WHAT IS REAL JOY?
By
Nardwalia
ناردوالیہ
Published in Nur-i-Afshan March 5, 1891
نور افشاں مطبوعہ ۵ مارچ ۱۸۹۱ ء
اگر بنظر غور دیکھا جائے تو ظاہر ی خوشیاں جن کی طرف ہر ایک انسان رغبت اور خواہش سے دیکھتا ہے اور اس کے حاصل ہونے پر نازاں و فرحاں ہوتا ہے۔ دولت ، عزت ، اولاد، عمردرازی اور تندرستی ۔ ٹھیک ہے ان کے ملنے سے دنیاوی آرام مل سکتے ہیں ۔ دولت جس انسان کے پاس ہوتی ہے وہ عمدہ مکان رہائش کے واسطے بناتا ہے، عمدہ پوشاک پہنتا اور نفیس غذا کھاتا ہے ۔ ہر طرح چین سے زندگی بسر کرتا ہے جس آدمی کی عزت بڑی ہوتی ہے۔ دوسرے لوگ اس کی خد مت میں دست بستہ حاضر ہو تے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے بہتر اور خوش نصیب سمجھتا ہے۔ بعض انسان دنیاوی عزت اور دولت کے پیچھے اس قدر ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ کہ ان کو سوائے اپنا مطلب حاصل کرنے کے اور کسی طرح سے چین نہیں آتا ۔ جب اس کو حاصل کر لیتے ہیں تو بس یہی سمجھتے ہیں کہ خداکی خدائی ان کو مل گئی اس طرح اولاد کے ہونے پر بھی ہر ایک انسان کو بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ تو ہمارے ملک کی عام مثال ہے کہ دنیا میں اولاد جیسا کوئی پھل میٹھا نہیں۔ گو یا دنیا کی سب خوشیوں اور آرام سے اولاد کے ہونے کی خوشی اعلیٰ خیال کی جاتی ہے۔ جس گھر میں اولاد نہ ہو وہ دنیا میں بے فائدہ ہے۔ عمر درازی ہر ایک انسان دل سے چاہتا ہے۔ کوئی ایسا انسان نہیں جو اپنی خوشی سے مرنا چاہتا ہو۔ ہمارے ملک کا عام رواج ہے کہ اگر کوئی بزرگ چھوٹے کو اس میں دیتا ہے۔ تو وہ یہی کہتا ہے کہ خداتیری عمر دراز کرے۔ باقی رہی تندرستی اس کی بابت تو نہ صرف یہی کہنا کافی ہوتا ہے کہ اس اعلیٰ نعمت اور خوشی کے قائم رکھنے کی واسطے فیاض بادشاہوں یا خاص دولت مندوں نے شفاء خانے کھول رکھے ہیں اور ہر ایک انسان فی زمانہ بہت چیزوں کے کھانے پینے سے اس کی خاطرپرہیز رکھتا ہے۔ کہ یہ نعمت یا سونے کی چڑیا تھوڑی سی بد پرہیزی سے ہاتھ سےنہ اُڑ جائے ۔ انگریز ی کی ایک مثال کا ترجمہ یہ ہے کہ تندرستی کے مقابلہ میں دنیا کی کل نعمتیں ہیچ و بے قدر (بےکار)ہیں۔
اگر کوئی دل کی اندرونی آنکھوں کے ساتھ غور سے دیکھے تو یہ چیزیں یا خوشیاں در حقیقت کچھ میں نہیں ۔ کیونکہ ان میں سے کوئی بھی دائمی نہیں۔ اگر چہ دنیاوی خیال سے یہ خوشیاں خوشیاں تو ہیں۔ پر اگر ان پر فرداً فرداً غور کریں تو جس انسان کو یہ تمام خوشیاں بھی حاصل ہوں تو بھی اصل خوشی حاصل نہیں ہوتی ۔ مثلاً دولت سے اس قدر آرام حاصل نہیں پر اس کے ساتھ ہزار طرح کی فکر اور بے چینیاں ہیں یعنی ممکن ہو تو اس کے طفیل یہ خطاب یا وہ درجہ حاصل کرے۔خواہ دنیا کی کل دولت موجودہو تب بھی انسان خوش نصیب نہیں ہے۔ فرض کرو دولت ہے اور لالچ بھی بہت نہیں۔ مگر اس کے ساتھ اولاد نہیں تو ہمیشہ رنج و غم ہے اس طرح سے عزت کے تعلق کئی ایک بدعتیں ہیں۔ اگر اس کے ساتھ اولاد نہیں تو ہمیشہ رنج و غم ہے۔ اس طرح سے عزت کے تعلق کئی ایک بدعتیں ہیں۔ اگر عزت کے حصول ہونے پر انسان اعلیٰ معراج پر پہنچ جائے اور اولاد نہ ہو تو اس کے دل میں ہمیشہ رنج رہتا ہے ۔ اگر اولاد اور بد چلن ہو اولاد ہونے پر کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو ۔ تو وہ اولاد بھی و بال جان ہو جاتی ہے۔ اور اس سے کچھ خوشی نہیں ہوتی ۔ عمردرازی کو ہر ایک انسان دل سے چاہتا ہے اور مرنے سے ہمیشہ ڈرتا ہے ۔ سب صاحبوں کو معلوم ہے کہ سو سالہ بزرگ کس درجہ کا خوش ہوتا ہے۔ لیکن عمر درازی بد بختی سے تبدیل ہو جاتی ہے ہزار طرح کی بیماریاں اس بے چارے کے گرد جمع ہو جاتی ہیں وہ اولاد جس کو اس نے بڑی تکلیف اور جانفشانی سے پرورش کیا تھا اس کی خدمت کرنا تو درکنار بے چارے کو نظر حقارت سے دیکھتی ہے۔ اگر چہ بعض لوگ اپنے بزرگوں کی بڑی خدمت کرتے ہیں پر عمر درازی کے لوازمہ یعنی کھانسی اور بلغم کو اس کی خدمت کرنے سے کسی طرح سے دور نہیں کر سکتے ۔ اب اگر کوئی کہے کہ بھائی بڑھاپے میں تو بہت تکالیف ہیں لیکن جوانی یا لڑکپن بڑے عمدہ وقت ہیں صاحب سن ان وقتوں میں بھی کوئی خوشی نہیں ہے۔ انسان کسی حالت میں بھی چین یا خوشی حاصل نہیں کرتا ۔ بچپن کی عمر کو دوسروں کو بھلی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ بچہ کے دل کا حال کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتا ۔ اس کی بڑی بھاری علامت بار بار رونا ہے۔ کیا رونا کسی شخص کو بغیر تکلیف یادُکھ کے آسکتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہو گا کہ بالکل نہیں بچے کا مزاج بڑا چنچل ہوتا ہے اور زبردستی تکلیف بھی گوارا نہیں کر سکتا ۔ بڑا ہوا ماں باپ کا خوف استاد کا ظلم و تشدد اگرچہ اس کی بہتری کے واسطے ہوتا ہے پر اس بے چارے کے دل سے تو پوچھیں ۔ جوانی کا وقت آیا ہر ایک قسم کی امنگیں کئی ایک بواعث سے پوری نہ ہوئیں ہر طرح سے دل کو بے قراری لگی رہتی ہے ہر ایک شخص اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ دنیا میں کس کی کل خواہشیں پوری نہیں ہو سکتیں۔ پھر خیال معاش یا اور کسی قسم کے فکر اس کے دل کو آرام نہیں لینے دیتے۔ گو یا زندگی کا کوئی حصہ بے نقص نہیں اب اگر دولت مند بھی ہو عزت بھی سب طرح کی بنی ہو اولاد بھی ہو اور فرض کیا کہ نیک چلن اولاد ہو تو بھی دل کو چین نہ آئے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ انسان کی خوشی کو مکمل کرنے کے واسطے کس چیز کی اور ضرورت ہے؟ بھائیو میں آپ کے جواب کا منتظر نہیں رہوں گا۔ کیونکہ اس کا جواب دینا میرے ہی ذمہ لگایا گیا ہے وہ صبر ہے۔ جو انسانی خوشی کو پورا کر سکتا ہے۔ اس درخت کا پھل گو کڑوا معلوم دیتا ہے لیکن اس کا اثر میٹھا ہے۔ جب انسان کے دل میں صبر ہوتا ہے تو استقلال پہلے ہی سے آحاضر ہوتا ہے۔ اگر آدمی کنگال ہو بے اولاد ہو ۔ کوئی اس کی عزت نہ کرتا ہو بیمار بھی ہو پر جب اس کے دل میں صبرہے تو وہ تکلیف کے بغیر سب کچھ برداشت کرے گا۔ اس کے نتائج سب پر روشن ہیں اگر آدمی صبر سے خدا کی عبادت کرے اور اپنے اوپر تکالیف اُٹھا ئے تو اس کو بڑا درجہ نصیب ہوتا ہے۔ اگر وہ استقلال سے کوئی دنیاوی کام شروع کرے تو ضرور اس میں کامیاب ہو گا۔ اہل انگلستان جب اس ملک میں آئے تو معمولی سوداگروں کی ایک جماعت تھی ۔ انہوں نے اوراستقلا ل سے کام شروع کیا ۔ شاہان مغلیہ کے ظلم و ستم اُٹھائے اگر وہ ان تکلیفوں سے ڈر جاتے اور اپنے ملک جہاں ان کو ہر طرح کے آرام و آسائش مہیا تھے چلے جاتے اور واستقلال کو ہاتھ سے دے دیتے تو آج کے دن ملک کا با دشاہ کون ہوتا ۔ اگر مسیح کی موت کے بعد اس کے بارہ شاگردوں کی تکالیف اور دُکھ نہ اُٹھاتے اور ہزاروں طرح کے مختلف اُٹھا کر شہید نہ ہوتے تو آج اس ریڈنگ روم کا وجود جو صبر کا پھل ہے ہم اتنے دور دراز فاصلہ پر نہ دیکھتے اور فائدہ نہ اُٹھاتے ۔ اب رہی یہ بات کہ انسان کس طرح سے صاف ہے ۔ میری مرضی تو ضرور ہے کہ اس پر کچھ بیان کروں ۔ لیکن اس مضمون نے اس قدر طوالت پکڑی ہے کہ اور بیان کرنا اپنے وقت سے زیادہ کا م لینا ہے۔