دُعا دو دھاری تلوار

Eastern View of Jerusalem

PRAYER DOUBLE-EDGED SWORD

 

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Dec 7, 1894

نور افشاں مطبوعہ۷دسمبر۱۸۹۴ ء

مجھے کامل یقین ہے۔ کہ جو لوگ عقل اور علم پر زیادہ بھروسہ رکھتے ہیں میری اس سرگذشت کو سن کر ہنسے گے۔ لیکن مسیحی ایمانداروں کے نزدیک یہ بات ناممکنات سے نہیں ہوگی ۔ کیونکہ اکثر کئی ایک  واقعات ان کے تجربہ سے گذرے ہوں گے۔

تخمیناً ڈیڑھ سال کا عرصہ گذرا ہے۔ کہ یک بیک مجھے کھانسی اور تخمہ ی بیماری نے آپکڑا ۔ اول اول میں نے چند علاج   ( جو بزرگوں کی زبانی سنے تھے) کئے۔ لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بعد میں نے اکثر یونانی حکما (حکیم کی جمع) کی ادویات کو آزما دیکھ لیکن صحت کہاں ( صحت تو خداوند کے لبوں میں پائی جاتی ہے) اس کے بعد میں نے انگریزی ڈاکٹروں کی طرف رخ کیا لیکن کسی کا معالجہ سود مند نہ ہوا۔ اور بیماری نے مجھے ایسا دبایا۔ کہ نہ تو بدن میں طاقت چھوڑی نہ دماغ میں قوت بعض بعض وقت جب میں نہایت لاچار ہوجاتا تھا۔ تو میری زبان سے اکثر باتیں خداوند کی شان کے بر خلاف نکلتی تھیں۔ اے ناظرین!۔ میری اس وقت کی مصیبت ایوؔب کی مصیبت سے کم خیال نہ کرنا شاد ہے۔ اپنے ہلاک ہونے میں دیری ذرا نہ تھی۔ بسمل تھا  نیم جاں کو تو چشم بقانہ تھی طرف ماجرا ہ باوجود اس سب  مصیبت کے  میں ایسا سنگدل تھا۔ کہ شفایابی کے لیے کبھی خدا سے دعا نہ مانگتا تھا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ شفا یابی کےلیے دعا مانگنا فضول بات ہے۔ کیا خداوند نہیں جانتا۔ کہ میرا بندہ بیمار ہے؟ وہ آپ ہی شفا بخشے گا۔

آخر کار

­­­­­ ایک رات کو مجھے اس مرض نے ایسا تنگ کیا۔ کہ میں زار زار رونے لگ گیا۔ اور اسی حالت  میں دعا مانگنا شروع کر دیا ۔ لیکن زبان سے تونہ رونے کی آواز اور نہ  دعا کے الفاظ نکل سکتے تھے۔ دل ہی دل میں رو رو کر اور آنسو بہا کر خداوند خدا کی منت کرتا تھا۔ کہ  (اے خدا باپ اس بیماری سے اپنے پیارے بیٹے یسوع مسیح کی خاطر مجھے نجات بخش ۔  آمین

 اسے فضل کرتے نہیں لگی بار  نہ ہو اس سے مایوس امید وار

صرف بارہ  یا پندرہ منٹ ہی میں میری حالت بالکل بدل گئے۔ اور مجھے کامل یقین ہو گیا۔ کہ اب بیمار ی کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ اور در حقیقت ایسا ہی ظہور میں آیا۔

تب روح القدس نے

 مجھے یہ تحریک دلائی ۔ کہ خداوند کی بخشش کا اظہار جہاں تک ہو سکے۔ ضرور کرنا  چاہیے ۔ لیکن میں نے صرف ایک دو موقعہ پر خداوند کی اس بڑی بخشش کا تذکرہ (ذکر) کیا۔ اس کے بعد میرے اپنے دل سے بھی یہ بات اٹھ گئی جس کی  سزا میں میں پھر بیمار ہو گیا۔ اور پھر بد ستور سابق بہت سے معالجات کئے لیکن  کسی سے فائدہ نہ ہوا۔ آخر پھر دعا کی طرف رجوع کیا اور شفا پائی۔ تب میں نے یقین جانا کہ دعا فی الحقیقت دو دھاری تلوار ہے۔ جس کا خالی از تاثیر ہونا دشوار ہے۔

حاصل ہوئی صحت مدد روح پاک سے  تقدیر ورنہ اپنی تو ایسی رسانہ تھی۔

میری غرض اس سرگزشت کے درج نور افشاں کرانے سے یہ ہے کہ پچھلے سال مجھے ایک مناؔ سونپ گیا تھا۔ جو کہ میں نے رومال میں لپیٹ کے زمین میں دفن کر دیا ۔ جس کی سز ا میں مجھے رونا اور دانت پیسنا پڑا لیکن اب کے سال مجھے دو منؔا سونپی گئی ہیں۔ اس لیے میں ایک توصراف کی کوٹھی میں جمع کراتا ہوں۔ تاکہ سود سمیت لوں۔ اور ایک سے آپ بیوپار کرنے کا ارادہ ہے۔ تاکہ بڑھتی ہے۔ اور جس وقت میرا مالک مجھ سےحساب مانگے اس سے عرض کروں۔ کہ دیکھ تیری اس منانے دو اور پیدا کئے تیرا تب میرا مالک مجھے اپنی خوشی میں شامل کرے۔

Leave a Comment