ہماری زندگی

اِنسان کی زندگی میں خاص تین حالتیں ہیں یا یوں کہو کہ اِنسان کے ایام ِزندگی تین بڑے حصوں میں منقسم (تقسيم) ہیں۔ بچپن ۔ جوانی ۔ بڑھا پا ۔ ان میں سےعمر کا پہلا حصّہ والدین کی نگرانی اور اُستادوں کی سپردگی میں گزرتا ہے ۔ اور نابالغ ہو نے کی صورت میں دوسروں کی مرضی اور خواہش کے موافق چلنا پڑتا ہے باقی عمر دو حصوں کا بہت کچھ دارو مدار(انحصار) اسی پر منحصر (متعلق۔وابستہ)ہے۔ باقی پڑھیں

کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں

ہم کو نجات کی ضرورت ہے اس واسطے کہ ہم بڑے خطر ے میں ہیں۔ بلکہ واجب الموت ۔ گناہ گار ہو کر غضبِ الہٰی کے سزاوار۔ انجیل ہم کو مسیح کے وسیلہ اس گناہ اور موت سے چھٹکارا کی خبردیتی ہے ۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ ’’ آیا ہے کہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈھے اور بچائے ‘‘۔ ہم کو بہت چیزوں کی ضرورت ہے مگر ہماری اشد ضرورت نجات ہے ۔ بھوکے کی اشد ضرورت روٹی ۔ پیاسے کی پانی ۔ ڈوبتے ہوئے کی نکالا جانا ۔ گنہگار غضب ِالہٰی کے سزا وار کی اشد ضرورت نجات ہے۔ باقی پڑھیں

گرنتھ اور بائبل کا مقابلہ

ہم کو آدگر نتھ سے معلوم ہوتا ہے کہ نانک صاحب ایک دانا(عقلمند) اور خُد ا پرست شخص تھے۔ انہوں نے سادھوؤں اور گرؤوں کے بہت سے بھیکہہ پہنے اور سچائی کی تلاش میں بحالت تشنگی و گرسنگی(پياس و بھوک) صحرانورد(جنگلوں ميں رہنا)ر ہے۔ اور آخر کوست گرو ہری ابن اللہ سے آگاہ ہو ئے اور بدل و جان اس کی پرستش شروع کی۔ باقی پڑھیں

اچھا چرواہا میں ہوں

اب وہ لوگ جو کہا کرتے ہیں ۔ کہ اگر مسیح خُدا ہے۔ تو اس کو ایسی کیا غرض اور ضرورت تھی ۔ کہ وہ اوروں کے بدلے دنيا میں آ کر دُکھ اُٹھائے ۔ اور صلیبی موت کو اختیار کرے ۔ گم شدہ اِنسان کی قریب الہلاکت حالت پر ۔ اور خُداوند کی محبت اور اس کے رحم و کرم پر کچھ غور و فکر کریں۔ تو معلوم ہو گا کہ مسیح کا مجسم ہو کر دُنیا میں آنا ۔ باقی پڑھیں

ہم نے سُنا بھی نہیں کہ رُوح القدس نازل ہوا ہے

یہ جواب افسس شہر کے ان شاگردوں نے پولوس رُسول کو دیا تھا۔ جب کہ وہ اُوپر کے اطراف ملک میں انجیل سُنا کر افسس میں پہنچا ۔ اور اس نے پوچھا۔ کیا تم نے جب ایمان لائے رُوح القدس پايا ؟ اگرچہ یہ لوگ کمزور ۔ اور بغیر رُوح القدس پائے ہو ئے عیسائی تھے۔ تو بھی شاگرد کہلائے کیونکہ وہ مسیح خُداوند پر ایمان رکھتے تھے۔ باقی پڑھیں

کوئی دانش مند کوئی خدا کا طالب نہیں

اس میں شک نہیں کہ انسانی خود پسند طبیعت ۔ اور فریب خورد ہ دل کو یہ بات پسند نہیں ۔ کہ وہ الہام کی ایسی آواز سُنے کہ ’’ سبھوں نے گناہ کیا ‘‘ ۔ سب کے سب بگڑے ہوئے ہیں ۔ اور کوئی نیکو کار نہیں ایک بھی نہیں لیکن خواہ کوئی ان باتوں کوقبول و پسند کرے یا نہ کرے وہ درحقیقت بہت ہی صحیح ۔ باقی پڑھیں

رُوح القدس اور محمد

اور ميں اپنے باپ سے درخواست کرونگا۔اور وہ تمہيں دوسرا تسلی دينے والا دے گا۔کہ تمہارے ساتھ ابد تک رہے۔يعنی سچائی کا رُوح جسے دُنيا نہيں پا سکتی۔کيونکہ اُسے نہيں ديکھتی نہ اُسے جانتی ہے۔ليکن تم اُسے جانتے ہو۔کيونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے۔اور تم ميں ہو گا۔يوحنا:۱۴۔۱۷:۱۶ ۔ باقی پڑھیں

لیکن اگر خُدا کی طرف سے ہے

گملی ايل اس وقت تک نہ جانتا تھا ۔ کہ وہ ناصری جس نے ایسا بڑا دعویٰ کیا کہ ’’ راہ حق اور زندگی میں ہو ں ‘‘ وہ ہی ہے جو اسرائیل کا مخلصی و نجات دینے والا خُدا وند ہے۔ اور اسی کےنام کی منادی یہ گلیلی لوگ کرتے ہیں ۔ جو قوم کے نزدیک واجب القتل (قتل کرنے کے قابل)ٹھہرے ہیں۔ مسیحیت کو وہ ’’ تدبیر یا کام ‘‘ سمجھا ہوا تھا۔ جو خواہ اِنسان یا خُدا کی طرف سے ہو ۔ باقی پڑھیں

اِسی طرح جب تُم اِن سب باتوں کو دیکھو

’’ یہ سب دیکھو ‘‘ ۔ یعنی مسیح کے آنے کی علامتیں ۔ منجملہ جن کے یہ کہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھیں گے۔ اور ایسے بڑے نشان اور کر امتیں (انوکھا پن)دکھائیں گے۔ کہ اگر ہو سکتا تو برگزیدوں (خُدا کے چُنے ہوئے)کو بھی گمراہ کرتے ‘‘۔ ہم آج کل اپنے ہی ملک میں کیسا صاف دیکھ رہے ہیں۔ کہ کوئی مہدی اپنے کو ظاہر کرتا ۔ تو کوئی اپنے کو مثيلِ مسیح ٹھہراتا ہے۔ باقی پڑھیں

وُہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے۔

اس طرح ہر زمانے میں ایسا ہی رہا ہے۔ چنانچہ آج کل بھی ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ بڑے بڑے عالم وفاضل لوگ اپنے علم و عقل کے دیوانے ہو کر مسیح اور مسیحی دین کی مخالفت میں زبان کھولتے اور بُرا بھلا کہتے اور لکھتے ہیں ۔ وہ اپنی عقل پر تکیہ(بھروسہ) کر کے خُدا کی قدر ت کے منکر (انکار کرنے والے)بن جاتے ۔ باقی پڑھیں