Resurrection of Jesus Christ
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Dec 7, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۷دسمبر ۱۸۹۴ ء
قبل اس کے ۔ کہ ہم مسیح کے جی اُٹھنے کی نسبت یورپیئن ملحدوں(دين سے پھيرے ہوئے۔کافر) اور منکروں (انکار کرنے والے)کے قیاس رویت خیالی( ظہور کےخيالی اندازے لگانا) کے تردیدی مضمون کے سلسلہ کو ختم کریں۔ یہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ ایک اور اُس کی حقیقی رویتوں مندرجہ عہد جدید(نيا عہد نامہ) کا ذکر کریں۔ تا کہ بخوبی معلوم ہو جائے۔ کہ بقول لوقا طبیب کا تبِ انجیل ’’ اُس نے اپنے شاگردوں پر اپنے مرنے کے پیچھے اپنے آپ کو بہت سی قوی (مضبوط) دلیلوں سے زندہ ثابت کیا ‘‘ تھا ۔ جی اُٹھنے کے بعد کی اُس کی مختلف کم از کم دس رویتوں(ظہور) کا بیان عہد ِجدید میں ملتا ہے۔ جن سے نہ صرف اُس کا شاگردوں کا بیک نگاہ نظر آنا ۔ اور فوراً غائب ہو جانا۔ بلکہ بدیر اُن کے ساتھ ہم کلام ہونا۔ اُن کے ساتھ کھانا۔ اور اپنی جسمانی ہیئت (جسمانی ساخت)کذائی کو ظاہر کرنا ثابت ہوتا ہے۔ گذشتہ ایشو (مسلہً)میں اُس کا عماؤس کی راہ میں دو شاگردوں کو نظر آنے ۔ اُن کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے مکان تک پہنچنے۔ اور اُن کے ساتھ روٹی کھانے میں شریک ہونے کا ذکر کیا گیا۔
اور اب ہم ایک اور رویت(ديدار) کا ذکر کریں گے۔ جس سے خیالی رویت کا قیاس کلیتاً باطل (جھوٹ)و عاطل ٹھہرے گا۔ اور ثابت و ظاہر ہو گا ۔ کہ کوئی خیالی غیر حقیقی صورت نہیں۔ بلکہ وہی مسیح تھا جو بیت لحم میں پیدا ہو ا۔ ناصرت میں پرورش پائی۔ جو قریب ساڑھے تین برس تک اپنے شاگردوں کے درمیان رہا۔ یروشلیم کے کوچو ں میں پھرا ۔ ہیکل میں وعظ کیا۔ معجزات دکھلائے۔ اور بالآخر مصلوب و مدفون (صليب پر چڑھا و دفن ہوا)ہوا۔ اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ اور اپنے شاگردوں کو اسی مصلوب شدہ جسم سے بار بار دکھلائی دیا۔ چنانچہ یوحنا رسول اپنی انجیل کے ۲۰ باب میں لکھتا ہے۔ کہ ہفتہ کے پہلے دن ( یعنی اتوار کی شام کو ) جب کہ شاگرد ایک مکان میں۔ جس کے دروازے یہودیوں کے ڈر سے بند کر رکھے تھے۔ جمع تھے اور غالباً انہی باتوں کا تذکرہ باہم کر رہے تھے کہ اتنے میں یسوع اُن کے درمیان آکھڑا ہوا ۔ اور انہیں کہا تم پر سلام ۔ اور وہ اُس کو دیکھ کر خوش ہوئے لیکن توما اس رویت (ديدار) کے وقت غیر حاضر تھا ۔ اور جب اور شاگردوں نے اس سے کہا۔ کہ ہم نے خداوند کو دیکھا ہے۔ تو اُس نے اُن کے کہنے پر یقین نہ کیا۔ اور کہا کہ ’’ جب تک کہ میں اُس کے ہاتھوں میں کیلوں کے نشان نہ دیکھوں ۔ اور کیلوں کے نشانوں میں اپنی اُنگلیاں نہ ڈالوں ( جو بھالے سے چھیدا گیا تھا) کبھی یقین نہ کروں گا ‘‘۔ توما کی اس درخواست تحقیقات موشگاف(باريک بين) اور اطمینان بخش کے لئے ہم اُس پر بے اعتقادی(شک کرنا) یا گستاخی کا الزام نہیں لگا سکتے ۔ کیونکہ اگرچہ وہ اپنے ساتھیوں کی صداقت و راستی کی نسبت بدظن(شکی۔بد گمان) نہ تھا۔ تاہم عقل ِانسانی کے نزدیک ایسے ایک غیر ممکن الوقوع۔ امر کو دوسروں سے سن لینے ۔ اوریقین کرنے کی بہ نسبت دہ بچشم خود دیکھنا (خود اپنی آنکھ سے ديکھنا)۔ اور نہ صرف دیکھنا ۔ بلکہ چُھونا۔ اور خاطر خواہ اطمینان حاصل کر کے یقین کرنا بدرجہ ہا بہتر سمجھتا تھا۔ علاوہ ازیں خود خداوند نے بھی اُس کی ایسی راز جو تفتیش کو داخل گستاخی نہ سمجھا اور اُس کے حسب د لخواہ(دلی خواہش) طمانیت (اطمينان)بخشنے سے اُس کو محروم و مایوس نہ کیا۔ چنانچہ لکھا ہے۔ کہ ’’ آٹھ روز کے بعد جب اُس کے شاگرد جمع تھے ۔ اور توما اُن کے ساتھ تھا ۔ تو دروازہ بند ہوتے ہوئے یسوع آیا۔ اور بیچ میں کھڑا ہو کر بولا ۔ تم پر سلام پھر اُس نے توما کو کہا۔ کہ اپنی انگلی پاس لا ۔ اور میرے ہاتھوں کو ( جن میں آہنی میخوں (کيلوں)کے زخم تھے) دیکھ۔ اور اپنا ہاتھ پاس لا ۔ اور اُسے میرے پہلو میں ( جو بھالے سے چھیدا گیا تھا) ڈال ۔ اور بے ایمان مت ہو۔ بلکہ ایمان لا ‘‘ ۔ اور یوں توما ۔ جب کہ وہ قوت باصرہ (ديکھنے کی قوت)۔ سامعہ (سُننے والا)اور لاسرکے ذریعہ معلوم کر چکا۔ تو نہ صرف اُس کو حقیقی پھر زندہ ہوئی انسانیت و جسمانیت کا ۔ بلکہ اُس کی الوہیت کا قائل و معتقد (ماننا و پيروی کرنا)ہو گیا۔ اور بلا تامل (بغير سوچے سمجھے)سر تسلیم جھکا کر کہا۔ ’’ اے میرے خداوند ۔ اور اے میرے خدا ‘‘ جس پر خداوند نے فرمایا کہ۔ اے تو ما اس لئے کہ تو نے مجھے دیکھا تو ایمان لایا ہے۔ مبارک وہ ہیں جنہوں نے نہیں دیکھا ۔ تو بھی ایمان لائے ۔
اب ہم اُن لوگوں سے جو مسیح کی خیالی رویت کے قیاس کو پیش کرتے اور اُس کے فی الحقیقت جی اُٹھنے کو غیر ممکن سمجھتے سوال کر سکتے ہیں ۔ کہ کیا یہ بیان صرف کسی خیالی رویت کا ہے؟ کیا خیالی رویت اپنی جسمانیت کو اس طرح پر ثابت کرنے کے لئے مستعد و آمادہ ہو سکتی۔ اور کسی مشتاق رویت کے ساتھ ایسی صراحت(تشريح۔وضاحت) کے ساتھ اس قدر عرصہ تک ہم کلام ہو کر اس کے شکوک اوہامِ(شک ووہم) دلی کو رفع دفع کر سکتی ہے؟ کون محقق (تحقيق کرنے والا)اور طالب(چاہنے والا) صداقت(سچائی) ایسے بے بنیاد قیاس(اندازہ) کو بمقابلہ ایسی صاف اور واضح تحریری شہادتوں (ثبوتوں)کے قبول کر سکتا ہے؟۔