Presence of God
By
One Disciple
Published in Nur-i-Afshan July 20,1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۰جولائی ۱۸۹۴ ء
خُدا کی حضوری کے مضمون پر غور و فکر کر نے سے پہلے اس عالمی مضمون کے ادب اور لحاظ کے باعث ہمیں چند باتوں سے آگاہ ہونا ایک لائق امر اور مناسب بلکہ انسب (ٹھيک)بات ہے۔
بلحاظ ہماری تحریر و تقریر کے نہیں۔ بلکہ پاس ادب اس کی حضوری کے۔ جس کے نام سے ہم اس وقت جمع ہوئے ہیں۔
اوّل۔ بہ نسبت ان ہر قسم کے ملت او ر مذہب کے لوگوں کے۔ جو کہ غیر مسیحی ۔ اور ہماری دینی اصطلاحوں سے بالکل ناواقف و نا آشنا ۔ اور نیز ایسے بھی جو علوم و فنون دنیاوی سے بخوبی ماہر۔ اور گویا ہم سے باہر ہیں۔ ہم لوگ اور ہم میں سے وہ سب جو خُدا کے فضل سے ایمان لا کے بچ گئے ہیں۔ یہ بات زیادہ صاف اور صریح (واضح)جانتے ہیں ۔ کہ خُدا تعالیٰ اور اس کی سلطنت کے بھیدوں(رازوں) کی بعض باتیں نہ بطور اصول ِ علم دُنیاوی اور نہ بزور عقل محدود انسانی بیان کر سکتے ۔ نہ ان کا پورا انکشاف (ظاہر ہونا)جیسے کہ ہمارے دلوں پر اس کے وسیلے ہوا۔ جس میں معروف اور حکمت کے سارے خزانے چھپے ہیں۔ ہم بالکليہ عیاں (ظاہر)کر سکتے ہیں۔
دوئم۔ جانتے ہیں کہ خُداوند ان کو جو اس کے ہیں جانتا ہے۔ اور وہ اپنے مالک کو پہچانتے ہیں۔ اور نہ صرف یہ بلکہ ہم آپس میں بھی ایک ہی روح کے سبب اپنی روحانی حالتوں سے بالعموم ناواقف نہیں ہیں۔ اس لئے جو کچھ اس پاک اور اعلیٰ خیال کی نسبت ہم آپس میں ایک دوسرے کی ایمانی تسلی اور ترقی کے لئے بیان اور غور کریں گے۔ وہ اس کی مدد مانگ کر کریں گے۔ جس کی حضوری میں ہم سب حاضر ہیں۔
اور اسی کے کلام سے جیسا کہ اسی نے ہم پر ظاہر فرمایا ہے۔ اپنے دلی حالات کے تجربوں کو مدنظر رکھ کر اس کی حضوری کے بیان پر غور کریں گے۔ اور بس۔
صرف خُدا کی حضوری کا لفظ بر زبان لانے سے نہیں۔ بلکہ اس کی پاک حضوری کا خیال کرتے ہیں۔ پہلا خیال جو ہماری تقریر اور تحریر کو پیچھے چھوڑ کر بجلی کی طرح کوندھ جاتا ہے۔ وہ ہمارے دلوں کا الزام ہے۔ کیونکہ شروع سے ہمارے بابا آدم نے اپنے تئیں اس کی حضوری سے چھپایا۔ تو بھی خُداوند خُدا نے اسے پکارا ۔ اور اس سے کہا۔ تو کہاں ہے؟ وہ بولا کہ میں نے باغ میں تیری آواز سنی۔ اور ڈرا۔ بموقعہ دیگر یسعیاہ نبی نے جب اس کے جلال کی حضوری دیکھی۔ تو پکار اُٹھا کہ ہائے مجھ پر ۔ کہ میں برباد ہوا۔ کیونکہ میں تو ناپا ک ہونٹ والا آدمی۔ اور نجس (ناپاک)لب لوگوں کے درمیان بستا ہوں۔
پس اے حاضرین ۔ کیا ہم نے جو لے پالک ہونے کی روح پائی۔ تا کہ پھر کر نہ ڈریں۔ اپنی ایسی روحانی حالتوں سے ناواقف ہیں ۔ اور کیا اس تسلی بخش آواز کو۔ جو ایسے موقعہ پر خُدا باپ سے آتی ہے۔ کہ تو مت ڈر۔ ہم نے دل کے کانوں سے کبھی نہیں سنا ؟ ہاں بجلی کی طرح کوندھ جانے والا خیال ۔ اور ساتھ ہی یہ نرم اور ہلکی ۔ دھیمی ۔ دبی ہوئی پُر محبت آواز ہم بے شک اپنے دلوں میں محسوس اور موثر پاتے ہیں۔ مگر یہ بے بیان حالت ہماری سمجھ سے بہت ہی اعلیٰ ہے۔
کون سی نطق (بات)سے کوئی بیان کر سکتا ہے۔ کہ ہم مسیحی لوگ نہ صرف خُدا کی حضوری میں رہتے ہیں۔ بلکہ ہمارے بدن بھی رُوح القدس کی ہیکل ہیں ؟ شاید کوئی کہے گا۔ کہ جب میں نے اپنی دلی حالت پر غور کیا۔ تو اپنے میں تمام خودی اور خود غرضی ۔ اور سراسر گناہ ہی گناہ دیکھا ۔ اور میں اپنی نظر میں نفرت کے لائق تھا۔ اور جب یہ خُدا کے حضور بیان کرنے لگا۔ تو اور بھی زیادہ میرے گناہ مجھ پر منکشف (ظاہر)ہو گئے۔ ہاں اے بھائی۔ یہ بات بالکل راست (درست)ہے۔ ذرا اس پر غور کیجئے ۔ کہ سامریہ کی عورت نے سوال کیا تھا۔ کہ اے خُدا وند یہ پانی مجھے دیا کر۔ تو اس طلب آب کے جواب میں ہماری کوتاہ اندیشی (کم فہمی)یہ کہتی ہے۔ کہ کیوں بجائے بخشش آب حیات کے خُداوند نے اس کے پوشیدہ گناہوں کو ظاہر کر دیا۔ اور بتلایا۔ کہ تو پانچ خصم (شوہر)کر چکی ہے۔ اور وہ جواب تو رکھتی ہے تیرا خصم نہیں۔ افسوس ! کہ ہم نہیں سمجھتے کہ خُداوند سے مانگتے ہی فورا ً روح کی بخشش اس عورت پر ہوئی۔ جس سے وہ الزام پاتی ہے۔ اور فوراً جا کے منادی کرتی ہے۔ کہ آؤ ایک مرد کو دیکھو ۔ جس نے سب کام جو میں نے کیے مجھے کہا۔ کیا یہ مسیح نہیں۔
پس اگر ہمارے دلوں میں یہ کیفیت ہوتی ہے۔ تو کیا خُدا کا پاک رُوح اس کی حضوری میں جاتے ہی ہمیں نہیں ملا۔ کہ جس سے ہماری بُری حالت منکشف(ظاہر ) ہو گئی۔ اور اندھیرے گھر میں آفتاب صداقت کی روشنی آتے ہی سب کچھ جو گھر میں تھا۔ نظر آنے لگ گیا ؟
مگر خبردار ۔ مایوس ہو کر اس کے حضور سے بھاگ نہ جانا۔ کیونکہ خُدا ہی ہے جو ہمارے دلوں میں اثر کرتا ہے۔ نہ اس لئے کہ ہم ڈر کے اس کی حضوری سے بھاگ جائیں۔ بلکہ اپنی ناچیز اور نفرت انگیز حالت سے نظر اُٹھالیں۔ اور اس پر جو پیتل کے سانپ کی طرح لکڑی پر ٹانگا گیا ہے نگاہ قائم کریں۔ اور اس طرح اپنے دلوں کے الزام سے رہائی پا کے نعرہ ماریں۔ کہ ہلیلویاہ۔
اب ہم فضل کے تخت کے حضور دلیری کے ساتھ آئیں۔ اور داؤد کے ہمزبان ہو کر کہیں۔ کہ اے خُداوند تو نے مجھے جانچا ہے۔ اور تو میرا بیٹھنا ۔ا ور میرا اُٹھنا جانتا ہے۔ تو میرے خیال کو دور سے دریافت کرتا ہے۔ دیکھ میری زبان پر کوئی ایسی بات نہیں۔ کہ جسے تو اے خُداوند بالکل نہیں جانتا ہے۔ تو میرے خیال کو دورسے دریافت کرتا ہے۔ دیکھ میری زبان پر کوئی ایسی بات نہیں۔ کہ جسے تو اے خُداوند بالکل نہیں جانتا۔ تو آگے پیچھے میرا گھیر انے والا ہے۔ اور تو نے اپنا ہاتھ مجھ پر رکھا ہے ۔ ایسا علم میرے لئے نہایت عجیب ہے۔ یہ بلند ہے۔ میں اس تک نہیں پہنچ سکتا۔
اب دوسرے طور سے خُدا کی حضوری پر سوچیں۔ کہ خُدا نہ صرف ہمہ جا حاضر و ناظر ہے۔ اور نہ ہم دیگر لوگوں کی طرح اس کی حضوری خیالی طور پر سمجھتے ہیں۔ بلکہ ہمارے پاس تواریخی ایسا ثبوت موجود ہے۔ جو نظام جہان اور صفحہ روز گار سے مٹایا نہیں جا سکتا۔
یعقوب بن اضحاق خان دمان سے آوارہ پہاڑی جنگل کی ویرانی سے حیران۔ رات کی کالک سے ترساں سفر سے ماندہ ۔ گھر سے دور ۔ بلکہ اپنے زعم(غرور) میں اپنے باپ اضحاق کے مسجود(سجدہ کيا گيا) سے بھی مہجور (جُدا)۔ پتھروں کو سرہانے رکھ کے سو گیا ہے۔
غور کیجئے ۔ کہ ایسے کم فہمی کے زمانہ میں جب لوگ ایک جگہ سے دوسرے مقام کو انتقال کرتے۔ تو گویا اپنے خُدا یا معبود کی سرحد سے باہر آکے اپنے تئیں اس خُدا سے اتنا ہی دور سمجھنے تھے۔ جتنا کہ وہ فاصلہ راہ طے کر چکے ہوتے ۔ سو یعقوب بھی ایسے لوگوں میں بودو باش (قيام) رکھنے کے باعث اس خیال سے بالکل مبرا (پاک)نہ تھا۔
اس نے خواب دیکھا۔ اور کیا دیکھتا ہے۔ کہ ایک سیڑھی زمین پر دہری ہے۔ اور اس کا سر اآسمان کو پہنچا ہے اور دیکھو خُدا کے فرشتے اس پر سے چڑھتے اوراُ ترتے ہیں۔ ۔۔۔۔
اور خُداوند فرماتا ہے۔ کہ دیکھ میں تیرے ساتھ ہوں ۔ جہاں کہیں تو جائے تیری نگہبانی کروں گا۔ تو پس خُدا نے آپ ہی اپنے حاضر و ناظر ہونے کا راز منکشف (ظاہر) کر دیا۔ اور ہمارے سبق کے واسطے زمانوں سے دست بدست(بہت جلد) ہم تک پہنچا ہے۔ لہذا ہم باطمینان جانتے ہیں۔ کہ ہر جگہ جہاں کہیں ہم جائیں عمانوائیل ہمارے ساتھ ہے۔ اور ہماری دعائیں فرشتوں کی مانند اس کےحضور اوپر جاتی ہیں۔ اور اس کی برکتیں اترنے والے فرشتوں کی مانند ہم پر نازل ہوتی ہیں۔ ہم اسی سے جیتے، چلتے پھرتے ہیں۔
حنوک خُدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ اور اسی لئے خُدا کو پسند آیا تھا۔ کہ وہ خُدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ تو کیا ہم میں سے کوئی ہے۔ جو ایسی دلی خواہش رکھتا ہو۔ کہ ہر وقت خُدا کے ساتھ ساتھ چلے یا اس کی حضوری میں رہے؟
پر ہزاروں ہزار حمد و ثنا ذات پاک رب تعالیٰ کی۔ کہ جس نے عمانوائیل کے لہو سے ہمیں آپ ہی پاک کیا۔ اور ہم تو اس کے ساتھ نہ چلے۔ لیکن وہ خود ہمارے ساتھ ہو گیا۔ اب اس کی حضوری سے ہم کد ھر بھاگ سکتے ہیں؟
ایسا علم ہمارے لئے بلند ہے۔ اور اس تک ہم نہیں پہنچ سکتے۔ تاہم ہماری نا دانی اس کی حضوری کی مانع (منع کرنے والا)نہیں۔ اور نہ کوئی ہم کو اس کی نظروں سے چھپا سکتی ہے۔
اُس حضوری کے اشتياق اور ضرورت کو حضرت موسیٰ سے سُنو۔ جس نے خُدا کے حضور کہا۔کہ ’’ اگر ميں تيری نظر ميں منظور ہوں۔تو مجھ کو راہ بتلا۔تاکہ مجھ کو يقين ہو کہ ميں تيری نظر ميں مقبول ہوں۔اور ديکھ يہ قوم تيری گروہ ہے۔تب اُس نے کہا۔کہ ’’ميری حضوری تيرے ساتھ جائے گی۔اور میں تجھے آرام دوں گا۔‘‘موسی ٰنے کہا کہ ’’ اگر تيری حضوری ساتھ نہ جائے توہميں يہاں سے مت لے جائے۔
اب ہم جو مسيحی ہيں۔اگر اس کی حضوری ميں رہنے کے مشتاق نہيں ہيں۔تو کس طرح ايک سچے مسيحی يعنی پولوس رسول کی باتوں کو سمجھ سکتے ہيں؟جو فرماتا ہے۔کہ ’’ ہم سب بے پردہ کئے ہوئےچہرہ سے خُدا وند کے جلال کوآئينہ ميں ديکھ ديکھ کے جلال سے جلال تک خُدا وند کی روح کے وسيلے اس کی صورت پر بنتے جاتے ہيں‘‘۔کيونکہ کامل ہونے کے لئے خُدا نے ابرہام کو بھی فرمايا تھا۔کہ ’’تو ميرے حضور چل اور کامل ہو‘‘۔
الغرض پيشتر اس سے کہ ہم اس سارے بيان کے بارے ميں سوچيں۔ضرور ہے کہ خُدا کی حضوری ميں اُس کی بزرگی اور عظمت کا لحاظ کريں۔چنانچہ اُس نے موسی ٰکو خطاب کر کے فرمايا۔کہ ’’اپنے بھائی ہارون سے يہ کہہ کہ ہر وقت پا ک ترين مکا ن ميں پردے کے اندر کفارہ گاہ کے پاس جو صندوق پر ہے۔نہ آيا کرے۔تاکہ مر نہ جائے‘‘۔اس لئے اُس کی حضوری ميں جانے سے پيشتر سمجھ لينا چاہيے۔کہ ہمارا آسمانی بادشاہ عظيم ہے۔ايسا نہ ہو کہ وہ ہميں کہے۔کہ ’’ تو نے خيال کيا۔کہ ميں تجھ سا ہی ہوں۔پر ميں تجھے تنبيہ دوں گا ،اور تيرے کاموں کو تيری آنکھوں کے آگےايک،ايک کر کے تجھے دکھاوں گا‘‘۔بے شک خُدا وند کے خوف کو ابد تک پائيداری ہو۔کيونکہ ہمارے دل خُدا وند کی حضوری ميں جانے سے الزام پاتے ہيں۔اور وہ چيز جو ہماری نظروں سے خُدا کی حضوری ميں پردہ ڈالتی ہے۔
ہمارے گناہوں کا بادل اور ہماری بدکاریوں کی کالی گھٹا ہے۔ جیسے آفتاب کے اور ہمارے درمیان جب بادل اور آندھی کی کالی گھٹا حائل (بيچ ميں آنے والا)ہوتی ہے۔ اور ہم سورج کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ اور کہ ایسے اسباب زمین ہی سے پیدا ہو کر سورج کو چھپاتے نہ کہ سورج کی روشنی اور چمک میں کوئی نقص ہے۔ ویسے ہی ہمارے گناہ ہم ہی سے پیدا ہو کر خُدا کی حضوری کو ہم سے پوشیدہ کرتے ہیں۔ ورنہ وہ تو اس نور میں رہتا ہے۔ جس میں تاریکی ذرہ بھی نہیں ہے۔ سواس گناہ کے بادل اور کالی گھٹا کے مٹانے کی واسطے ہم جان چکے ہیں۔ کہ خُدا نے اپنے انتظام سے ہمارے لئے ایک کامل (مکمل)اور کافی بے عیب بّرہ کی قربانی ازل میں ٹھہرائی تھی۔ جس کی خبر اسرائیلیوں کے نبیوں کے وسیلے اوّل اہل ِاسرائیل کو دی گئی۔ کیونکہ لکھا ہے۔ کہ ان باتوں کو یاد رکھ اے یعقوب اور اے اسرائیل کہ تو میرا بندہ ہے۔ میں نے تجھے بنایا۔ اور تو میرا بندہ ہے۔ اے اسرائیل ميں تجھ کو فراموش نہ کر وں گا۔ میں نے تیری خطاؤں کو بادل کی ماننداور تیرے گناہوں کو گھٹا کی مانند مٹا ڈالا۔ ميرے پاس واپس آ جا کيونکہ میں نے تیرا فدیہ دیا ہے۔ ( یسعیاہ ۴۴ : ۲۲ ) لہذا ہم جو ایمان لا کے خُدا کے فضل سے بچ گئےہیں۔ اور ہم میں اور خُدا میں ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے میل(ملاپ) ہوا۔ تو اب جو کوئی خُدا کے پاس آتا ہے۔ یہ یقین کرے۔ کہ وہ موجود ہے۔ اور کہ اپنے ڈھونڈ نے والوں کو بدلا دیتا ہے۔
افسوس ہے کہ جیسے ہم سورج کی دھوپ میں چلتے وقت اپنے سر پر چھاتا یا ٹوپی وغیرہ رکھتے ہیں۔ ویسے ہی ہم خُدا کی حضوری میں چلتے پھرتے ہوئے بھی اپنے اوپر کوئی سقف (چھت)بنا لیتے ہیں۔ اور یوں آفتاب صداقت کے نور کے آگے سچائی کے برخلاف بہت کچھ کرتے ہیں۔ اور راستی کے ملک میں ناراستی کے کام کرتے ہیں۔ کہ گویا ہم اس کی حضوری سے پوشیدہ ہیں۔ حالانکہ چاہیے کہ ہم اس کے حضور ایسے طور پر چلیں۔ کہ ہمارا کوئی ایک خیال بھی ا س کی حضوری سے چھپایا ہوا خیال میں نہ لائیں۔ اور اپنے اور اپنے خُدا کے درمیان کوئی چھت نہ بنائیں۔ تا کہ ہم کامل ہوتے جائیں۔
بے شک خُداوند یسوع مسیح نے ایک ہی قربانی گذراننے سے مقدسوں کو ہمیشہ کے لئے کامل کیا۔ اور اب بھی خُدا باپ یسوع مسیح کے چہرہ پر نگاہ کرتا۔ اور ہم سب کو جو اس میں رہتے ہیں دیکھتا ہے۔ اور وہ ہمارے انجام پر نظر کر تا ۔ نہ ہماری موجودہ حالت پر۔ یعنی ہماری اس وقت کی حالت پر جب کہ ہم اس کی صورت پر ہو کے جاگیں گے اور اس کو جیسا وہ ہے ویسا دیکھیں گے۔ اور اس لئے وہ ہم کو مسیح میں کا مل جانتا ہے۔ اور ہم بھی اس کو پہچانتے ہیں۔ کہ اس نے جو ہمارے دلوں میں یہ کام شروع کیا ہے۔ آخر تک انجام کو بھی پہنچا دے گا۔ لیکن ہماری حالت موجودہ ۔ اگر ہم اپنے خیالوں کو خُدا کے حضور پیش کریں۔ تو کیا ایسی ہے۔ کہ جس سےہم اس کے حضور اپنے تئیں کامل سمجھیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ پولوس فرماتا ہے۔ کہ ہنوز (ابھی) ایسا نہیں کہ میں پا چکا ۔ اور اب تک میں کامل نہیں ہوا۔ اور پھر کہتا ہے کہ جتنے کامل ہیں یہی خیال رکھیں۔
سو خُدا نے نہ صرف ابرہام کو کہا۔ کہ تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو۔ بلکہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ابدی کلام کے وسیلے بھی فر ما رہا ہے۔ کہ تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو ۔ آمین
[1]۔ یہ ایک کاغذ ہے جسے منشی میر عالم خان صاحب نے پریم سبھا لاہور کے رو برو بتاریخ ۲۷ جون ۹۴ء پڑھا۔
پریم سبھا کی نسبت یہاں پر فقط اتنا لکھنا ہی کافی ہو گا۔ کہ لاہور کے دیسی مسیحی نوجوانوں نے اس سبھا کو ۲۳ مئی ۹۴ء کیا اور اس کے ہفتہ وار جلسے مشن کالج مہان سنگ باغ اور مشن احاطہ نولکھا میں باری باری ہوتے ہیں۔ پریم سبھا کا خاص مدعا عملی کا م کرنا ہے۔ اور خُداوند کے فضل سے یہ دن بدن ترقی کر رہی ہے۔ ایم ۔ایل ۔ رلیارام آیزیری سیکڑی پریم سبھا لاہور۔