Psalm 119:37
Allama G.L.Thakur Das
علامہ جی ایل ٹھاکرداس
Published in Nur-i-Afshan April 12, 1895
نور افشاں مطبوعہ ۱۲اپریل ۱۸۹۵ ء
میری آنکھوں کو پھیر دے کہ بطلان(جھوٹ۔ناحق) پر نظرنہ کریں( زبور ۱۱۹: ۳۷)۔
اس عالم میں جد ھر نظر ڈالو آنکھ کے لئے ایک دلکش نظارہ دکھلائی دیتا ہے۔ اس دُنیا کی ہر ایک شے انسان کی نظر میں پسند ید ہ معلوم ہوتی ہے۔ اور اِنسان کے دل کو فریفتہ(عاشق۔دلدادہ) کر دیتی ہے۔ اگرچہ خلقت کی کسی چیز کو پائيدار ی نہیں ۔اور جس شے کو آنکھ دیکھ کر ایک وقت حظ(لُطف۔خوشی) اُٹھاتی تھی وہ دم بھر میں بگڑ کر ایسی بد شکل اور گھنونی(گہن لگنا۔رونق کم ہونا) ہو جاتی ہے کہ آنکھ اس کے دیکھنے سے بے زار (افسردہ۔ناخوش)ہو جاتی ہے۔
لیکن موجودہ حالت میں کچھ وقت کے لئے تو انسان اشیاء کی ظاہرہ رونق اور خوبصورتی کو دیکھ کر غلطاں و پیچاں(پريشان) ہو جاتا ہے۔ اور اپنے خالق و مالک اور دین و عقبی کو بالکل بھول جاتا ہے۔ اور اس طرح پر اس دنیا کی لبھانے والی چیزوں پر اپنا دل لگا کر اپنی قلیل(چھوٹی۔کم) زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
بڑے عالم اور دانا سلیمان نے جس کا ثانی(ہم پلہ ) دُنیا میں نہیں ہوا اپنا تجربہ یو ں ظاہر کیا ہے۔ کہ سب کچھ جو میری آنکھیں چاہتی ہیں میں نے ان سے باز نہیں رکھا۔ میں نے اپنے دل کو کسی طرح کی خوشی سے نہیں روکا کیونکہ میرا دل میری ساری محبت سے شادمان ہوا۔ اور میری ساری محنت سے میرا بخرہ (حصہ۔ٹکڑا)یہ ہی تھا ۔ بعد اس کے میں نے ا ن سب کاموں پر جو میرے ہاتھوں نے کئے تھے۔ اور اس محنت پر جو میں نے کام کرنے میں کھینچی تھی نظر کی اور دیکھا کہ سب بطلان(جھوٹ) اور ہوا کی چران (نہايت تيز چلنا)ہے اور آسمان کے تلے کچھ فائدہ نہیں۔( واعظ ۲ : ۱۰۔۱۱ ) اسی تجربہ پر اُس کا یہ مقولہ (قول۔بات)قائم ہوا بطلانوں کی بطلان واعظ کہتا ہے۔ سب بطلان ہیں۔ واعظ ۱۲: ۸۔
سلیمان کا تجربہ اور مقولہ بالکل درست ہے لیکن اس دُنیا میں آدم کی نسل سے کوئی ایسا اِنسان پیدا نہیں ہوا جس نے دُنیا کی چیزوں کو دیکھا اور ان میں نہیں اُلجھا۔ مگر ایک عورت کی نسل سے پیدا ہوا جس نے دُنیا کی ساری بادشاہتیں اور ان کی شان و شوکت دیکھی لیکن ان سب دلفريب (حسين۔خوبصورت) چیزوں کو بطلان سمجھا۔ متی ۴: ۸، ۹، ۱۰۔ اور عبادت الہٰی کو مقدم ٹھہرایا۔
آیت مندرجہ صدر داؤد کی دُعا کا ایک فقرہ ہے جس میں داؤد بادشاہ خُدا کی درگاہ میں ملتمس(عرض کرنے والا) ہے ۔کہ اس کی آنکھیں پھیر ی جائیں تا کہ وہ بطلان پر نظر نہ کرے ۔ اگرچہ انسان کی طبیعت نفسانی اور جسمانی ہونے کے سبب سے اپنی آنکھوں کو ُدنیا کی باطل (جھوٹی)اشیاء پر زیادہ لگاتی ہے یا یوں کہو کہ اِنسان کی طبیعت کا میلان (توجہ۔خواہش)چیزوں کی طرف زیادہ ہے مگر ہو سکتا ہے کہ مدد ایزدی(خُدا کی طرف سے مدد) اور طاقت الہٰی پا کر اِنسان کی آنکھیں اس طرف سے گھمائی جائیں اور آسمانی اور غیرفانی چیزوں کی طرف لگائی جائیں ۔ اس کے لئے نہایت ضرور ہے کہ خُدا سے دُعا کی جائے جس طرح کہ داؤد نے کی۔ اور خُدا قادر ہے کہ اس خرابی سے انسان کو بچائے۔ اور اس کو اُن آسمانی اور روحانی نعمتوں کے ایمان کی آنکھوں سے دیکھنے کے لائق بنائے۔ جو اس دُنیا کے گذ ر جانے کے بعد ہمیشہ کے لئے رہے گی ۔ جن کی خوبصورتی اور رونق ان کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔
وہ یہ کہتا ہی تھا کہ دیکھو ایک نورانی بدلی نے اُن پر سایہ کیا اور دیکھو اس بادل سے ایک آواز اس مضمون کی آئی کی یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ۔ تم اس کی سُنو۔متی ۱۷: ۵۔
اس نورانی بدلی(روشن بدلی) میں خُدا جلوہ نما ہوا۔ کیونکہ خُدا نُور ہے اور نُور میں رہتا ہے۔۱ تميتھيس ۶: ۱۶۔ او ر اُس نےا ُن شاگردوں پر خُداوند یسوع مسیح کی قدرو منزلت اور الہٰی اعلیٰ درجہ ظاہر کرنے کے لئے کہ جن پر مسیحی مذہب کی اشاعت اور آئندہ ترقی بہت کچھ موقف و منحصر(ٹھہرنے کی جگہ) تھی۔ اپنی آسمانی آواز سے اُس راز مخفی(پوشيدہ) و اسرار غیبی(غائب) اور بھید ازلی کو ظاہر کیا۔ جس کا جاننا بنی اِنسان کے لئے ضرور تھا ۔ کیونکہ یہ کوئی عقلی مسئلہ نہیں تھا کہ جس کو اِنسان اپنی عقل سے دریافت کر لیتا ۔ اس لئے اگرچہ اس سے پیشتر مسیح خُداوند نے اپنی زبان ِمبارک سے اپنے آپ کو خُدا کا بیٹا کہا تھا ۔ لیکن اشد ضرورت تھی کہ عالم بالا کی طرف سے آسمانی آواز اس پر گواہی دے اور بنی آدم کو یقین دلائے تا کہ وہ اس کے ماننے میں تامل(شک و شبہ) نہ کریں یہ واقعہ شاگردوں کے ایمان کے مضبوط کرنے اور اُن کے اعتقاد (يقين)کو قائم کرنے کے لئے ضرور تھا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ناظرین ذرا اس پر غور کریں۔
مضمون آواز۔
یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ۔ تم اس کی سُنو ۔ اس مضمون کے دو حصے ہیں۔
۱۔ خُداوند یسوع مسیح کی الہٰی ذات کو شاگردوں پر ظاہر کرنا کہ وہ خُدا کا پیا ر ا بیٹا ہے۔
۲۔ شاگردوں کو متوجہ کر نا کہ وہ سُنیں کہ خُدا کا پیارا بیٹا اُن سے کیا کہتا ہے۔
پہلے امر کی نسبت ہم یہ کہتے ہیں ۔کہ جب سے خُدا نے اپنے پاک کلام میں جس کو عہد عتیق(پُرانا عہد ) کہتے ہیں پہلے ایمانداروں کو اپنے بیٹے کی خبر دی اور مختلف کنایوں(مطلب) اور اشاروں میں اس کی آمد کا مثردہ(خوشخبری۔بشارت) دیا اور پھر اپنے کلام مقدس میں جس کو عہد جدید (نياعہد)کہتے ہیں اپنے بیٹے کے کل حالات مشتہر(مشہور) کرو ائے اُس کے دُنیا میں مجسم ہو کر آنے سے لے کر اُس کے مصلوب ہونے تک کے تمام احوال جو بے کم و کاست(بغير کمی بيشی) درج ہیں۔ تب سے تمام مسیحی مومنوں نے اس ایمانی مسئلہ کو بالکل سچ و حق سمجھا اور مانا ہے۔ اور آج تک ایسا ہی مانتے چلے آئے ہیں۔ لیکن دُنیا کے لوگوں نے جتنی کہ اس مسئلہ دقیق (نازک۔باريک) اور راز عمیق(گہرا۔کامل) سے مخالفت کی۔ اور اس سے ٹھوکر کھائی ہے کسی اور مسئلہ سے نہیں کھائی ۔ بلکہ اس نے گویا ثابت کر دکھلایا کہ خُداوند یسوع مسیح بہت لوگوں کے لئے ٹھوکر کھلانے والا پتھر اور ٹھیس دلانے والی چٹان ہے۔
محمدیوں اور ہندؤوں نے بھی سے ٹھوکر کھائی جس طرح کہ یہودیوں نے کھائی تھی اور بہت اب تک ٹھوکریں کھاتے جاتے ہیں۔ لیکن جب کہ خُدا نے اس بات کا اظہار آسمانی آواز سے کیا ہے ہم کیوں اس پر مخالفت کریں۔ اور کیوں اس آوازکے شنوا (سُننے والے)نہ ہوں جو صاف صاف لفظوں میں کہہ رہی ہے کہ مسیح خُدا کا پیارا بیٹاہے۔
لفظ بیٹا سن کر فوراً لوگوں کے دل میں جسمانی خیالات آجاتے اور خلافِ تہذیب اور عقل باتیں کہتے اور بے ہودہ بکواس کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ صرف انسانی عقل کی کمزوری ہے۔ الہٰی بھید میں خُداوند یسوع مسیح جو خُدا کا بیٹا کہلاتا ہے الہٰی ذات کا دُوسرا اقنوم (جُز) ہے اور مجسم ہو کر دُنیا میں آنے پر اس بات کا اظہار ہوا کہ وہ اس کا بیٹا بھی کہلاتا ہے اب انسان کی کیا مجال ہے کہ خُدا کی بات کو ٹالے ۔اور اپنی عقل ناقص سے اس میں حجت (بحث۔اعتراض) نکالے۔ ہماری سمجھ میں جو خُدا کے کسی کلام کی مخالفت کرتا ہے وہ خُدا کے ساتھ گویا مقابلہ کرتا ہے اور خُدا سے زیادہ دانا ٹھہرنے کی کوشش کرتا ہے جو ایک بالکل ناممکن امر اور محض بے وقوفی میں داخل ہے ۔
دُوسری بات کی نسبت ہميں صرف اتنا کہنا چاہیے ہیں کہ جو کچھ خُدا کے پیارے بیٹے نے قول و فعل اور رفتارو گفتار(بول چال) سے کہا اور سکھلایا ہے وہ نصیحت و تعلیم عام پسند ہے جس کو نہ صرف اس کے ایماندار ہی قبول کرتے ہیں ۔ بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بلا حجت مان لیتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں ۔ اور خود مقر(اقرار کرنے والے ) ہیں ۔ کہ تعلیم بہت عمدہ ہے۔ لیکن صرف ایمان لانا ناگوار (بُرا محسوس ہونا)ہے اس کے شاگرد اس کے کلام کو سنتے اور قبول کرتے ہیں کیونکہ اس نے خود کہا ہے کہ اس کی بھیڑیں اس کی آواز سنتی ہیں۔ یوحنا ۱۰: ۴۔
تب یسو ع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی چاہے کہ میرے پیچھے آئے تو اپنا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھا کے میری پیروی کرے۔ متی ۱۶: ۲۴۔
مسیحی مذہب اِنسان کو پوری آزادگی میں چھوڑتا ہے۔ دو قسم کی باتیں یہ بخوبی واضح کر کے انسان کے رُو بُرو رکھ دیتا ہے۔
اوّل ۔وہ باتیں جو اُس کے گنہگار ہونے اور سزائے الہٰی ٹھہرنے کے بارے میں ہیں۔ اور اُس کی بُری اور خوفناک حالت کا نقشہ کھینچ کر بخوبی دکھلاتا ہے۔ اور صاف طور سے گنہگار انسان کو جتاتا ہے کہ گناہ کے سبب سے الہٰی قربت(نزديکی) جاتی رہی ہے۔ اور قہر الہٰی سر پر جھوم رہا ہے اور جہنم نے اپنا منہ کھولا ہوا ہے اور فوراً نگلنے کو تیار ہے ۔
دوئم ۔وہ باتیں مذہب انسان کو بتاتا ہے جو انسان کو اس کی بگڑی حالت سے نکالنے والی اور اس کو بچانے والی ہیں ۔ یہ کسی کی حالت میں ایک مدد گار کی ضرورت بتاتا اور خبر دیتا ہے کہ ایک ایسا مددگار آیا ہے جو خُدا کے حضور گنہگار کا ضامن(ضمانت دينے والا) بنا ہے۔ اور اپنی جان کی قربانی دے کر خُدا کے عدل(انصاف) کے تقاضے کو پورا کر چکا ہے اور اپنے اوپر ایمان لانے والے کو اپنی راستبازی اور سلامتی دیتا ہے اور اس کا اعلان عام دیتا اور کہتا ہے جو مجھ پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے۔یوحنا ۶: ۴۷۔
ان سب باتوں کا تمام و ُکل بیان کر کے مسیحی مذہب آدمی کو اس کی مرضی آزادگی پر چھوڑ دیتاہے ۔ دیگر مذاہب کی طرح سے ظلم اور جبر سے اس بات کا مقتضی (تقاضا کرنا)نہیں کہ زبردستی لوگ اس طریق پر لائے جائیں ۔ پر وہ کہتا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو آئے اور راہ ِنجات کو اختیار کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ آئے ۔ یہ زبردستی سے کسی کو بہشت میں نہیں لے جانا چاہتا بلکہ اس آزاد مرضی والے دیندار کو جو اس کی ایمانی باتوں کو قبول کر کے اس کا مرید بنتا ہے صاف کہتا ہے کہ مجھ پر ایمان لانے کی ایک شرط ہے اگر قبول کر سکتا ہے تو سمجھ سو چ کر دیکھ اور اس پر قائم ہو ۔ اپنا انکار کر۔ یہ شرط بڑی بھار ی ہے ۔ اپنا انکار کرنا آدمی کے لئے نہایت مشکل ہے۔ خود انکاری انسان کے دُنیا کی نسبت مر جانے کے برابر ہے۔ لیکن اس بڑی شرط پر مسیح آدمی کو اپنا شاگرد بناتا ہے اور اگر کوئی مسیح پر ایمان لایا ہے اور اس نے اپنا انکار نہیں کیا تو وہ حقیقت میں مسیح کا شاگرد نہیں بنا چاہے وہ ُ دنیا میں ظاہرہ طور سے مسیحی بھی کہلاتا رہے۔ لیکن اس شرط کے بغیر مسیح خُداوند اس کو اپنا شاگرد نہ کہے گا ۔ جو لوگ ناواقفی سے اعتراض کیا کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر صرف مسیح پر ایمان لانے کے سبب سے نجات ہے تو اس پر ایمان لا کر پھر جو چاہے انسان کرے کچھ مضائقہ(حرج) نہیں ۔ ان کو سوچنا چاہیے کہ مسیحی ایمان کے ساتھ خود انکاری کی بڑی بھاری قید ہے۔ اور اپنا انکار کرنے والا پھر کیونکر اپنے نفس ِبد(بُری فطرت) کا محکوم(غُلام) ہو گا۔
مندرجہ بالا آیت میں جو شرط مسیحی ہونے کی خُداوند یسوع نے ٹھہرائی ہے صرف خود انکاری ہی پر مکتفی(کافی ہونا) نہیں ہوتی بلکہ اس سے بڑ ھ کر مسیحی ایماندار کو لازم ہے کہ روز بروز دُکھ و تکلیف اور لعن و طعن جو اس طریق پر ہونے کے سبب سے اس کی راہ میں آئیں وہ ان کو بخوشی اُٹھائے اور ثابت قدم رہے۔ اور اعلیٰ درجے کا صابر بن کر ان سب تکلیفات کی صلیب کو اُٹھا کر مسیح کی پیروی کرے۔
پھر شاید کوئی خیال کرے کہ یہ تو نہایت مشکل باتیں ہیں اور ان کا ہونا دشوار(مشکل) ہے لیکن سچے مسیحی کے لئے یہ کچھ مشکل نہیں کیونکہ سچے ایماندار کو رُوح کی برکت بخشی جاتی ہے جس نعمت عظمیٰ (بڑی نعمت)سے وہ اس قسم کی تمام مشکلات سے رہائی پانے اور ان پر غالب آنے کی قوت اور طاقت پاتا ہے اور آخر کار نجات ِ ابدی کا مستحق (حق دار)ٹھہرتا ہے۔
اب جو کوئی چاہے مسیح خُداوند کے پاس آئے اور اس شرط کو قبول کرے۔ تو وہ رُوح القدس کا انعام پائے گا اور تمام مشکلات میں اس کی مدد پاکر اور شیطان گناہ اور دُنیا پر غالب آکر ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہو گا۔