Prayer
By
Barkat Ali Ashraf
برکت علی اشرف
Published in Nur-i-Afshan October 4,1895
نور افشاں مطبوعہ ۴اکتوبر ۱۸۹۵ ء
یہ طریقہ خُداوند یسوع مسیح کی بدولت آتا ہے وہ اپنے تخت کے پاس بلاتا ہے وہ بتاتا ہے کہ کس طرح آنا اور کیا کرنا چاہیے فرض کرو ہم میں سے کسی کو کسی دنیا وی بادشاہ کے پاس جانے کا اتفاق ہو تو وہ بہت مضطرب(پريشان) ہو جائے گا اور دل میں سمجھے گا کہ میں نہیں جانتا کہ کیا کرنا اور کہنا چاہیے لیکن یسوع مسیح ہمیں سچے ہمدرد کامل اُستاد کی مانند گویا ہم سا بن کر اپنے فضل کے تخت کے پاس آنے کو کہتا ہے وہ بتاتا کہ کیا کہنا چاہیے وہ سکھاتا ہے کہ کیا کرنا ضرور ہے اور وہ اپناپاک روح عنایت کرتا ہے جو ہم سب کو دعا مانگنا سکھلاتا ہے اور ہر ایک کلام کا م میں ہم سب کی سچی راہنما ہوتی ہے۔
خُداوند نے اپنے بندوں کے لئے ہر طرح سے سہولت کی ہے تا کہ و ہ پشیمان(شرمندہ۔نادم) نہ رہیں اور بڑے بڑے مواقع اور فرصت بھی عطا فرماتا ہے تا کہ گنہگار بھی اپنے بُرے کاموں سے باز آکر اس کے آگے سجدہ کریں وہ ہر نوع(قسم) کی نعمتوں سے سیر کرتا ہے ۔ چنانچہ اُن میں سے اس نے دُعا مانگنے کی اجازت دی ہے ۔ اور یہ ایک بڑی عمدہ نعمت ہے۔ خصوصاً مصیبت و تنگی کے کے ایام میں جب کہ سوائے اس کے کوئی ساتھی و سانجی نہیں ہوتا اپنے بیگانے دوست آشنا کنارہ کش ہو جاتے ہیں ۔
تب دُعا نہایت دلچسپ و مفید اور شیریں ہے جو یہ اجازت بھی نہ ملتی تو سچ ہے کچھ نہ کر سکتے پر ہزار ہا شکر ہے اُس اچھے گڈریا کا جو اپنی بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہے یوحنا ۱۰: ۱۱ ۔ جب ہم لوگوں کے دل رنج سے بھر جاتے یا بیماری سے ضعیف(کمزور) ہو جاتے یا اپنی محنتوں کا ثمرہ(اجر۔پھل) نہ ملتے دیکھ کر غمگین اور پژ مردہ دل (مايوس۔مُردہ دل)ہوتے یا کامیابی کی اُمید سے مایوسی کی بھنور جال میں آجاتے یا زمانہ کے انقلاب میں آکر مفلسی(محتاجی) میں پڑ جاتے یا جب کہ غیر اقوام کے دستِ تہی( ظلم و ستم والے ہاتھ)کے حملوں سے ہر اسان (خوف زدہ) ہو جاتے یا کسی اور صعوبت (مصيبت) کا پلہ پڑتا ہے یا عزیز خویش و اقارب(دوست رشتے دار) والدین و اولاد کی طرف سے نازک دل پر بھار ی صدمے گزر جاتے ہیں تب اگر دعا نہ کر سکتے تو کیا پر اگندہ حالت و پریشان خاطر نہ ہوتے۔ لیکن اُوہو آہا بڑی تسکین و تشفی(تسلی) اس سے ہے کہ جس وقت خُدا کے حضور میں کسی نے اپنی عرض ( دعا ) کی تب ہی اس کی فریاد سنی گئی اور اپنی مراد کو پہنچا اور تسلی حاصل ہوئی اسی طرح دوسرے پہلو میں ایک بوڑھا عمر رسیدہ دُکھیا مایوس بیماری کے بستر پر پڑا ہو ا ہائے ۔ ہائے ! ہائے ! کرتا ہے جس کے جینے کی ایک لمحہ بھی اُمید نہیں ہے جس کو لوگ اور ڈاکٹر بھی یہ کہہ کر کر چھوڑ بیٹھے کہ ’’ یہ نہیں جئیے گا ‘‘ اس وقت کہن سالہ بوڑھا (بڑی عمر والا)بھی یہ سن کر کہتا ہے۔ اے یہواوہ مجھ پر رحم کر کیونکہ مجھ پر تنگی ہے ۔ زبور ۳۱ آیت ۹۔ تب وہ اپنے پاک وعدے کے مطابق آتا اور اس کو بڑی دھیمی اور ملا ئمیت کی آواز سے ارشاد فرماتا ہے کہ تیرے ایمان نے تجھے چنگا کیا سلامت جا۔ اُٹھ کھاپی اُن ماؤں کو جو اپنے بچوں کی تکلیف کو دیکھ کر ایک منٹ بھی گوارا نہیں کر سکتیں اور جن کے گود میں ان کے بے زبان لخت جگر جان بحق ہونے کوہيں وہ اپنے ہاتھوں کا سہارا دے کر دو بارہ ان کو زندگی بخشتا اور ان کے کلیجہ میں ٹھنڈک پڑتی وہ ڈوبتے جہازو ں کو صحیح و سلامت کنارہ پر پہنچاتا بھوکھوں کو سیر کرتا امیروں کو غریب اور گدا گروں(فقيروں) کو بادشاہ بناتا ہے اور اپنی قدرت کا سایہ سب کے اوپر رکھتا ہے اور کسی کو اس میں چون و چرا کی جگہ نہیں ہے واہ واہ کیا ہی عجیب حکمت ہے۔
پس اے نادان بھائی تو جو دُعا کو کام میں نہیں لاتا اور ناشکر گزاری ظاہر کرتا ہے اور آدمیوں اور مشنریوں پر بھروسہ کرنے والا ہے شرم کھا اور آمسیح تجھے بلاتا ہے اپنے سب دکھ اور رنج میں خُدا کے رحم پر بھروسہ و آسرا رکھ اور ہمت نہ ہار تکیہ کر۔ اس کی رحمت ابدی ہے وہ سب کا حافظ نگہبان ہے اگر چہ ماں کی محبت لاثانی ہے تاہم خُدا کی محبت کی مانند نہیں ہو سکتی وہ تیری سنے گا اور تیرے ساتھ ہمدرد ہو گا اور اس کی مہربانی اور فضل سے جو جو مصبتیں اور بوجھ نظر آتے ہیں وہی بڑے فائدے کا باعث ہو ں گے ۔ پاک کلام کی تلاوت کرنے سے اظہر (ظاہر) ہوتا ہے کہ کتنوں نے اپنی تنگیوں میں یہواوہ کو پکارا اور اس نے ان کی سخت مصیبتوں اور بندھنوں ۔ قید اور غلامی کے جوؤں سے نکالا ۔ چھڑ ایا ۔ خلاصی دلائی آزاد کر وا لیا اور خود ہمارے لئے وہ نمونہ ٹھہرے کہ ہم بھی ان کے حال پڑھ کر نصیحت حاصل کریں اس کو پکاریں اور ان کی طرح صدق دلی (سچے دل)سے دُعا میں ہمیشہ لگے رہیں اور اس ذریعہ سے اس کی پاک مرضی کو پورا کریں ۔ اور اس تاج آسمانی کو فتح یابی سے ليں۔
غرض اے مسیحی بھائی اور بہنوں بوڑھے اور جوانو آؤ۔ مسیحی قوم کی بہتر حالت کے لئے اور اسکی پائیدار ی و مضبوطی کے واسطے اور اپنی زندگیوں کو دوسروں کے فائدے کے لئے جس قدر ہو سکے مفید بنانے کے لئے جیسا کہ خُداوند یسوع مسیح نے اپنی زندگی کا نقشہ ہم سب کو دیا ہے اپنے اپنے گھروں میں دعائیں مانگیں اگر چہ جس قدر ہماری دعائیں بڑھتی اسی قدر ہماری تکلیفیں بھی زیادہ ہوتی جائیں۔ لیکن تو بھی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کو عمل میں لاؤ اور صابر رہو حوصلہ نہ ہارو گے تو آخر کو ضرور غالب آؤ گے اُٹھو جلد آسمانی ملکِ کنعان میں داخل ہونے کا سامان تیار کر و ا یسا نہ ہو کہ قا فلہ تیار ہو جائے اور ہم میں سے کوئی بے سرو سامان اُٹھو کر ہمراہ ہو لے اور اُن پانچ نادان کنواریوں کی طرح دوسروں کا محتاج بنے اور پھر پچھتانا پڑے یاد کرو کہ خُداوند اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے میں انکار نہ کرے گا ۔ بلکہ انہیں منظور فرمائے گا چین اور راحت و تسلی بخشے گا اور آسمانی ملک ِکنعان میں بغیر کسی رکاوٹ اور دقت کے خو د ساتھ ہو کر داخل کر ے گا وہ اپنا وعد ہ کر کر چکا ہے اور اسے کبھی بھی فراموش نہ کرے گا وہ صادق ہونے کے علاوہ محبت سے بھرا ہوا ہے اور اس محبت کی تاثیر بڑھتی رہے گی ۔يقيناً وہ ہماری دعاؤں کو سن کر رحم فرمائے گا بلکہ سنتے ہی جواب دے گا شرط یہہ ہے کہ ہم بھی اس ایماندار عورت کی مانند ہوئیں جو دامن کے چُھونے سے بارہ برس کی تکلیف سے شفایاب ہوئی اور اپنی مراد کو فوراً حاصل کر کے شادو راضی ہوئی۔ کا شکہ ہر ایک مسیحی سچے دل سے دعا گو ہو اور بائبل کی دعاؤں سے اپنے دل کو ترو تازہ معمور و بھر پور کرے اور جس کو وہ اپنی ہدایت کے لئے ( یعنی خُدا کے سارے کلام کو) فائدہ مند سمجھتا ہے ميز پر يا الماری میں سجاوٹ کے طور پر نہ رکھ چھوڑے بلکہ اس کے نمونے کو جو خود نجات دہندہ نے اپنے شاگردوں کو سکھا یا ۔ جسے اکثر دُعا ِربانی کہتے ہیں جو کہ ہدایت کے لئے ایک خاص قانون ہے۔ استعمال میں لا کر یہ کہہ سکے جیسا کہ زبور میں لکھا کہ اے یہوواہ تو اپنے نام کے واسطے مجھے جلائے (مُردوں سے زندہ کرنا )گا تو اپنی صداقت کے ساتھ میری جان کو تنگی سے نکالے گا ۔ آمین