بھی نہیں ۔ ’’خُدا نے اپنی رحمت ِ عظیم سے نہ صرف اس دُنیا کی برکتیں بہتات سےدی ہیں۔ مگر آخرت کی خوشی کا سامان اپنے بیٹے خُداوند یسو ع مسیح کے دینے سے ہمارےلئے مہیا کیا ہے۔ مثلا ً دیگر برکات کےیہ برکت بھی مفت ملتی ہے ‘‘۔ خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لا اور تو نجات پائے گا۔ خُدا کا قول ہے ۔ خُد ا کی نعمتیں بيش بہا ہیں۔ لیکن یہ برکت بیان سے باہر ہے اسی برکت سے ہماری رُوح کی اسیری (رُوح کی غلامی)۔ ہمارے کُل نیچر کی اسیری ہے۔ ہماری جسمانی خوشیاں ہم اللہ کے ہاتھوں قبول کرتے ہیں ۔ روحانی خوشیاں بھی اس کے ہاتھوں قبول کرنا ہے۔ ورنہ ہلاکت نزدیک ہے کیونکہ ۔
۳۔ یہ نجات مسیح کے سوا مل نہیں سکتی ہے۔
مذکورہ بالا کلام اس امر میں نہایت صاف ہے۔ اورکسی دوسرے سےنجات نہیں۔ پھر تا کہ ہم دھوکہ نہ کھائیں ہم کو جتایا جاتا ہے ’’ کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پاسکیں‘‘۔ آدم زاد کی اُمید کا لنگر صرف خُداوند یسوع مسیح ہے ۔ بزرگان ِاہل ِیہود نے اس کا انکار کیا اور ہلاک ہوئے اگر ہم انکار کریں تو ہم ہلاک ہو نگے ۔ جس حال راہ نجات ایک ہی ہے ۔ اور ہم اس کو اختیار کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ تو نتیجہ یہ ہی ہو گا کہ ہم ہلاک ہو ں گے۔ ’’خدا نےجہان کو ایسا پیار کیا ہے کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو ئے بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘۔
کیا یہ عجیب بیوقوفی نہیں کہ ا س کو قبول نہ کریں ۔ اگر ایک مکان آگ سے جل رہا ہو اور ہمارے نکل جانے کو ایک سیدھا رستہ بتایا جائے۔ اور ہم کھڑے ہو کر حجت(مذاق) کریں کہ کیا کوئی اور رستہ نہیں ہو سکتا ۔ تو ہمارا حال سو ائے ہلاکت کے اور کیا ہو گا۔ نجات کا رستہ سید ھا اور صاف ہے ۔ اللہ کا مقررہ رستہ ہے۔ تمام آدم زاد کے لئے ہے یہ ہی ایک اکیلا راہ ہے۔ جو کوئی اس کو ترک کرتے ہیں ہلاک ہوتےہیں۔ آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا ہے۔ نام سےمراد خود نجات دہندہ ہے۔ ہمارے نام کے دستخط ہم کو اس بات کے لئے پورے پورے ذمہ وار بناتے ہیں ۔ کہ جہاں وہ ثبت(نقش) کئے گئے ہوں۔ ہماری حیثیت ۔ ملکیت ۔ عزت ایسے دستخط سے اپنا ذمہ اُٹھا لیتے ہیں ۔ مسیح کی صداقت(سچائی) اوربھر پور ی ان کی نجات کے لئے جو اس پر ایمان لاتے ہیں ضمانت (ذمہ داری)ہے۔ اس ضامن (وہ شخص جو کسی دوسرے کی ضمانت دے)کا نام ہم کو خُدا سے میل کرواتا ہے۔ ہمارا قرض ادا کرتا ۔ اور ہم کو آسمانی برکات کا وارث بناتا ہے۔ یہ ہی نورانی نام ہے کہ جس کی نورافشانی کی جاتی ہے۔ اے خطا کار(گنہگار) اس نام کو قبول کر ’’ کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پا سکیں ‘‘۔