Psalm Chapter 17, Verse 13 To 15
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Noor-e-Afshan Mar 22, 1895
نور افشاں مطبوعہ ۲۲مارچ ۱۸۹۵ء
’’ اُٹھ اَے خُداوند!اُس کا سامنا کر۔ اُسے پٹک دے۔اپنی تلوار سے میری جان کو شرِیر سے بچا لے۔اپنے ہاتھ سے اَے خُداوند! مُجھے لوگوں سے بچا۔یعنی دُنیا کے لوگوں سے جِن کا بخرہ اِسی زِندگی میں ہےاور جِن کا پیٹ تُو اپنے ذخِیرہ سے بھرتا ہے۔اُن کی اَولاد بھی حسبِ مُراد ہے۔وہ اپنا باقی مال اپنے بچّوں کے لِئے چھوڑ جاتے ہیں پر مَیں تو صداقت میں تیرا دِیدار حاصِل کرُوں گا۔مَیں جب جاگوں گا تو تیری شباہت سے سیرہُوں گا۔‘‘(زبور ۱۷: ۱۳۔۱۵)۔
مندرجہ بالا باتیں داؤد کی دُعا میں سے چند فقرے ہیں۔ اس دُنیا کی مسافرت (سفر) میں دو قسم کے لوگ ہم سفر ہیں۔ اور ظاہراً صورت میں دونوں پر یکساں واقعات گذرتے ہیں لیکن دونوں کی جائے مقصود ایک نہیں ۔ ایک کی منزل کے آخر میں آسمانی روحانی اور جاودانی (ہمیشہ کے لیے) جائے آرا م ہے جس کی خوشیوں کا پورا اندازہ اس دنیا میں ہو نہیں سکتا جب کہ دوسرے کے سفر کے آخر میں برعکس اس کے ابدی (ہمیشہ کی ) ہلاکت اور تباہی رکھی ہوئی ہے۔ اگرچہ ان کے انجام بالکل مختلف ہیں لیکن اس دنیا میں ان کا سفر اکٹھا ہے اور دونوں کی چال و چلن اور رفتار و گفتار میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ دونوں کی اُمید میں بھی از حد اختلاف ہے ایک قسم کے لوگوں کی اُمید صرف اسی زندگی میں ہے اور موت کے بعدمنقطع(اختتام پر پہنچاہوا) ہو جاتی ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کی اُمید اس دنیا سے گذر کر عالم بقا تک پہنچتی ہے۔
لیکن جائے تعجب ہے کہ وہ لوگ جن کا بخرہ اس زندگی میں ہےدیندار لوگوں کو جن کا خیال فانی چیزوں پر نہیں بلکہ غیر فانی اور آسمانی چیزوں پر لگا ہوا ہوتا ہے تکلیف دیتے ہیں اور ان کے برخلاف ضد اور مخالفت کی روح سے بھرکردن اور رات نقصان پہنچانے کے در پے رہتے ہیں۔ ان کی راہ میں راست سے بھٹکانے کے لیے انواع و اقسام کے جال پھیلاتے ہیں۔
اپنی بناوٹی اور ساختہ باتوں سے ان کو گمراہ کرنے کے لیے سعی و کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اپنی دُعا میں نبی ایسے لوگوں سے رہائی چاہتا ہے۔
دُنیا اور اس کے لوگوں سے رہائی پانا انسان کے لیے مشکل امر ہے۔ اس میں الہٰی طاقت کی مدد کی ضرورت ہے اس لیے داؤد بادشاہ خدا کی جو اپنے بندوں کی پشت و پناہ ہے مدد چاہتا ہے لیکن باوجود ایسی سخت مخالفت اور ضد اور دشمنی کے طوفان کے جو ایمانداروں کی ایام زندگی میں ہر روز چاروں طرف جوش و خروش کے ساتھ چلتا رہتا ہے ۔ وہ اس دنیا کوہیچ و پوچ سمجھ کر اپنی ایمان کی آنکھوں کو آسمانی اور حقیقی نعمتوں کی طرف لگا کر داؤد کی طرح کہنے کو تیار ہوتے ہیں کہ ’’ میں جو ہوں صداقت میں تیرا منہ دیکھوں گا‘‘۔ اور اس دنیا سے اپنے خیالات کو بہت دور عالم بقا کی لازوال برکتوں پر ٹکا کر خوشی کی آوا زکے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’ جب میں تیری صورت پر ہو کر جاگوں گا تو میں سیر ہوں گا‘‘۔
اے ناظرین آپ بھی اس زندگی میں مسافر ہو لیکن غور وفکر سے سوچو کہ آپ کس قسم کے لوگوں میں سے ہو؟ آیا ان مین سے جن کا بخرہ اسی زندگی میں ہے یا ان میں سے جو صداقت میں خدا کا منہ دیکھیں گے اور خدا کی صورت پر ہو کر جاگیں گے اور سیر ہو جائیں گے؟