مختلف مذاہب کا نتیجہ

Eastern View of Jerusalem

Result of Different Religions

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan June 3, 1875

نور افشاں مطبوعہ۳جون ۱۸۷۵ ء

دُنیا  میں بےشمار مختلف ادیان(دين کی جمع)  کے رائج  ہونے سے ہے۔  فرد بشر  بخوبی واقف  ہے نہ صرف واقف بلکہ ہر ا ہل ِمذہب کے دلی تعصب آپس کی عداوت(دُشمنی)  ، ضد  ،بغض(نفرت) ،حسد ، ایک دوسرے کی عیب جوئی اور نقص  گیری اور اپنے اپنے فخر اور بڑائی  جتانے کا قائل(تسليم کرنے والا۔لا جواب)۔ اور یہ امر  بھی کچھ محتاج(ضرورت مند) بیان نہیں  ہے کہ ہر مذہب محض اپنے آپ  کو ہی  اصل  اور ناجیہ اور  باقی سب کو مصنوعی اور مرتد(اسلام سے پھرا ہوا) بتا رہا ہے۔ کس  نگوید کو کو درغ من ترش   ست۔ یہ ثابت  کرنا کہ اُن کا یہ دعویٰ از روئے مقابلہ  اُن کے فروع(مذہبی اصطلاح ميں وہ مسائل جو عمل سے متعلق ہوں ) و اصول  کے غلط  ہے یا صحیح کچھ آسان  امر نہیں ہے۔ کیونکہ  ان میں سے  کوئی بھی  ایسا نظر  نہیں  آتا جس نے معجزہ یا کرامت  کو اپنی بنیاد  نہ ٹھہرائی  ہو۔ اور  اس امر کو گو  عقل  ِانسانی  بہ سبب خرق عادت (عادت اور قانون کے خلاف انوکھی بات)کے سراسری(جلدی سے)  قبول نہیں  کر سکتی۔

  تاہم ان کے قائلوں  کے ساتھ متفق  ہو کر ہم بھی قائل(مانتے)  ہیں اور تسلیم(قبول کرنا) کرتے  ہیں۔ کہ قادر مطلق  ُخدا کے  آگے  اپنے بندوں  کی معرفت()  معجزہ  کرامات  کا دکھلانا  کچھ بڑی  بات نہیں ہے۔ مگر  خوارق(معجزے۔کرامتيں)  کو ہم ایمان  کا منحصر(متعلق۔وابستہ) دکھا یا  جاتا تھا  بہت لوگ محض  اسی سبب سے قائل ہوتے  اور ایمان  لاتے تھے۔ مگر فی  زمانہ  نا جب کہ  یہ چیز عنقا(ناياب شے)کا  حکم  رکھتی  ہے۔ تو پھر چاہئے  کہ کوئی قائل نہ  ہو اورایمان  نہ لائے حالانکہ  ایسا   نہیں ہے  ۔بے شمار  ایماندار  لوگ جواب  موجو د ہیں  ان کی ایمانداری  کا موجب(سبب۔باعث)  صرف مذہب  کی اندرونی  شہادت  (گواہی۔ثبوت)ہے نہ  کہ بیرونی  جو معجزہ  وغیرہ  سے مطلب  ہے ۔ مگر  باندک  تامل یہ اندرونی  شہادت   بھی  صرف  ان کے لئے ہی کافی دکھائی  دیتی ہے جو اُس  مذہب  کے اوّل  سے  ہی معتقد(اعتقاد رکھنے والا)  ہیں۔ اور نہ کہ غیروں  کے لئے  ۔ ایک شخص  کی عینک  سے دوسرا  شائد نہیں دیکھ سکے گا ۔

ہر کس نجیال  خویش ربطی  وارد ۔ البتہ  یہ بات ایک قابل  ِتسلیم  نظر آتی ہیں  کہ اگر کل مذاہب  کے نتائج کو آپس میں مقابلہ  کر کے  دیکھا  جائے کہ کس  مذہب  نے اپنی بھاری بھاری برکتیں  عطا کر کے  انسان  کو چاہ ضلالت  سے اوج ہدایت  پر پہنچایا  اور اس کے تنگ  و تاریک  دل کو اپنے  نور کی روشنی  اور فیض(سخاوت۔فياضی)  کی برکت  سے منور(روشن)  اور کشادہ(پھيلا ہوا)  کر دیا ۔ سچی  عدالت  نیک اخلاق  اور راست بازی  کو اپنے متعقدوں(اعتقاد کرنے والے)   میں پھیلایا  اور ان کو  اس دُنیا  میں خوش  اور ابدی  برکت کی اُمید  سے مالا مال بنا دیا۔ تو  البتہ  جب کہ دُنیا نمونہ آخرت  مشہور  ہے تو اغلب(ضرور۔يقينی)  ہے کہ ایسا مذہب  اپنے دعویٰ ناجیہ اور   سچے ہونے میں سچا ہو۔  پس منظر  امتحان جب  ہم ہندو دھرم کو بیدک  (حکمت)سے پرانک  تک گو  اس کے اقسام  بے شمار  ہو گئے ہیں  ۔اور بدو لا سہ وغیرہ  کے ملت  کو جو بہت ممالک مشرقی  میں رائج  ہے اور مذہب  اسلام  کو جو عہد  محمد صاحب  سے تاآج تک مشتہر  (مشہور کرنے والا)ہے اور جس کے ستر اور دو بہتر فریق  مشہور  ہیں اور کسدی  زردشت وغیرہ  پرانے  مذہبوں کو جواب  ایک طرح سے  مذہب اسلام  میں ہی مخلوط(ملے جُلے) معلوم دیتے ہیں دیکھتے  ہیں تو  صاف  نظر آتا ہے کہ کسی نے بھی ان میں سے بہبودی  و بہتری خلائق  (مخلوقات؛لوگ)دینداری  و پرہیز گاری راستبازی  اور دل کی پاکیزگی عورت  کی آزاد گی بچوں  کی حفاظت  بردہ فروشی (انسانوں کی تجارت) کی ممانعت بنج بیو پار لین  دین وغیرہ  دینوی معاملات میں صفائی  معاملہ  اور رفاہ عام(عام لوگوں کی بھلائی کا کام )  اور شائتگی  کے پھیلانے  میں کچھ  ترقی نہیں کی ہے  حالانکہ  یہ سب مذہب  اپنے اپنے طور پر دنیا  کے بہت سے حصوں کو اپنا متقد(اعتقاد رکھنے والے) بنا چکے ہیں  اور بعض  اب بھی اپنے زور میں ہیں۔  اگر تعصب(مذہب کی بے جا حمائت) کو چھوڑ  کر بلا  طرفداری  منصفانہ غور کيا  جائے  تو یہ اوصاف  کا مل اور مکمل  مذہب  مسیح کی تعلیم  میں  موجود  پائے جاتے ہیں  اور  صرف ان مقامات  میں جہاں اس مذہب  کا سچا  اجراء  اصلی  اور صاف  طور پر بلا  افراط  تفریط(کمی وبيشی) ہو رہاہے  نہ کہ اور ملکوں میں جہاں یہ دین  اپنی اصلی  صورت  سے متغیر(تبديل)  ہو کر بدعات(مذہب ميں نئی باتيں نکالنا)  اور مختر عات  (ايجاد کی ہوئی چيزيں )سے آلودہ ہو گیا ہے  اس کا عملدر  آمد  برائے  نام ہے کیونکہ  وہاں کی حالت کو بھی ہم دوسرے  مذاہب  کی حالت  پر کسی نوع(قسم) ترجیحی  نہیں دے سکتے ۔  شاید مخالفین  تخالف(مخالفت) یا عداوت  (دشمنی)کے رو سے   اس میرے قول  کی نسبت  بہت سے اعتراضات  پیش کر سکتے ہیں اور کریں  گے بھی مگر وہ صرف  تعصب  کے بھر ے ہوئے  دل کا جوش سمجھا  جا ئے گا  کیونکہ اگر  انصاف  کو ہاتھ سے  نہ چھوڑ  ا جائے تو  کُل  اوصاف  جو عقل  کے نزدیک رفاہ  عام و انسان  کی بہتری  کے موجب  (وجہ۔ سبب)ہیں اور مذاہب  میں ڈھونڈ  ے بھی نہ ملیں گے ۔ اب میں اس  آرٹیکل  کو طول (لمبا)دینا  نہیں چاہتا  اور کسی اور موقعہ  پر اس کی نسبت قيل  وقال  (بحث ومباحثہ)کرنیکا  وعدہ  کر کے ختم  کرتا ہوں۔

Leave a Comment