ہماری پل بھر کی مصیبت

Eastern View of Jerusalem

OUR LIGHT AND MOMENTARY TROUBLES

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Aug 10, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۱۰اگست ۱۸۹۴ ء

’’ہماری پل بھر کی ہلکی مصیبت کیا ہی بے نہائت اَور بھی بھاری جلال ہمارے لیےپیدا کرتی ہے۔   کہ ہم نہ اُن چیزوں کو  جودیکھنے میں آتی ہیں۔ بلکہ ان  چیزوں پر جو دیکھنے میں نہیں آتی وہ چند روز کی ہیں۔   اَور جو دیکھنے میں نہیں آتیں ہمیشہ کی ہیں‘‘(۲۔کرنتھیوں ۴:  ۱۷۔ ۱۸)۔

  گزشتہ نمبر میں ہم نے  یہ بیان کیا  کہ مسیحیوں کو اہلِ دُنیا سے کس قدر  اندرونی و بیرونی  اذیتیں  اَور تکلیفیں پہنچتیں۔اور  اس مسافرت کی سرزمین  میں اُنہیں کس  قدر آزمائشوں اَور مصیبتوں کا روز مرہ  سامنا کرنا پڑتا ہے۔  اَور ایسا ہونا مسیحیوں کی لیے  ضروریات سے ہے۔  کیونکہ اُن کی نجات کے پیشوا نے اس امر  کی پیش گوئی کی اَور فرمایا ہے۔ کہ ’’ تم   دنیا  میں مصیبت اٹھاؤ گے لیکن خاطر جمع رکھو  کہ میں دُنیا پر غالب آیا ہوں‘‘(  یوحنا ۱۶:  ۳۳)۔

 پس ضرور  ہے کہ  ہم بہت  دُکھ  سہہ  کے آسمان کی بادشاہت میں داخل ہوں۔  اَور دنیوی چند روزہ مصیبتوں اَور تکلیفوں  سے جو  صرف مسیح کو خداوند کہتے ہیں۔  اَور اُس پر ایمان رکھنے کے باعث ہم پر گزرتی ہیں۔ بے دل نہ ہوں اَور گھبرا نہ جائیں۔  اَور اس یقین  سے  کہ ہمارا  خداوند  ہماری  حالت  سے بخوبی آگاہ ہے استقلال اَور صبر کے ساتھ مطمئن رہیں۔  کیونکہ  پطرس   رسول نے  لکھا ہے۔  کہ’’ اگر کوئی مسیحی ہونے کے سبب  دُکھ پائےتو نہ شرمائے۔  بلکہ اس  سبب سے  خدا کی بزرگی کرئے‘‘(  ۱۔ پطرس ۴: ۱۶)۔

یہ ایک مشہو ربات  ہے اور گویا انسانی طبیعت میں شامل ہے کہ آدمی اپنے آپ  کو بہ نسبت دوسروں کے زیادہ تر عقیل(دانا اور ذکی آدمی) و دانا اَور مہذب و شائستہ سمجھ کر  ہمیشہ یہی خیال کیا کرتا ہے۔   کہ

’’ہمچومن دیگرے نیست‘‘

تم دنیا میں مصیبت اٹھاؤ گے لیکن خاطر جمع رکھو کہ میں دُنیا پر غالب آیا ہوں

  اَو رایسا ہی وہ  اپنے آبائی مذہب  کی نسبت سمجھتا ہے کہ جو مذہب میری  میراث میں مجھ کو ملا ہے۔ اُس  سے  بہتر دنیا  میں اَور کوئی مذہب نہیں ہے۔   ایسے خیال والا آدمی  کسی بات میں  ہرگز ترقی نہیں کرسکتا۔ ا ورنہ تحقیقِ مذہب  کا کبھی خیال اُس  کے دل   میں گزر سکتا ہے۔  ہم نے اکثر  ہندو  محمدی نوجوانوں کہ یہ کہتے سنا ہے۔   کہ ہمارے آباؤ اجداد  عقل و تمیز میں  ہم سے کچھ کم تھے۔  جو مرتے دم تک   اپنے مذہب میں قائم  رہے۔  اَور کسی نئے مذہب   کی طرف ہرگز توجہ نہ کی۔  ایسے موقع پر  ہمیں  اُس سمندر کی مچھلی  کا قصہ یاد آتا ہے۔ جو ایک ماہی گیر کے چنگل سے چھوٹ کر  ایک کنویں میں گر گئی۔  جب کنویں کے مینڈکوں نے  اس  عجیب الخلقت کو دیکھا۔ تو بڑی حیرانی و تعجب  ساتھ ڈرتے ڈرتے  اُس پوچھا۔ ’’  آپ کس ملک کی رہنے والی ہیں‘‘؟  مچھلی نے جواب دیا ’’ سمندر کی‘‘۔  ’’سمندر کتنا بڑا  ملک ہے‘‘؟’’  بہت بڑا‘‘۔  اس پر سوال کرنے والا مینڈک  تھوڑی دور سرک گیا ۔ اَور کہا ’’ شائد اتنابڑا‘‘؟  مچھلی نے کہا ’’اس سے بہت بڑا‘‘۔ بالاآخروہ مینڈک پیچھے کی طرف ہٹتے ہٹتے کنوئیں کی دیوار مقابل سےجالگااور مچھلی سے پوچھا’’کیا سمندر اتنا بڑا ملک ہے‘‘؟لیکن جب پھر جواب ملا کہ ’’اس سے بہت بڑا‘‘۔تو وہ بہ تمسخر یہ کہہ کر کہ ’’سب جھوٹ ہے ‘‘اپنے ٹرٹرانے میں مشغول ہوگیا۔یہی  حال اکثر لوگوں کا مسیحیت کی نسبت ہے کہ وہ بغیر اس کی ماہیت کو دریافت کئے صرف برائے تعصب کہہ دیتے ہیں کہ مسیحیت میں کچھ حقیقت نہیں ہے اور کوئی عام عقل والا آدمی بھی اس کو کبھی پسند نہ کرئے گا ۔چنانچہ مہر نجیروزلکھتا ہے کہ

’’اگر مسیحی مذہب مہذب (تہذیب یافتہ،نیک خصلت)ہوتا تو مہذب لوگ اس کو قبول کرلیتے ۔۔۔۔ ولایت (سر پرست ہونا،ولی کا مرتبہ،سلطنت) کو ہمیشہ افسوس ہی کرنا پڑے گا ۔ مہذب لوگ ہر گز اس مذہب کو قبول نہ کریں گے‘‘۔

 معلوم نہیں کہ ہمارے ہم عصر(ہم زمانہ) کی سمجھ میں مہذب کے کیا معنی ہیں اور وہ مہذب کن کو سمجھتا ہے ۔محمدیوں کو یا کہ ہندوؤں کو ؟ شاید وہ اپنے خیال میں بمقابلہ ہندوؤں کے محمدیوں ہی کو مہذب سمجھتا ہے جن کی تہذیب کی سب سے بڑی علامت کثیر الازدواجی(ایک سےزیادہ شادیاں کرنا) ، بردہ فروشی(غلاموں کی تجارت) ،جہادومنادوغیرہ ہیں۔ اور جن کی تہذیب وشائشتگی کا اظہار ہرسال ایام محرم پر ظہور میں آتا ہے ۔جیسا کہ ابھی علی گڑھ میں واقع ہواہے اور جس کی مفصل کیفیت نامہ نگار طوطؔی ہند میرٹھ نے لکھی ہے ۔ یہ تو ہند ی محمدیوں کی تہذیب کا حال ہے ۔اب ذرا مکہ معظمہ کی جو دارالاسلام ہے۔اور باتوں سے جو دوران حج میں واقع ہوتی ہیں ۔قطع نظر کرکے ایک تازہ کیفیت کا حال سنئے جس سے محمدیوں کا مہذب اور تعلیم یافتہ ہوناکیسا ظاہرہوتا ہے۔

 انگریزی اخبار لکھتا ہے کہ چونکہ آئے برس موقع حج پر مکہ میں ہیضہ حاجیوں پر حملہ شدید کئے بغیر نہیں رہتا ۔لہٰذا اب کے سال انتظام حفظِ صحت(صحت کی حفاظت) کے لیے سلطان المعظم نے چند چیدہ ڈاکٹربھیج دئیے تھے ۔جنہوں نے یہ مناسب و معقول انتظام کیا کہ جس روز حاجی لوگ مکہ میں آئیں تو ان کو معہ اسباب کے جو ان کے پاس موجود ہو آلات تبخیر (ایسے آلات جو کھاناکھانے کے بعد دماغ کو چڑھتے اور جسم کو بھی قدرے گرما دیتے ہیں )کے ذریعہ دھونی دی جائے اور تمام مکان اور بازاروں اور گلی کوچوں میں ہوا صاف کرنے کے لیے گندھک اور خوشبو وغیرہ سُلگتی رہے۔یہ امراءحکماء اور متعصب علماء محمدی کو نہایت ناگوار گزرا ۔انہوں نے خفیہ ایک خود غرضانہ سازش کرکے عام محمدیوں کو یہ کہہ کر بدظن کردیاکہ ڈاکٹر لوگ تم سب  کوکرسٹان (مسیحی)کرنا چاہتے کہ تنفس (سانس)کی راہ سے ایسی ادویہ لوگوں کے جسم میں داخل کردی جائیں جو فرنگیوں(غیرملکی انگریزوں) نے سور کی چربی سے مرکب کی ہیں ۔یہ افواہ فوراً دور ونزدیک پھیل گئی اور محمدی مہذب لوگ ڈاکٹروں سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہوگئے ۔ بیچارے ڈاکٹروں نے فوجی حفاظت میں پناہ لی اور فوراً سلطان المعظم کی خدمت میں پیغامات تاربرقی کے ذریعہ اس کیفیت کی خبر بھیجی ۔اگر ڈاکٹر لوگ دھونی دینا بند نہ کردیتے تو محمدی تہذیب کا خوب ہی مزہ چکھتے ۔

Leave a Comment